Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Prospectus

Prospectus

پراسپکٹس

گورنمنٹ کالج لاہور نے میری زندگی اور سوچ کے زاویوں کو حقیقی معنوں میں بدل ڈالا تھا، گاؤں کا باسی جو اپنی محدود زندگی میں خوش تھا، دو وقت کی روٹی بآسانی دستیاب تھی، جب پہلی مرتبہ انٹرمیڈیٹ میں داخلہ کیلئے کالج کی پراسپکٹیس ہاتھوں میں تھامے کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کے لان میں بیٹھا اسے پڑھ رہا تھا تب بڑے بھائی نما کزن صدیق منیر کھوکھر اور رانا عامر سعید کا گزر ہوا، مجھے مطالعہ میں غرق دیکھ کر صدیق صاحب نے کہا "فقط داخلہ فارم پر نہیں کرنا بلکہ اس کے اندر جو تعارف اور پیغام لکھا ہے، اسے غور سے پڑھو اور سمجھنے کی کوشش کرو"۔ پراسپیکٹس کے چند اوراق نے ہی میرے چھکے چھڑا دیئے تھے، میں سوچا "یہ میں کہاں پھنس گیا ہوں"۔

استقبالیہ ڈے پر بخاری آڈیٹوریم میں پرنسپل ڈاکٹر خالد آفتاب کی جگہ وائس پرنسپل جاوید شیخ نے استقبالی خطاب کے دوران ہاتھ میں وہی پراسپکٹس تھام رکھی تھی، ان کے خطاب کا مختصر لب لباب یہ تھا "گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم کے طور پر، آپ کو پاکستان کی کریم سمجھا جاتا ہے، ہجوم سے الگ، یہاں آپ بہت کچھ نیا سیکھیں گے، ایک ایسی تعلیم اور ماحول کا تجربہ کریں گے جو نہ صرف بہتر بلکہ مختلف بھی ہے، آپ اعلیٰ ترین لوگ ہیں، مستقبل کے رہنما، آپ ایک جنٹل مین کی تطہیر اور وقار کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلیں گے، آپ کے بولنے کا طریقہ، آپ کی چال، آپ کی ذہنیت، یہ سب آپ کو دوسروں سے ممتاز کر دیں گے، یہاں زندگی صرف زندہ رہنے کے بارے میں نہیں ہے، یہ ایک مقصد دریافت کرنے اور انسانی وجود کے بہترین پہلوؤں کو اپنانے کے بارے میں ہے، آرٹ، موسیقی، ثقافت اور سفر، ان کے بغیر زندگی محض روزمرہ کے رزق کا حصول بن جاتی ہے، آپ نے زندگی میں کچھ ایسا مثبت عمل کرنا ہے کہ آپ کا نام، آپ کے بعد بھی زندہ رہے، فقط دو وقت کی روٹی کے پیچھے نہیں بھاگنا، رب نے روٹی کا وعدہ کیا ہے لہذا اس بارے بے فکر ہو جائیں، دوسروں کی جیب پر نظر نہیں رکھنی اور ٹھگ بازی والا طرز زندگی اختیار نہیں کرنا، یہ تعارف ایک طاقتور پیغام رکھتا ہے جو طلباء کی مخفی صلاحیتوں کو ابھارنے اور وعدوں کی تکمیل سے عبارت ہے، یہ صرف ایک ادارہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ کی زندگی بدل سکتی ہے، سیکھنے کی ہمت اور آگے بڑھنے کی ہمت، اس کالج کے در و دیوار بڑے بڑے مشاہیر کے نام سے بھرے پڑے ہیں، جن کرسیوں پر بیٹھ کر آپ پڑھیں گے، بہت بڑے بڑے نام آپ سے پیشتر انہی کرسیوں پر بطور طالب علم بیٹھتے تھے، یہ ایک تاریخی ورثہ ہے، اس ورثہ کی آپ نے حفاظت کرنی ہے اور اپنا نام ان کے ہمراہ لکھوانے کی بھرپور سعی کرنی ہے، یہ محض ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک مکمل لائف سٹائل ہے"۔ اس تقریر نے ہمارے پسینے چھڑانے کے ساتھ زندگی کی حقیقی صلاحیتوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے میرے نقطہ نظر کو نئی شکل دی۔

نیو ہوسٹل میں کمروں کی الاٹمنٹ میرٹ لسٹ پر ہوتی تھی اور کمرے ابھی خالی نہ تھے، کمرہ ملنے تک اپنی چھوٹی خالہ بشریٰ کے گھر واقع شیش محل روڈ پیرمکی میں قیام کرنا پڑا، ڈیڑھ مرلے کا تین منزلہ گھر، سب سے نچلے پورشن پر مجھے کمرہ دیا گیا۔

مین کیمپس کے اوپری فلور پر سب سے پہلا پیریڈ انگریزی کا ہوتا تھا، لیکچرار انگریزی جناب صاحبزادہ فیصل خورشید گیلانی جو اتفاق سے ہوسٹل وارڈن بھی تھے، ہم نالائقوں پر بہت سر کھپاتے، رٹے لگانے کی بجائے سمجھ کر پڑھنے کی صلاحیت انہوں نے ہی سکھائی تھی، پہلے دو مہینے پریشر میں گزرے، کچھ پلے نہ پڑتا تھا، سب سے زیادہ مشکل انگریزی بولنے میں پیش آتی تھی اور صبح سے شام تک مشقت کا ایک نہ ختم ہونے والا دورانیہ تھا۔

کچھ ہم جماعت ایچی سن کالج سے آئے تھے اور ان کی انگریزی بولنے کی رفتار بہت اچھی تھی جبکہ ہم جیسے محض گزرا پر ہی قناعت کرتے تھے، میری انگریزی بولنے کی جھجک انہوں نے دور کروائی تھی، ایک دن انگریزی میں بولنے کیلئے مضمون خود سے لکھنے کا حکم ملا، میں خوب رٹے لگا کر تیاری کی، اگلے دن کلاس میں سب سے پہلا آرڈر میرے نام جاری ہوا، میں بڑے اعتماد سے کھڑا ہوا، گلا کھنگار کر صاف کیا اور منجھے ہوئے وکیل کی طرح عدالت کے روبرو انگریزی بولنا شروع کی، ساری کلاس مطمئن نظر آئی، اعتماد بڑھنے پر میرا حوصلہ بلند ہوا لیکن آخر میں کچھ لفظ بھول گیا جو فٹافٹ اردو میں بول دیئے جس پر کلاس کے قہقہے اور میرا شرمندہ ہونا لازم تھا۔

سینیرز سے تعارف و دوستی ہونا شروع ہوئی تب کچھ اعتماد بحال ہوا، تیسرا پیریڈ اکثر وبیشتر فری ہوتا، ہم کبھی کنٹین جا کر فانٹا اور سموسے انجوائے کرتے، کبھی اوول گراؤنڈ میں دوڑیں لگاتے، جب اکنامکس کے مشکل سبق درپیش ہوتے تو بخاری آڈیٹوریم کے سامنے سبزہ زار میں کسی سینیر کی منتیں کرتے، اگر کوئی مدد کو آمادہ ہوتا تو تدریسی مواد سمجھنے اور سیکھنے کی اپنے تئیں بھرپور سعی کرتے۔

کچھ سینیرز ہماری بھرپور کلاس لگاتے، ہمارا ایک گروپ بن گیا جس کی سب سے سینیر ممبر ہٹی کٹی موٹی تازی نک چڑھی بلیڈ مارکہ زبان کی مالک مس غزالہ فائنل ایئر اکنامکس سٹوڈنٹ تھی، جو بھی اس سے پنگا لیتا اپنے منہ کی کھاتا، میری اس سے صحیح معنوں میں چھیڑ چھاڑ ہوتی تھی۔

دسمبر کی ایک سہانی صبح میں اکنامکس کے کچھ اصول سمجھنے کی بار بار ناکام کوشش کر رہا تھا، ہر کسی نے مجھے سمجھانے کی پوری کوشش کی لیکن میں ہی نالائق چکنا گھڑا ثابت ہو رہا تھا، اسی اثناء میں غزالہ نے مجھے آواز دی، "اوئے ہیرو گھر سے پڑھنے آتے ہو یا لڑکیاں تاڑنے؟"

یہ حملہ میرے لئے غیر متوقع تھا، میں سبق بھول کر اپنی صفائی دینا غنیمت سمجھا، قصہ مختصر جو کچھ یاد تھا وہ بھی بھول گیا، میں عرض گذار ہوا "سبق یاد کرنا میرے لئے مسئلہ نہیں لیکن میں اسے ٹھیک سے سمجھنا چاہتا ہوں، اگر ناکام رہا تو سر اشتیاق صاحب کلاس میں کھڑا کردیں گے اور بہت بےعزتی ہوگی"۔ جب غزالہ اچھی طرح میری کلاس لگا چکی تو میرا اترا ہوا منہ دیکھ کر اسے ترس آگیا، میرے ہاتھ سے تدریسی کتاب تقریباً چھینتے اور ورق گردانی کرتے بولی "دکھاؤ، کیا پڑھ رہے تھے؟" میں ہمت جمع کرکے نشاندہی کی تو بولی "یہ تو بہت آسان سا کام ہے، یوں چٹکیوں میں سکھا دوں گی، بس میں چیک کر رہی تھی کہ کہیں کتاب میں لڑکیوں کی تصویریں تو نہیں رکھیں"۔ جان کی امان پا کر اسے مشکل بتائی تو سچ مچ غزالہ نے چند منٹوں میں انتہائی آسان الفاظ میں سمجھا دیا۔

اس دن کے بعد غزالہ موٹی کی صورت میں مجھے ایک بڑی بہن کے ساتھ ساتھ اکنامکس ٹیوٹر بھی مل گئی، اپنے تئیں میں مفت ٹیوشن پڑھنے کی پوری کوشش کی لیکن بے سود، اس "مفت ٹیوشن" کے نام پر غزالہ مجھ سے جتنے سموسے اور فانٹا اینٹھ لیتی تھی، ان سب کی جمع شدہ مالیت ماہانہ ٹیوشن فیس سے بڑھ جاتی تھی لیکن پھر بھی احسان میرے سر پر ہوتا تھا کہ "تجھ جیسے کوڑھ مغز کو سمجھانا ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے مترادف ہے، تمہیں پڑھاتے پڑھاتے میرا اپنا دماغ خشک ہو جاتا ہے، اپنا دھیان لڑکیوں پر سے ہٹا کر کتاب پر توجہ رکھ، ابا جی کی کمائی لڑکیوں پر برباد مت کر"۔ جبکہ ہمارے اردگرد کوئی لڑکی نہ ہوتی تھی، میں مسکین سی شکل بنا کر عذر پیش کرتا "کتاب ہی پڑھ رہا ہوں"۔ تو اس کا یہ جواب سر پر آن پڑتا، "میں بہتر جانتی ہوں یا زیادہ ٹیں ٹیں نہ کر"۔

ایک دن میں کنٹین سے نکل کر پرنسپل آفس کے پاس سے گزر رہا تھا کہ ٹیلی فون بوتھ (سال1997-1999) کے پاس غزالہ دکھائی دی، وہ جیسے میری ہی راہ تک رہی تھی "اوئے ہیرو، ادھر آ"۔ بیچارے شاگرد کو حکم کی تعمیل کرنا پڑی، حکم صادر ہوا "جلدی جلدی اپنا فون کارڈ دو، مجھے ایک ضروری کال کرنی ہے"۔ میں بہانہ بنایا "میرے پاس کارڈ نہیں ہے"۔ قصہ مختصر سہ ماہی ٹیسٹ سر پر تھا اور قہر درویش برجان درویش، وہ فون کارڈ مجھے آج تک واپس نہیں ملا۔

جس دن میں کسی حکم کی تعمیل کرنے سے انکار کرتا، اگلے دن "مفت ٹیوشن" پڑھنے کا ہرجانہ بھی ادا کرنا پڑتا، خالہ بشریٰ سے السی کی پنیاں بنوا کر خدمت میں پیش کرتا، جتنی وہ آسانی سے کھا سکتی، کھا لیتی، باقی لپیٹ کر اپنے پرس میں رکھ کر گھر لے جاتی، جب تک السی کی پنیاں ختم نہ ہوتیں میری جان بخشی کا دورانیہ برقرار رہتا اور پورے انہماک سے پڑھائی ہوتی، پنیاں ختم ہوتے ہی کوئی نہ کوئی فتویٰ میرا منتظر رہتا اور مجھے نئے سرے سے کوئی نذرانہ پیش کرنا ہی پڑتا، یہ مصاریف میں ابا جی سے ملنے والے ماہانہ خرچ میں"مفت ٹیوشن" کے کھاتے میں ڈال کر گالیاں بھی سنتا تھا۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan