Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Baku Ka Nashta

Baku Ka Nashta

باکو کا ناشتہ

استقبالیہ پر آج بھی وہی لڑکا تھا، جو "چوبیس گھنٹے ڈیوٹی، بغیر جھنجھلاہٹ" والا مشین موڈ آن کرکے آیا تھا، اسے کپڑے دیے تو اس نے مسکرا کر ایسے تھامے جیسے استری کرنا اس کی زندگی کا مقصد ہو، میں نے ریسٹورنٹ کا پتہ پوچھا، تو اس نے بائیں جانب جی پی ایس مانند اشارہ کیا: "بائیں جاؤ اور اپنی قسمت آزماؤ"۔

ریسٹورنٹ ہال کی کشادگی و ترتیب بتا رہی تھی کہ کسی نے ٹیبلز کے درمیان سوشل ڈسٹنسنگ کا پی ایچ ڈی کیا ہوا ہو، کاؤنٹر بالکل سامنے، آٹھ ٹیبلیں بالکل ایسے لگی تھیں جیسے کارٹون نیٹ ورک کے سیمٹری پسند گرافک ڈیزائنر نے سیٹ کی ہوں، ہر ٹیبل کے گرد چار کرسیاں، فیملی ڈرامہ کی شوٹنگ کیلئے تیار سیٹ، دائیں طرف دیوار کے ساتھ دو ٹیبلوں پر ناشتے کے لوازمات اس شان سے سجے تھے گویا شہزادہ ولیم آنے والا ہو اور سادہ نظر آنے والا انڈا بھی شرما کر خود کو آملیٹ ظاہر کر رہا تھا۔

اس وقت صبح کے دس بج چکے تھے، یعنی "بھرے بھرے ناشتہ خور" جا چکے تھے اور باقی بچے ہم چند "سونے کے ماہر" لوگ، جن میں کچھ رشین مہمان بھی شامل تھے، وہ بھی نیند کے زیر اثر ابھی تک خوابوں سے مکمل باہر نہیں نکلے تھے، بس پلیٹ اٹھا کر آٹو پائلٹ پر ناشتے میں مصروف تھے، ایسی صبح میں نہ صرف پیٹ بلکہ دل بھی بھر جاتا ہے، کیونکہ جب کانٹی نینٹل ناشتہ سکون سے، اچھے موڈ میں اور ہلکی موسیقی کے ساتھ ملے، تو انسان سمجھتا ہے کہ شاید زندگی اتنی بھی بری نہیں، خاص طور پر جب یہ سب کچھ مفت میں مل رہا ہو۔

میں نے باقی مہمانوں کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے فلمی انداز میں سلام پھیرا اور ایک خالی ٹیبل پر جا بیٹھا، ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ناشتے کا آغاز کہاں سے کیا جائے کہ ایک جواں سال اچھی خاصی موٹی رشین ویٹرس ایپرن باندھے کسی مزاحیہ فلم کی ہیروئن کی مانند نمودار ہوئی، جس کا مشن صرف مہمانوں کو خوش رکھنا ہو۔

صاف شفاف موتیوں کی لڑی جیسے دانتوں کی نمائش کرتے بولی "روم نمبر پلیز؟"

میرا جواب سن کر اس کا اندرونی میزبان جاگ اٹھا "یہاں ناشتے کیلئے ہر طرح کی نعمت موجود ہے، آپ جو کھانا چاہتے ہیں، مجھے بتائیں، میں لا دیتی ہوں، اگر آپ خود انتخاب کرنا پسند کریں تو ان دو ٹیبلوں پر جا سکتے ہیں، ان کے علاوہ اگر کوئی چیز درکار ہو تو مجھے بتائیں، میں کچن والوں کو بتا دیتی ہوں"۔

میں نے فوراً دو عدد ہاف فرائی آملیٹ کا آرڈر دیا، کیونکہ ناشتے میں آملیٹ کا نہ ہونا بغیر چینی چائے جیسا ہوتا ہے، پھر میں خود ہی "نواز شریف اسٹائل" میں اٹھا، یعنی خوددار اور خود خوار، لوازمات کی میز پر "لاہوری ناشتے" کا اہتمام نہ تھا لیکن بھری ہوئی ٹیبل بتا رہی تھی کہ میزبانوں کا دل بہت وسیع ہے، ایک پلیٹ اٹھائی اور دل میں دعا کی کہ پلیٹ کہیں چھوٹی نہ پڑ جائے، مقامی پنیر کی بہت تعریف سنی تھی گویا وہ سیلبریٹی ہو، سب سے پہلے اسی پنیر کے دو ٹکڑے چمٹے سے اٹھا کر پلیٹ کی زینت بنائے، پھر مربہ جات، دو قسم کے، "جیم اینڈ جیلی" کی ڈیکوریشن کسی ثقافتی شو کی نمائندگی تھی، زیتون، مکھن اور تندوری روٹی نے ایسے دعوت دی جیسے پرانے دوست "چائے پہ بلاؤ" پارٹی دے رہے ہوں، دو عدد ہاٹ ڈاگ بھی سلیقے سے رکھ لیے کیونکہ ناشتے میں انٹرنیشنل تعلقات بھی ضروری ہوتے ہیں۔

میں پلیٹ مکمل کرکے ابھی ٹیبل پر واپس پہنچا ہی تھا کہ وہی موٹی ویٹرس ہاتھوں میں آملیٹ کی پلیٹ تھامے حاضر ہوئی، مگر آملیٹ پر چمکتا ہوا تیل گواہی دے رہا کہ جیسے خاص طور پر گھی شوز کے لیے تیار کئے ہوں، میں نے نرمی سے آئل کم کرنے کی فرمائش کی، تو وہ فوراً ٹشو نکال کر ایسی مستعدی سے صفایا کرنے لگی جیسے جرم کے شواہد مٹا رہی ہو۔

پھر بولی "مزید کچھ چاہیئے؟"

میں نے شکریہ ادا کیا تو وہ اپنی ٹریڈ مارک مسکراہٹ کے ساتھ بولی "آپ نے ہمارا اسپیشل جوس نہیں لیا، یہ ہم خود بناتے ہیں اور قسم سے، ایک مرتبہ پینے کے بعد پیار ہو جائے گا"۔

اتنی تعریف سننے کے بعد جوس چکھنا اب لازم ہو چکا تھا، میں کرسی سے اٹھنے لگا تو مجھے اٹھتا دیکھ کر جلدی سے بولی "آپ ناشتہ کریں، میں جوس لاتی ہوں"۔ وہ پلٹی اور جوس کے دو گلاسوں کے ساتھ آئی، انار اور مالٹے کے جوس ٹیبل پر میری آنکھوں کے عین سامنے رکھ دیئے، میں ہنستے ہوئے اس کی مہمان نوازی کی داد دی "ایک ہی کافی تھا"۔

وہ اسی طرح مسکرائی "پہلے ایک گھونٹ پی کر تو دیکھیں، پھر دوسرا گلاس خود بلائے گا"۔

میں نے پہلے انار کا جوس اٹھایا، پہلا گھونٹ پیا، اللہ اللہ! زبان نے شکر ادا کیا اور پتے نے تالیاں بجائیں، ایسا ذائقہ جیسے انار خود بوتل سے نکل کر بولے، "بھائی جان! خوش؟" بلاشبہ "دل خوش، پیسہ وصول اور پیٹ مطمئن"۔

میرے چہرے پر انار جوس کے ذائقے نے وہ تاثر پیدا کیا جیسے کسی بچے کو پہلی بار پتنگ کی ڈور تھمائی گئی ہو، حیرت، خوشی اور تھوڑا سا فخر، موٹی ویٹرس جو اب صرف "موٹی ویٹرس" نہیں بلکہ "صبح بخیر باکو کی سفیر" لگ رہی تھی، فوراً مسکرائی اور بولی۔

"یہ ہمارا سپیشل جوس ہے، پی لیں، میں دوسرا گلاس بھی لاتی ہوں"۔

میں فوراً بریک لگائی، اس کی طرف متوجہ ہوا، "نہیں، نہیں، اتنا کافی ہے، ناشتہ ویسے ہی ویٹ لفٹرز والا ہوگیا ہے اور آج مجھے سیر سپاٹے بھی کرنے ہیں"۔

وہ کاؤنٹر کے پیچھے چلی گئی تھی، مجھے مخاطب کرتے بولی "کہاں جانا ہے سیاح صاحب"۔

میں نے نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے رعب سے مختصر اعلان کیا "آتش کدہ" میرا انداز ایسا تھا کہ جیسے الف لیلیٰ کا گمشدہ خزانہ کھوجنا درپیش ہو۔

وہ فوراً باکو کی مارکیٹنگ ٹیم کی نمائندگی کرتے بولی "اوہ، واہ، بہت تاریخی جگہ ہے، آپ کو بہت پسند آئے گی بلکہ سارا باکو ہی سیاحوں کیلئے ایک کھلی نمائش ہے"۔

میں اسے پوچھا "کیا آپ قابل دید مقامات کے نام کاغذ پر لکھ کر دے سکتی ہیں؟"

وہ بولی "سر جی، اتنے زیادہ مقامات ہیں کہ اگر لکھنا شروع کروں تو ناشتے کا وقت لنچ میں تبدیل ہو جائے گا اور اگر آپ سب دیکھنے لگیں گے تو واپسی کی فلائٹ چھوٹ جائے گی"۔

اب حیرت کی باری میری تھی، میرا خیال تھا کہ شائد تین چار جگہیں ہوں گی جو میں دو تین دن میں سب نبٹا لوں گا، لیکن باکو بھی کہہ رہا تھا "اب آئے ہو تو پورا ہفتہ نکالو"۔

میں مزے سے ناشتہ کر رہا تھا لیکن قسمت نے کچھ اور بھی رکھ چھوڑا تھا کیونکہ جہاں اچھا کھانا ہو، وہاں دلچسپ لوگ خود بخود آ جاتے ہیں، تو جناب، میں آرام سے انار جوس پی رہا تھا اور دل ہی دل میں اپنی قسمت پر خوش ہو رہا تھا "انار جوس، کم آئل والا آملیٹ، سروس بھی فری، بہترین ناشتہ، بندہ رب سے اور کیا مانگے؟"

ابھی دوسرا گھونٹ لیا ہی تھا کہ ایک صاحب اندر داخل ہوئے، قد چھوٹا، جسم گول اور چہرے پر ایسی نیند طاری تھی جیسے خواب میں ابھی تک بیئر کا کین تھامے بیٹھے ہوں، یہ تھے رشین انکل الیگزے، انکل سیدھا میری ٹیبل کی طرف آئے، شائد سمجھے ہوں کہ سب مہمان چلے گئے، اب دوستی کرنے کا وقت ہے، ان کی نظریں آملیٹ پر تھیں جیسے کوئی سائنسدان اس میں سے راکٹ فیول دریافت کر رہا ہو۔

بیٹھتے ہی بولے، "گڈ مارننگ، مائی فرینڈ، یو فرائی ٹو؟"

میں مسکرایا "نیت، نیت، فرائیڈ آملیٹ، یو؟" (یاد رہے کہ رشین میں نیت کا مطلب انگریزی والا نو اور اردو والا انکار ہوتا ہے۔)

وہ بولے "می؟ نیت، نیت، بیئر اینڈ پیٹزو"۔

میں فقرہ کسا "بھائی جی، صبح کا وقت ہے، روزہ نہیں ہے، نظامِ ہضم کا خیال کرو"۔ میری بات پر وہ کھلکھلا کر ہنسا، اتنے میں وہی موٹی ویٹرس جس کا موڈ اور بھی خوشگوار لگ رہا تھا، ہماری طرف آئی اور انکل سے پوچھا

"سر، آپ کو کچھ چاہیئے؟"

انکل نے سنجیدگی نما مسکراہٹ سے جواب دیا "ہاں، ضرور، کچھ ایسا جس میں آئرن زیادہ اور کیلوریز کم ہوں"۔

ویٹرس نے اسی کے انداز میں جواب دیا "تو پھر پانی پیئیں، سر"۔

میں ہنسی نہ روک سکا، انکل بھی مسکرانے لگے، "شی از ویری فن، ویری گڈ سروس"۔

ویٹرس میری طرف جھکی اور آہستگی سے بولی "یہ انکل روزانہ یہی کہتے ہیں، ہر بار دو پیٹسے، ایک چاکلیٹ کروسان اور تین کپ چائے، کم کیلوریز ان کے دل کی خواہش ہے، پیٹ کی نہیں"۔

ہال میں ہم تین کردار بچے تھے اور ریسٹورنٹ کسی ڈرامے کا سیٹ لگ رہا تھا جس کے ہر منظر میں "ایک نیا ذائقہ" ہو، میں ناشتے کے ساتھ بھرپور انصاف میں مگن تھا کہ ویٹرس نے پوچھا۔

"کافی لاؤں؟"

میں نے شکریہ ادا کیا، "نہیں، بس اب اتنی خوشی ہوگئی ہے کہ مزید کچھ لیا تو خود سے حسد ہونے لگے گا، ایسی خوشگوار صبح، بھرپور ناشتہ اور ایسے دلچسپ کردار کہ اگر ہر دن ایسے شروع ہو تو شائد زندگی چلنے کی بجائے گانے لگے۔ " ناشتہ ختم کرکے میں جاتے جاتے پانچ منات کا ایک نوٹ پلیٹ کے نیچے بطور ٹپ رکھ دیا۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan