Izzat Mangi Nahi, Kamai Jati Hai
عزت مانگی نہیں، کمائی جاتی ہے

اس سے پہلے بھی میں چھ سات مرتبہ تعطیلات گذارنے کیلئے دبئی جا چکا تھا، دبئی کی مصنوعی چکا چوند اپنی جگہ لیکن درحقیقت بہت مہنگا شہر ہے، سال کے بارہ مہینے گرمی کے باعث وہاں زیادہ دن قیام کرنا بہت مشکل ہے، موسم گرما کا تو ذکر ہی مت کریں۔ دو مرتبہ نومبر اور دسمبر میں جانے کا اتفاق ہوا، تب بھی رات کو ایئرکنڈیشنر آن کرکے سونا پڑتا تھا، فقط واحد بہترین سہولت موسم سرما میں بھی بغیر گیزر گرم پانی کی دستیابی تھی۔ اس شہر کی رنگ برنگی زندگی، سڑکیں اور بلڈنگیں متوجہ کرتی ہیں لیکن اخراجات بہت مہنگے ہیں، جتنا جھوٹ اور فراڈ اس شہر میں دیکھا، اللہ توبہ استغفار، ہر فرد دوسرے فرد کو داؤ لگانے کے چکر میں نظر آتا ہے، وائٹ کالر کرائم کی شرح بہت بلند ہے۔
اس شہر کا موسم فقط یورپ والوں کے غسل آفتابی کیلئے آئیڈیل ہے، طیارے میں میرے ساتھ دو سوڈانی لڑکیاں بیٹھی تھیں جو چھٹیاں گذارنے اپنے وطن جا رہی تھیں، پرواز بلند ہوتے ہی میں آنکھیں موند کر سو گیا، سوا دو گھنٹے کی مختصر فلائٹ کے بعد تقریباً ساڈھے چھ بجے شام فلائی دبئی کے طیارے نے دبئی ایئرپورٹ پر لینڈ کیا، امیگریشن کے مراحل سے فراغت پا کر ٹیکسی سٹینڈ کی طرف بڑھا، دبئی ایئرپورٹ پر رش بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن ہر چیز ایک ترتیب میں نظر آتی ہے، بلاشبہ اس کا انتظام و انصرام دنیا کے بہترین ایئرپورٹوں میں سے ایک ہے، ایک دوست مہر سعید فرام سرگودھا سے ملاقات طے تھی۔
ٹیکسی سٹینڈ پر لمبی لائن تھی، ٹیکسی کمپنی کا ایک نمائندہ مسافروں کی رہنمائی کیلئے موجود تھا، وہ ٹیکسی لائن کے درمیان میں کھڑا ہو کر باری باری مسافروں کو سوار کروا رہا تھا، میرے سامنے ایک رشین جوڑا موجود تھا، باری آنے پر انہوں نے ٹیسلا ٹیکسی ڈیمانڈ کی جو اس وقت دستیاب نہ تھی، نمائندے نے انہیں دوسری بہترین دستیاب گاڑی کی پیشکس کی لیکن وہ نہ مانے، نمائندے نے انہیں ایک سائیڈ پر انتظار کرنے کو کہا، ان کے بعد میرا نمبر تھا، نمائندے نے مجھے آگے بڑھنے اور ٹیکسی میں سوار ہونے کا اشارہ کیا، خاتون ڈرائیور کو دیکھ کر میں جھجکا، میرے معذرت کرنے پر نمائندہ بولا "آپ کو بہترین سفر کی یقین دہانی کرواتا ہوں" لیکن میرا وسوسہ برقرار تھا۔
میرے پیچھے مسافروں کی ایک لمبی قطار تھی، میں جلدی سے اپنے پیچھے والے مسافر کو آگے کر دیا، اب میری بدقسمتی کہ اس کے بعد اگلے نمبر پر آنے والی گاڑی کی ڈرائیور بھی خاتون تھی، مجبوراً مجھے آگے بڑھنا پڑا، پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھا، سلام کرنے کے بعد خاتون ڈرائیور کو ایڈریس سمجھایا، خاتون نے وعلیکم السلام کہا تو لہجے سے محسوس ہوا کہ جنوبی انڈیا کی تھی، عمر پچپن سے زیادہ اور دبئی کی دھوپ باعث سڑی ہوئی رنگت، سر پر سکارف باندھ رکھا تھا، وہ گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے میری معلومات میں اضافہ کرنے کیلئے بولی "عام ٹیکسی کی بالنسبت لیموزین کا کرایہ ڈبل ہوتا ہے"۔
درحقیقت لیموزین کی سواری فقط رنگ بازی اور سواری سے رقم انٹھنے کا بہانہ ہے، چوبیس گھنٹے بطور ٹیکسی استعمال ہونے والی گاڑی سے آپ زیادہ توقعات مت رکھیں، میں نظر انداز کرتے اسے پوچھا "کیا میٹر درست چل رہا ہے؟" اس نے ہاں میں جواب دیا، میں عرض کیا "جہاں اتروں گا، میٹر کے مطابق کرایہ ادا کردوں گا"، مجھے حیرت کے سمندر میں غوطے دینے کیلئے بولی "سر میں اس شہر کو زیادہ نہیں جانتی، آپ مجھے راستہ بتاتے جائیں"۔
راستہ بہت آسان تھا، القصیص ایریا کے مشہور دہلی دربار ریسٹورنٹ پر ملاقات طے تھی، یہ ایئرپورٹ کے قریب واقع ہے، سڑکوں کے چکر باعث زیادہ سے زیادہ دس سے بارہ منٹ کی ڈرائیو تھی، اسے جی پی ایس پر مطلوبہ جگہ کی لوکیشن سرچ کرنے کا بولا، وہ ناگواری سے بولی "انٹڑنیٹ کام نہیں کر رہا"، میں سفر سے تھکا ہوا تھا، اسے کہا "میں پہلے بھی کئی مرتبہ جا چکا ہوں، فلاں فلاں راستے سے جاؤ گی تو آسانی رہے گی"، وہ بدستور ناگوار لہجے میں بولی "آپ مجھے سمجھانے کی کوشش مت کریں، میں جانتی ہوں "، اب مجھے بھی غصہ چڑھنے لگا تھا، سیٹ کی پشت پر سر ٹکایا، آنکھیں بند کرکے، خود پر کنٹرول کرتے بولا "میں سفر سے تھکا آیا ہوں، آپ پلیز ڈرائیو کریں اور مطلوبہ منزل آنے پر مجھے بتا دیں"۔
میرا یہ جواب اسے پسند نہ آیا، اس کے لہجے کی تلخی بڑھی "آپ کو ایک عورت سے عزت سے بات کرنا چاہیئے"، میرا سر دُکھ رہا تھا اور میں خاموشی سے سفر کرنا چاہتا تھا لیکن وہ مسلسل گیند کو میری کورٹ میں پھینک رہی تھی، غصہ بہت آیا لیکن اسے خاتون ہونے کی رعایت دیتے ہوئے خود پر بالجبر خاموشی طاری رکھی، اس کی زبان رکنے کا نام نہ لے "ایئرپورٹ پر بہت سی ٹیکسی دستیاب تھی، آپ میرے ساتھ کیوں بیٹھا؟" میں اسے پھر نظر انداز کر دیا۔
لیکن اس نے مزید شاٹ لگایا "آپ نے بتایا نہیں کہ آپ میرے ساتھ کیوں بیٹھا؟" اب مجھے سیدھا ہو کر بیٹھنا پڑا اور پوچھا "تم بطور ٹیکسی ڈرائیور کام کرتی ہو، محنت کرکے کماتی ہو، اگر سواری ملے گی تو رزق ملے گا، تم سے پہلی والی ٹیکسی میں بھی خاتون ڈرائیور تھی"، وہ کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں بولی "آپ کو ایک عورت سے عزت سے بات کرنا چاہیئے"، مجھے جو تپ چڑھی، اللہ جانتا ہے کہ بڑی مشکل سے خود پر کنٹرول کرتے بولا "عزت مانگی نہیں بلکہ کمائی جاتی ہے"، لیکن وہ برابر لڑائی پر آمادہ تھی "مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ میرے ساتھ کیوں بیٹھے؟"۔
اب میرے لئے اسے برداشت کرنا ناممکن ہو چکا تھا "گاڑی روکو اور مجھے یہیں اتار دو"، وہ میری ناراضگی سے سہم گئی "سر آپ ناراض مت ہوں "، میں اسے دوبارہ گاڑی روکنے کو کہا تو وہ معذرت کرتے بولی "میں غلطی سے دوسری سڑک پر آگئی ہوں، اب کچھ وقت لگے گا"، دبئی کے ٹیکسی ڈرائیوروں کی اکثریت کا یہ پرانا حربہ ہے کہ مسافروں کو باتوں میں الجھا کر جان بوجھ کر روٹ لمبا کرتے ہیں، میں پھر نظر انداز کرتے بولا "میڈم آپ ڈرائیو پر دھیان رکھیں، میں سفر سے تھکا ہوا آیا ہوں "، وہ بدتمیزی نما لہجے میں بولی "آپ نے بتایا نہیں کہ آپ میری گاڑی میں کیوں بیٹھا؟" میرا جواب اس کیلئے ناقابل توقع تھا "گاڑی روکو اور مجھے یہیں اتارو"۔
صورت حال کو خراب ہوتا دیکھ کر وہ بولی "پلیز آپ ٹیکسی کمپنی سے میری شکایت مت کرنا ورنہ وہ میری تنخواہ کاٹ دیں گے"، میں جواب دیا "خاتون ہونے کے ناطے عزت سے پیش آ رہا ہوں "، وہ دوبارہ بولی "سر پلیز آپ میری شکایت مت کرنا"، اس کی مسلسل بک بک مجھے بے چین کر رہی تھی، ایک ایک لفظ پر زور دیتے بولا "گاڑی روکو"، اب اسے مجبوراً گاڑی روکنا پڑی، میٹر پر کرایہ دیکھا، پچپن درہم تھا، اسے ساٹھ درہم دیکر بقایا وصول کئے بغیر نیچے اتر گیا، وہ ابھی تک موجود تھی، شیشہ نیچے کرکے بولی "پلیز سر آپ میری شکایت مت کرنا"، میں ناگواری سے گھورتے بولا "اب میرا سر مت کھاؤ اور جاؤ، میں شکایت نہیں کروں گا، لیکن سواری کے ساتھ احترام سے بات کرنے کا سلیقہ سیکھو، ہر مسافر میرے جیسا نہیں ہوتا"، وہ شکریہ ادا کرتی گاڑی آگے بڑھاتی چلی گئی۔