Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Mela, Jalebi, Sebe Wala Bomb

Mela, Jalebi, Sebe Wala Bomb

میلہ، جلیبی، سیبے والا بم

میلے ٹھیلے پنجاب کی روح میں رچے بسے ہیں، یہ صدیوں پرانی روایات، تفریح اور عوامی یکجہتی کا حسین استعارہ ہیں، کبڈی کے دنگل اپنی جاندار فضا سے دلوں کو گرماتے، لوک فنکار اپنے گیتوں، ڈھول کی تھاپ اور بانسری کی لے سے ماحول کو جادوئی بنا دیتے، جس فنکار کی صدا دلوں میں گھر کر جاتی، اس کی شہرت ہوا کے دوش پر دور دور تک پھیل جاتی، یوں یہ میلے خوشیوں، محبت اور پنجاب کی دھڑکن کو ایک ساتھ دھڑکاتے۔

برصغیر میں دینِ اسلام کی روشنی بزرگان دین کے کردار، علم اور خدمت خلق سے پھیلی جنہوں نے اپنی زندگیوں کو ہر طرح کے شرک، قباحتوں اور نمود و نمائش سے پاک رکھا، یہ سب نقد آور قباحتیں و بدعات ان علاقوں کے لوگوں کی ایجاد کردہ ہیں جہاں بزرگان دین کے مزارات واقع ہیں، کسی قریبی علاقے میں منعقد ہونے والے میلے کو بابا جی کی چوکھٹ پر بیعت کروائی جاتی، آس پاس کی خالی زمینوں کو چند دن کیلئے کرایہ یا ٹھیکے پر لیکر وہاں میلہ منعقد کیا جاتا، بابا جی کا دست شفقت سر پر ہونے باعث ان علاقائی تہواروں کو قبول عام ملنے کے ساتھ ساتھ مزارات کی آمدن کئی گنا بڑھی، وہیں ان مجاوروں نے بابا جی سے منسوب خود ساختہ کرامات کی بھرمار کر دی، نتیجہ ضعیف العقیدہ لوگ جو امام مسجد کی ہر بات کو بلا تحقیق حرف آخر سمجھتے ہیں، ان کیلئے میلوں میں بھرپور شرکت جزو ایمان قرار پائی۔

حافظ آباد کے قریب سلیم پورہ میں بھڑی شاہ رحمن کا سالانہ میلہ ایک ہلچل مچانے والا ایونٹ رہا ہے اور قسمت دیکھیں کہ مجاور بابا ولایت شاہ کا پوتا، ڈاکٹر نیئر عمران شاہ، میرا یونیورسٹی فیلو نکلا، غالباً میٹرک کے دنوں کا قصہ ہے جب بیساکھی کی بہار اور میلے کا ڈھول بجا، پورے پنجاب سے لوگ اُمڈ آئے، ہمارے محلے کا ایک خاصا "مشہور" ٹولہ، جس کی شرارتیں علاقے کی مکھیاں تک گنتی تھیں، گینگ کا لیڈر تھا حاجی بابر کالیا، جو عمرہ ویزہ پر سعودیہ کمائی کرنے گیا اور وہاں سے حج بھی کر آیا، یوں اپنی شرارتوں پر "حج مبرور" کی سیل لگا لی، باقی ٹیم میں خادم نائی، سلیم نائی، میری والدہ کا ماموں زاد فریاد عرف ننھا کھتری، حمید گجر اور پاور لومز آپریٹرز کا ایک جتھا میلے میں"روحانی و عملی شمولیت" کی پلاننگ کرنے لگا مگر حقیقت میں دل میں میلے کے جھولے، چٹ پٹے کھانے اور آنکھوں میں چمکتی شرارتیں ہی مقصد تھیں، فریاد ننھا سے میری بہت دوستی تھی اور دوستی کے ناطے میں بھی ساتھ چلا گیا، واضح رہے کہ میں اس گینگ میں سب سے کم عمر تھا۔

وقتِ مقررہ بروز جمعہ رات کو ہمارا شاہی جلوس لاری اڈے سے بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر روانہ ہو، سلیم پورہ موڑ تک پہنچے ہی تھے کہ بسوں کی کثرت نے ٹریفک جام کردیا، باقی راستہ پیدل چلنے کا فیصلہ ہوا مگر یہ بھی کوئی آسان کام نہ تھا، سڑک کے دونوں اطراف ریڑھیوں کا میلہ "چلتے پھرتے شاپنگ مال" کا منظر تھا، گنے کا رس گھونٹ گھونٹ بلا رہا تھا، تیل میں انگڑائیاں لیتی جلیبیاں، گنڈیریوں پر بھنبھناتی نایاب موتیوں کی طرح چمکتی مکھیاں، میٹھے مخانے آسمان سے ٹپکے ستاروں کی طرح بکھرے پڑے تھے، لکی ایرانی سرکس کا عروج، ریڑھیوں پر زنانہ سامان کی ایسی بہار کہ گینگ کے چند حضرات نے پہلی بار میلے کے اصل "رنگ" دیکھے، رات کے اس پہر بھی چلنا دوبھر تھا، ہر قدم کے ساتھ خوشبو کا جادو کھینچتا تھا یا کوئی آواز کہتی تھی، "بابا جی کی چوکھٹ سے پہلے یہ جلیبی چکھ لو"۔

واضح رہے کہ ایسے میلوں میں شرارت اور لڑائی لازم و ملزوم ہوتی ہے، ایک ریڑھی پر بانسریاں چیک کرتے ہوئے حمید گجر نے اچانک اپنے اندر کا رانجھا جگا لیا اور فریاد کے کانوں کے پاس "عاشقانہ سُر" بکھیرنے لگا، پھر اس نے بانسری کا منہ حاجی بابر کی طرف پھیرا، مگر قسمت ماڑی نکلی اور بانسری کا سرا ایک راہگیر کی ناک سے جا ٹکرایا، بیچارہ ناک سہلاتا، منہ بناتا اور کچھ بَڑبَڑاتا ہوا آگے نکل گیا، یاروں کو نیا کھیل ہاتھ لگ گیا، بانسری کے سُروں اور لوگوں کی ناکوں کی "دوستی" بڑھتی گئی اور انجام لڑائی چھڑ گئی، ہمارے گینگ کے دو بہادر سورما اس دن میلے سے تحفے میں"کُھنے" کی خوبصورت سوجن لے کر واپس آئے، جنہیں دیکھ کر لگتا تھا بابا جی نے خصوصی دعاؤں کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا روحانی پُھولا بھی عطا کیا ہے۔

گینگ نے فوری طور پر حکمتِ عملی بدلی اور راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے قریبی کھیتوں میں ٹیوب ویل کی طرف پیش قدمی کی، وہاں منظر بڑا شاعرانہ مگر ہمارے قافلے کے لیے شرارت انگیز تھا، کچھ تھکے ہارے لوگ زمین پر بازو کا سرہانہ بنا کر سو رہے تھے خادم نائی کے دماغ میں اچانک بجلی کوندی، دونوں ہاتھوں میں مٹی بھر کے ایک سوئے ہوئے کے منہ پر پھینکتے ہوئے بلند آواز میں کہا، "اٹھ اوئے ماجھو!" بیچارہ ہڑبڑا کے اٹھا مگر اتفاق ایسا کہ وہ ماجھو نہ نکلا، ہم نے عاجزی سے معذرت کی اور آگے بڑھ گئے، شرارت کا یہ نیا کھیل اتنا دلنشین لگا کہ دو تین جگہ مزید آزمائش کی اور ہر بار نتیجہ اتنا "تسلی بخش" تھا کہ سوجن والے چہروں پر بھی قہقہے پھوٹ پڑے۔

گینگ نے اگلا لیول اپنانے کا فیصلہ کیا، ایک بے خبر سوئے ہوئے بندے کو ڈولی ڈنڈا کرکے یوں اٹھایا جیسے اڑیل دلہن کو ڈولی میں بٹھاتے ہیں، بس فرق یہ تھا کہ یہاں ڈولی کا اختتام پانی کے کھال میں تھا، اسے پھینکتے ہوئے پوری عقیدت سے اعلان کیا، "اٹھ اوئے گامو!" اور گامو بے چارہ یخ پانی میں جاگ کر اچھلا اور گالیاں بکنے لگا، یہ حرکتیں یہیں تک رہتیں، اگر حمید گجر کے دماغ کا تھرمامیٹر اُبل نہ رہا ہوتا، اسے بار بار جلیبی والے پر غصہ آ رہا تھا، آخر باہمی مشاورت (جو اصل میں قہقہوں اور گالیوں کا آمیزہ تھی) سے طے پایا کہ میلے کا اختتام جلیبی والے سے بدلہ لے کر ہوگا۔

ہمارا گینگ پوری سنجیدگی سے لائن بنا کر واپس روانہ ہوا، جلیبی والی دکان کا دور سے جائزہ لیا، وہ منظر آج بھی ذہن میں ایسے تازہ ہے جیسے کل کی بات ہو، رش کا عالم یہ تھا کہ لگتا تھا پوری بارات جلیبی لینے آ گئی ہو، حمید گجر اور ننھا دبے قدم آگے بڑھے، جبکہ باقی گینگ پیچھے ہٹ کر منظر دیکھنے لگا، جلیبی والے کے دونوں ہاتھ سرکس آرٹسٹ کی طرح الگ الگ کام میں مصروف، ایک ہاتھ سے جلیبیاں تول کر گاہک کو دیتا، اسی ہاتھ سے پیسے پکڑ کر غلے میں ڈال دیتا اور پھر بغیر کسی رُکاؤٹ کے بقایا واپس کر دیتا، ایک گاہک کو فارغ کرتے ہی دوسرے ہاتھ سے تیز تیز جلیبیاں بنانے لگتا، کئی گاہک بغیر رقم جلیبی لیکر چلتے بنے، گینگ کے چہروں پر شرارت کی مسکراہٹ اور آنکھوں میں بدلے کی چمک تھی کہ "آج حساب برابر ہوگا"۔

حمید گجر نے بڑے وقار اور سنجیدگی سے ایک کلو جلیبی کا آرڈر دیا اور وہیں ہاتھ باندھ کر جلیبی لنگر کا انتظار کرنے لگے، جلیبی ملنے پر اس نے فوراً ایک چکھی، آنکھیں بند کیں، سر ہلایا اور بولا، "واہ! جلیبیاں سوادی ہیں، دو کلو ہور دے دیو"۔ یہ سن کر جلیبی والے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی اور اس نے فخر سے کہا، "ساڈی جلیبی اک واری آزمائش، فیر بار بار فرمائش!" ننھا بھی پیچھے نہیں رہا، اس نے بھی ایک آدھ دانت دکھا کر تعریف جھاڑ دی "مزیدار ہے لیکن کچھ ٹھنڈی ہے"۔

جلیبی والا تعریفوں کے نشے میں فوراً بولا، "باؤ جی، ابھی گرم گرم جلیبی دیتا ہوں، تسی دو منٹ ایتھے ہی کھڑے رہو" اور بڑے فنکارانہ انداز میں تیل والی پرات نما کڑاہی میں جلیبیوں کے سٹروک لگانے لگا، حمیدی گجر نے موقع غنیمت جان کر پوچھا، "بھاء جی، اپنا اک آلو گرم کر لواں؟"

لکڑیوں کے دھویں سے آنکھیں بچاتے ہوئے جلیبی مکینک نے لاپرواہی سے کہا، "بھٹی وچوں اینٹ باہر کڈھ کے آلو رکھ لو، گرم ہو جائے گا"۔ حمید گجر نے جی حضور کہتے ہوئے فوراً ہدایت پر عمل کر ڈالا اور عین فلمی انداز میں منظر سے کھسک گئے۔

چند سیکنڈ کا ہی وقفہ ہوا ہوگا کہ اچانک ایک زور دار "ٹھاہ" گونجی جیسے مزار پر لنگر کے بجائے توپ چل گئی ہو، یہ دراصل سیبے والے بمب کا کمال تھا، جو آلو کی شکل میں بھٹی میں"گرمائش" لے رہا تھا۔

ٹھاہ کی آواز گونجتے ہی ہلچل مچ گئی، ہر طرف لوگ اِدھر اُدھر بھاگنے لگے، کوئی دوڑتا ہوا سیدھا گزر رہا تھا تو کوئی اُلٹا مڑ کر رینگ رہا تھا، ہر کوئی اپنی جان بچانے میں مصروف تھا، جلیبی والے پر کیا قیامت بیتی یہ دیکھنے کا وقت نہ تھا، اسی بھگدڑ اور ہنگامے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے بھی فوری طور پر فرار اختیار کیا، راستے میں پانی والے کھیتوں کو بھاگتے اور ہانپتے عبور کیا اور جب اپر چناب کے کنارے پہنچ کر گہری سانس لی، تو ایسا لگا جیسے زندگی دوبارہ مل گئی ہو، یوں ہمارا میلہ بھی "مہم جوئی اور بقاء" کی داستان میں شامل ہوگیا۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed