Tuesday, 25 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Mujhe Parwah Nahi

Mujhe Parwah Nahi

مجھے پرواہ نہیں

باکو کیلئے فلائی دبئی کی فلائٹ صبح تین بجے ٹرمینل 2 سے شیڈول تھی، میں بارہ بجنے سے پہلے پہنچ چکا تھا، بورڈنگ پاس میں پہلے ہی لے چکا تھا، معمول کی امیگریشن بعد ڈیپارچر لاؤنج میں داخل ہوا، دبئی ایئرپورٹ دنیا کے مصروف ترین ایئرپورٹس میں سے ایک ہے، یہاں چوبیس گھنٹے رونق رہتی ہے، دنیا جہان کی ہر نسل و قوم کا بندہ یہاں نظر آتا ہے، رونقوں سے لطف اندوز ہوتے سگریٹ کی طلب ہوئی۔

گوشہ برائے تمباکو نوشی کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا، دروازہ کھولتے ہی کھچا کھچ بھرے کمرے میں سگریٹوں کے بھرپور دھویں نے پھیپھڑوں کو سلامی دی، سگریٹ ابھی سلگایا ہی تھا کہ شکیب خان کا باکو سے واٹس ایپ میسج آیا، وہ فلائٹ کا ٹائم پوچھ رہا تھا تاکہ ایئرپورٹ پر استقبال کیلئے آ سکے، اسے بتایا کہ فلائٹ علی الصبح پہنچے گی، ایسے وقت ایک شریف آدمی کی نیند خراب کرنا گناہ کبیرہ ہے لہذا میں پہنچ کر خود ہی رابطہ کرلوں گا، اچانک یاد آیا کہ شکیب کیلئے خریدا پرفیوم حائل میں بھول آیا تھا، وہاں سے اٹھ کر ڈیوٹی فری شاپ کی طرف بڑھا، شکیب کے اعلیٰ ذوق کے مطابق ایک اچھا پرفیوم خریدا۔

دبئی ایئرپورٹ پر وائٹ کریم کوفی بہت اعلیٰ درجے کی ملتی ہے، چھ درہم کے سکے آٹومیٹک وینڈر مشینیں کے کوائن سلاٹ میں ڈالیں، کوفی منتخب کریں، بٹن دبائیں، چند لمحات بعد خوشبو اڑاتی کوفی کا کپ نیچے بنے پک آپ سلاٹ میں نمودار ہو جاتا ہے، میں جب بھی یہاں آیا، اس کوفی کا ایک کپ ساری تھکن اتار دیتا ہے۔

صبح دو بجے گیٹ نمبر 7 سے فلائٹ اناؤنس ہوئی، لمبی لائن، مجھ سے آگے دس بارہ پاکستانیوں کے ایک گروپ کو امیگریشن والوں نے روک رکھا تھا، عملے کی اونچی آوازوں سے معلوم ہوا کہ انکے پاس ٹریول انشورنس نہیں تھی، حلیے سے واضح نظر آیا کہ کوئی بھی جینوئن مسافر نہ تھا، امیگریشن والے انہیں آف لوڈ کرنا چاہتے تھے، کچھ مسافروں کے نامکمل سفری کاغذات باعث امیگریشن عملہ نے انہیں لائن سے نکال کر موقع پر جرمانہ یا آف لوڈ کر دیا۔

میری باری آنے پر عملے نے پاسپورٹ چیک کیا اور سرسری معائنے کے بعد آگے جانے کا اشارہ کیا، ٹرمینل سے باہر جہاز تک جانے کیلئے بس موجود تھی، بہت زیادہ فلائٹس کی آمد و رفت باعث ہر ہوائی جہاز کو ٹرمینل بلڈنگ تک رسائی نہیں ملتی لہذا بس کے ذریعے مسافران کو طیاروں تک پہنچایا جاتا ہے، بس میں پانچ پاکستانی فرام کراچی نظر آئے، تین لڑکے اور دو لڑکیاں، تعارف پر معلوم ہوا کہ یوٹیوبرز ہیں اور اپنے چینل کیلئے وڈیوز بنانے باکو جا رہے ہیں، انکے استفسار پر میں نے بتایا "مجھے روسی زبان آتی ہے"، میک آپ زدہ سخت مشکی رنگت والی لڑکی نے گرمجوشی سے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا، "میں نے سنا ہے کہ وہاں رشین زبان بولتے ہیں، آپ ہماری رہنمائی بھی کر سکتے ہیں، ویسے آپ باکو میں کہاں قیام کر رہے ہیں اور کتنے دن؟"

میں جواب دیا "پارک پلازہ ہوٹل، پانچ دن"، نئی تجویز آئی "آپ اپنا واٹس ایپ نمبر دیں بلکہ ہمارے گروپ کے ساتھ ہی شامل ہو جائیں "، میں عرض کیا "مجھے خوشی ہوگی لیکن میرے اپنے کچھ پلان ہیں "، وہ مصر ہوئی "آپ ساتھ رہیں گے تو مقامی زبان سے آشنائی باعث ہماری بہت مدد ہوگی"، میں عرض کیا "وعدہ نہیں کرتا لیکن کوشش کروں گا"، اس نے خوش ہو کر اپنا موبائل نکالا اور گروپ کو الرٹ ہونے کا اشارہ کرکے بولی "ایک عدد سیلفی ایش کے ساتھ"۔

گروپ کے ایک پاکستانی لڑکے نے ناگواری سے میری طرف دیکھا اور اس لڑکی کے کان میں کچھ بولا، لڑکی کے تاثرات سے معلوم ہوا کہ بات اسے اچھی نہ لگی تھی، لڑکی نے جوابی اس کے کان میں کچھ کہا، اب لڑکے کے تاثرات ناگوار تھے، مجھے دخل اندازی کرنا پڑی "آپ لوگ میری وجہ سے پریشان مت ہوں، باکو کے لوگ بہت اچھے اور دوستانہ مزاج والے ہیں، امید ہے کہ آپ کو میری مدد کی ضرورت پیش نہ آئے گی، آپ اپنا سفر انجوائے کریں"۔ گروپ لیڈر نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور بولا "پلیز آپ مائنڈ مت کریں "، میں نے جواب دیا "میں تو بالکل مائنڈ نہیں کیا، مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ کون کس کے ساتھ، کہاں اور کیوں جا رہا ہے، میں سفر کو انجوائے کرنے اور یادگار بنانے کا قائل ہوں "، گروپ نے اس لڑکے کی سرزنش کی اور سب نے باری باری معذرت کی، میں بھی فراخ دلی سے جواب دیا "اگر میری مدد کی ضرورت پڑے تو بلا تکلف یاد کرلینا"، اب ماحول نارمل ہو چکا تھا، گروپ لیڈر نے مجھ سے میرا واٹس ایپ نمبر مانگا جو میں دیدیا۔

میں دروازے کی طرف دیکھنے لگا کہ مزید کتنے مسافر آ رہے ہیں، گروپ لیڈر نے مجھے مخاطب کیا "مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ آپ کافی ٹریول کرتے رہتے ہیں؟"، میں جوابی مسکرایا "وہ کیسے؟"، گروپ کی دوسری لڑکی نے دخل اندازی کی "آپ کا کانفیڈنس لیول دیکھ کر"، تمام گروپ نے اسکی تائید کی، میں مسکرا کر بولا "کبھی کبھار وقت ملے تو دنیا کی سیاحت کو نکل جاتا ہوں، رب تعالیٰ کی بنائی دنیا دیکھنا، نئے لوگوں سے ملنا، نئے کلچر سے آشنائی اور تاریخی مقامات میں مجھے کشش محسوس ہوتی ہے، یہ مجھے اپنی طرف کھینچتے ہیں، زیادہ دن ٹک کر بیٹھنا مشکل ہوتا ہے"۔

گروپ کا دوسرا لڑکا بولا "آپ سال میں کتنی مرتبہ ٹریول کرتے ہیں؟" میں جواب دیا "سال بھر کام کرتا ہوں، خرچے کا بندوبست کرتا ہوں، سال میں ایک مرتبہ ٹریول ممکن ہوتا ہے"، پہلی لڑکی بولی "اپنا پاسپورٹ مجھے دکھائیں "، پاسپورٹ پر لگی مہریں دیکھ کر حیرت سے بولی "واقعی ایسا ہی ہے"، پھر افسردگی سے بولی "یہ ہمارا بیرون ملک پہلا سفر ہے اور بڑی مشکل سے گھر والوں سے اجازت ملی ہے"، باقی گروپ نے بتایا کہ وہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا وزٹ کر چکے ہیں لیکن سب کا بیرون ملک سفر کا پہلا موقع ہے، گروپ لیڈر بولا "آپ ہوٹل بکنگ کینسل کر دیں اور ہمارے ساتھ قیام کریں"۔

میں تاسف سے جواب دیا "میں ایڈوانس فل ادائگی کر چکا ہوں "، بس فل ہونے پر ڈرائیور نے گیٹ بند کرکے بس آگے بڑھائی، جہاز میں کھڑکی والی سیٹ میں پہلے ہی منتخب کر چکا تھا، اس پاکستانی گروپ کی سیٹیں کافی دور تھیں، میں باہر جھانکنے لگا "کیا یہ سیٹ نمبر 17 بی ہے؟"، میں چونک کر نظریں اٹھائیں، ایک انتہائی خوش شکل روسی حسینہ، عمر تقریباً پچیس سال، نیلی آنکھیں، لمبا قد، بھورے گھنگریالے بال، ہاف آستین اور ہاف بازو کی بند گلے والی ٹی شرٹ، ڈھیلا ڈھالا ٹراؤزر پہنے، گلے میں رنگ برنگی دھاگے والی ڈوریوں کا نیکلس، کلائیوں میں رنگ برنگے بریسلٹ، ایک ہاتھ میں ڈیوٹی فری شاپنگ بیگ اور دوسرے میں لیپ ٹاپ پکڑے، مجھ سے استفسار کر رہی تھی۔

میں نے ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور آنکھیں موند لیں، تھوڑی دیر بعد دوسری سیٹ پر ایک انڈین لڑکی آن بیٹھی، یہ یوٹیوبر تھی، ہر دو منٹ بعد موبائل فون نکال کر وڈیو بناتی اور رواں کمنٹری کر رہی تھی "ناظرین اب ہم طیارے میں بیٹھ چکے ہیں، طیارے کے اندر بہت ٹھنڈا اے سی چل رہا ہے، میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے دونوں مسافر بھی باکو جا رہے ہیں" آخری تبصرہ سن کر مجھے ہنسی آئی لیکن خود پر ضبط کیا۔

Check Also

Who Am I?

By Aroob Siddiqui