Be Dehani Mein Takkar
بے دھیانی میں ٹکر

استقبالیہ پر سے تیار کپڑے وصول کرکے کمرے میں آ کر وائی فائی آن کیا تو واٹس ایپ کا جہان آباد تھا، شکیب اور روزا کے میسج تھے مگر شکیب بازی لے گیا، پوچھ رہا تھا
"آج کیا پروگرام ہے؟ تاکہ میں اپنا شیڈول ایڈجسٹ کر سکوں"۔
"آج آتش کدہ دیکھنے جا رہا ہوں، شام کو رابطہ کروں گا"۔
اسے میسج بھیجتے دل میں خیال آیا کہ یہ سفر نہیں، روز خوشی کی نئی قسط ہے، جب ناشتہ شاندار ہو، ویٹرس اتنی دلچسپ ہو، دوست رابطے میں ہوں، تو بندہ چاہے تنہا گھومے، دل کبھی اکیلا نہیں ہوتا۔
موبائل چارج تھا، دل سیر و تفریح کے لیے بیتاب تھا اور وقت ہو چکا تھا "روزا کا عتاب" کا سامنا کرنے کا، کال ملاتے ہی دوسری طرف ناراضگی کا بادل ٹھکنے لگا۔
"یاد آگئی اتنی جلدی؟"
مجھے فوراً دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی "سوری، دیر تک سویا تھا"۔
وہ بولی: "اچھا اچھا، معاف کیا! اب بتاؤ آج کیا پلان ہے؟"
میں جھٹ سے بتایا "آج باکو کا مشہور آتش کدہ دیکھنے کا پروگرام ہے"۔
روزا بجلی کی سی تیزی سے بولی، "میں بھی چلوں گی، دراصل اب تک میں بھی وہاں نہیں گئی لیکن گوگل میپ پر چیک کر سکتی ہوں"۔
میری طرف سے اثباتی جواب پا کر روزا نے ایک ہی سانس میں ایسا روٹ بتایا گویا گوگل میپ آڈیو گائیڈ کی نوکری پکی کرنا چاہتی ہو، "28 مئی مرکزی میٹرو سٹیشن میری خالہ کے گھر کے قریب واقع ہے، وہاں سے بس کے ذریعے بھی جا سکتے ہیں، دو بسیں تبدیل کرنا پڑیں گی۔ میٹرو ٹرین کے ذریعے فاصلہ کم ہوگا اور جلدی پہنچ سکتے ہیں، 28 مئی میٹرو سٹیشن سے ہمیں سرخ لائن پر حاجی اسلانوف میٹرو سٹیشن کی طرف جانا ہے، راستے میں مشہدی عزیز بیکوف میٹرو اسٹیشن پر اتریں گے، وہاں سے باہر نکل کر تھوڑا پیدل چلنا پڑے گا، دو تین منٹ کی پیدل واک، پھر کوروغلو بس اڈے سے 184 نمبر بس پر بیٹھ کر سرخانی قصبے کے پولیس اسٹیشن والے آخری بس سٹاپ پر اترنا ہے، اس کے عین عقب میں آتش کدہ واقع ہے"۔
میں نے احتیاطاً گوگل پر چیک کیا اور حیرت! واقعی روزا کی معلومات اتنی درست تھیں جیسے وہ خود آتش کدے میں پیدا ہوئی ہو، میں نے ہنستے ہوئے تائید کی، "ہاں، بالکل ٹھیک بتا رہی ہو"۔
فوراً حکم صادر ہوا "میں جلدی پہنچ رہی ہوں، تم دیر مت کرنا"۔
میں جواب دیا "تم 28 مئی کے سرخ لائن پلیٹ فارم پر پہنچو، میں بھی وہیں آ رہا ہوں اور ہاں، میری طرح ناشتہ بھاری مت کرنا، ورنہ سیڑھیاں اترنے چڑھنے میں ہانپ جاؤ گی"۔
"میں بہت پہلے ناشتہ کرچکی ہوں"۔ روزا نے کھلکھلاتے ہوئے جواب دیا اور فون بند کر دیا۔
میں تیار شیار ہو کر ہوٹل سے ایسے باہر نکلا جیسے باکو کی گلیوں نے "سیاحتی مقابلے کا دعوت نامہ" بھیجا ہو، ہر سمت سے تازہ ہوا کے جھونکے لپک لپک کر گالوں کو چُھو رہے تھے جیسے کہنا چاہتے ہوں "شاباش، آخر باہر نکل ہی آئے"۔ فطرت بھی خوش ہو کر میری پذیرائی کر رہی ہو، ہر طرف بلند قامت تین تین منزلہ سرسبز درخت، گہرے سبز پتے، ہوا میں خوشبو کا تاثر، خاص میرے لئے عطر لگا رکھا ہو اور میں اس ساری فضا میں مست تھا، آنکھیں بند کرکے، ٹائٹینک سٹائل میں بازو پھیلا کر ایک کے بعد دوسرا گہرا سانس لیتے ہوئے سیڑھیاں پھلانگیں، جلدی میں آنکھیں راستے کی بجائے خیالات میں گھما رکھی تھیں، سیڑھیاں اترتے میرے قدموں کا توازن بگڑا اور بائیں طرف سے آتی ایک خاتون سے تقریباً ٹکر ہوگئی، میں فوراً خود کو گرنے سے بچاتے ہوئے خاتون کو سنبھالا، اللہ کا شکر کہ فزیکل ایمرجنسی تو نہ ہوئی، لیکن اخلاقی ایمرجنسی نے فوری الارم بجا دیا، میں نے "ازوی نمسیا، ازوی نمسیا" یعنی سوری کی گردان شروع کر دی، مگر خاتون کا ری ایکشن عالمی نسوانی کلاسک خاموش ناراضی والا تھا، مضطرب نگاہیں کہہ رہی تھیں۔
"بچ تو گیا مگر نمبر کٹ چکے ہیں"۔
رشین اور ٹرکش خوب صورتی کا امتزاج، قد لمبا، ناک دلہن کی طرح خوبصورت، شاندار لباس اور بائیں کندھے پر میچنگ پرس، غالباً فیشن شو میں شرکت کے لئے جا رہی تھی، خاص طور پر ناک کی لمبائی، جو ٹرکش لوگوں کی خاصیت ہے، خود کو سنبھالتی ہوئی صرف اتنا بولی "نی واژنا" یعنی کوئی بات نہیں، میں ایک بار پھر معذرت کی لیکن خاتون نظر انداز کرکے اپنے راستے پر چل پڑی۔
اتفاق یہ ہوا کہ میرا راستہ بھی وہی نکلا، منظر کچھ ایسا تھا جیسے فلم میں ہیرو ناراض ہیروئن کے پیچھے پیچھے چل رہا ہو یا جاسوس اپنے ٹارگٹ کا پیچھا کر رہا ہو، فرق یہ تھا کہ نہ میرے پاس اسپائی جیکٹ تھی، نہ اسلحہ اور نہ بیک گراؤنڈ میوزک بج رہا تھا، واک ٹریک عبور کرکے، فواروں کے پاس سے گزر کر جب وہ جعفر جبار علی میٹرو اسٹیشن کی برقی سیڑھیوں سے نیچے اتری تو میں بھی اس کے پیچھے پیچھے تھا، پلیٹ فارم پر رش نہیں تھا اور ہم دونوں قریب قریب کھڑے تھے۔
اچانک وہ مڑی اور انگریزی میں بولی
"?Why are you following me"
میں ترنت رشین میں جواب دیا "میں آپ کا پیچھا نہیں کر رہا تھا بلکہ آپ میرے آگے چل رہی تھی"۔
زبان کا جادو سر چڑھ کر بولا، ابرآلود نظر آتا مطلع یک دم صاف ہوگیا، نسوانی لبوں پر ہلکی مسکراہٹ نمودار ہوئی، اصل بات یہ ہے کہ انسان اگر نرم لہجے، ادب اور تھوڑی سی معذرت کے ساتھ بات کرے تو زیادہ تر "غیر ملکی فلم" قسم کے سین جلد ہی "دوستانہ شو" میں بدل جاتے ہیں، سچ پوچھیں تو آزربائیجان میں مجھے ذرا برابر تعصب محسوس نہیں ہوا، رشین زبان سے آشنائی نے واقعی زندگی کو آسان بنا دیا تھا اور غلط فہمی کا خطرہ ختم ہوگیا تھا، ورنہ پنجابی محاورہ ہے، چھتر پولا ہونے کے چانسز، وہ یقینی طور پر میرے لئے ایک اچھی پرسنل ہدایت بن سکتا تھا، اگر پاکستانی طریقے سے بات کی جاتی، تو پھر وہی "کلیشے" کی صورتحال ہوتی: "اے، تیری نظر نی تھی، ایہہ گال تے کی" اور پھر بات ختم ہونے کی بجائے ارد گرد سے راہ چلتے لوگ جمع ہوتے اور وہ تماشہ بنتا کہ الامان الحفیظ۔
برصغیر کے روایتی انداز کے برعکس یورپ میں سب کچھ بالکل ہی مختلف ہے، لوگ اپنے کام میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کا بنیادی مقصد صرف ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آنا ہوتا ہے، چاہے وہ ایک حادثاتی ٹکر ہو یا ایک طویل گفتگو، اگر ہم بات کریں کہ آپ کسی خاتون سے راستے میں ٹکرا جائیں، تو اس کا جواب بہت سادہ ہے: معذرت کریں، ادب سے بات کریں، پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور یہ ایک نیا احترام اور دوستی کا آغاز بن سکتا ہے۔
میری ذاتی رائے ہے کہ مرد اور عورت کی دوستی کی انتہاء جسمانی تعلق نہیں ہونی چاہیے، یہ صرف ایک جذباتی اور فکری تعلق ہو سکتا ہے، جہاں تک بات آذربائیجان کی ہے، یہاں تعصب کا کوئی نشان نہ تھا، لوگ خوش اخلاق اور زندگی کے سب سے اچھے اصولوں پر عمل پیرا تھے، جہاں تمام لوگ "غلطی" پر دل سے معذرت کرتے ہیں، وہاں کبھی بھی، کسی بھی صورتحال کو پیچیدہ نہیں بنایا جاتا، ہر بات میں محبت اور احترام تھا اور یہی وہ خوبصورت عمل ہے جو دنیا کے دوسرے خطوں سے ان کو منفرد بناتا ہے۔
آذربائیجان میں واقعی ایسے لگتا تھا جیسے دنیا کا سب سے خوشگوار ماحول ہو، تمام فرقوں، رنگوں اور عقیدوں کے باوجود ہر ایک دوسرے کے ساتھ احترام سے پیش آتا ہو! اور یہی وہ مزہ تھا جو اس سفر نے مجھے دیا۔

