Aatish Kada Baku (9)
آتش کدہ باکو (9)

اب تو میری شوخی پوری طرح واپس لوٹ چکی تھی، میں نے شرارت سے اسی ہارر کمرے کی طرف اشارہ کیا، روزا نے فوراً دونوں کانوں کو ہاتھ لگائے، جیسے کوئی کہہ رہا ہو "پناہ بخیر" اور بے ساختگی سے بولی۔
"اب زندگی میں کبھی دوبارہ اس کمرے میں نہ جاؤں گی، چاہے ٹکٹ کے ساتھ پیزا بھی مفت ملے! "
میں نے ہنستے ہوئے کہا "چلو مانا ڈراونا تھا، مگر جس نے بھی وہ ماحول بنایا، کمال فنکار تھا"۔
روزا نے غصے سے میری طرف دیکھا، جیسے کہنا چاہ رہی ہو "تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے؟" اور پھر دل پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
"اگر مجھے کچھ ہو جاتا؟"
ماحول یکسر خراب ہوتے دیکھ کر میں فوراً اس کے پاس بیٹھ گیا، جیسے انگریزی فلموں میں ہیرو بات بناتے ہوئے آہستہ سے رومانی لب و لہجہ اپنا لیتا ہے اور کہا: "اگر اتنی خوب صورت لڑکی کی میری آنکھوں کے سامنے موت واقع ہوتی، تو میں خود کو کبھی معاف نہ کرتا اور اپنے ہی ہاتھوں سے زندگی کا Exit بٹن دبا دیتا"۔
روزا نے یہ سن کر پہلے تو حیرت سے آنکھیں پھیلائیں، پھر چہرے پر ہنسی کی روشنی نمودار ہوئی اور وہ شرارت سے مسکرا کر ہاتھ کے اشارے سے بولی۔
"یہاں آ جاؤ، بیٹھو میرے پاس"۔
اب بھئی، ایسی دعوت پر کون انکار کرتا؟ میں فوراً "فرماں بردار فلمی ہیرو" بن کر اس کے پاس بیٹھ گیا اور کمرہ اب بالکل غیرضروری لگنے لگا۔
چند منٹ تک میں روزا کے ساتھ بیٹھ کر اسے ایسے تسلی دیتا رہا جیسے نانی اماں بیمار پوتے کو ہمت دلاتی ہیں کہ "بس تھوڑا سا کڑوا قہوہ ہے، پی لو، سب ٹھیک ہو جائے گا"۔ جب اس کے اوسان بحال ہوئے اور وہ سانس بھی ایسے لینے لگی جیسے بھوتوں کے بجائے اب پھر سے انسانوں کے درمیان ہے، تو میں نے نرمی سے پوچھا:
"بس دو کمرے بچے ہیں، کیا خیال ہے؟ وہ بھی دیکھ لیتے ہیں؟"
روزا نے وہی انداز اپنایا جو امتحان کے دنوں میں بچے ماں کو ہوم ورک سے معاف کرانے کے لیے اپناتے ہیں، دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھائے، جیسے کہہ رہی ہو: "اوہ خدایا! اب اور نہیں! تم جاؤ، میں یہیں دعا کرتی ہوں کہ تم صحیح سلامت واپس لوٹو"۔
تو جناب، میں بہادری کا لبادہ اوڑھ کر، تنہا اگلے کمرے کی طرف روانہ ہوا۔ کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ایک نہایت دلچسپ منظر:
ایک ساہوکار اشرفیوں کی چمک میں نہا رہا تھا اور سامنے ایک بندہ قرض مانگنے کے مؤدب انداز میں کھڑا تھا، جیسے کہہ رہا ہو: "سائیں جی، بس دو اشرفیاں دے دیں، اگلے ہفتے واپس کر دوں گا، اگر قسمت نے ساتھ دیا تو"۔
ساہوکار نہایت سلیقے سے اشرفی پکڑا رہا تھا، جیسے کوئی کہہ رہا ہو "یہ لو بھائی اور دعائیں دینا مت بھولنا"۔ نئے گروپ کی گائیڈ صاحبہ دروازے سے ٹیک لگائے کھڑی تھی اور زائرین کو یوں بتا رہی تھیں جیسے وہ تاریخ کی ٹیچر ہوں جنہیں تاریخ سے تھوڑا زیادہ پیار ہے:
"یہ سب ایک نہایت عمدہ نظام تھا، مالدار لوگ غریبوں کو قرض دیا کرتے تھے، وہ بھی بغیر ایپس اور OTP کے"۔
گائیڈ صاحبہ کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ گروپ والوں کے سوالات سے اکتا چکی تھی لیکن اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کی غرض سے مجبور تھی۔ کمرے کا ماحول ایسا تھا جیسے گُڈ فائنانشل ٹائمز، کی شوٹنگ چل رہی ہو، جہاں ساہوکار پٹھے نہیں، پیتل کے سکے بانٹتے ہیں۔
اگلا کمرہ اس سادگی سے بالکل الگ تھا، یہاں قیدیوں کے مجسمے تھے۔ یعنی جیسے پچھلے کمرے میں قرض نہ لوٹا پاؤ، تو سیدھا یہاں آ جانا پڑے گا۔ یہ ایک جیل خانہ تھا، مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے فنکار نے قیدیوں کو بھی کہہ رکھا ہو، "بھئی غمگین لگو، مگر تھوڑا اسٹائل کے ساتھ"۔
کچھ قیدی سوچ میں گم تھے، جیسے پزل حل کر رہے ہوں: "آخر میں یہاں آیا کیسے؟"
اب میں سوچ رہا تھا، اگر روزا یہاں آتی تو شاید ان قیدیوں کو بھی تسلی دینے بیٹھ جاتی: "سب ٹھیک ہو جائے گا، مجھے بھی ابھی ابھی ایک نفسیاتی قید سے رہائی ملی ہے"۔
جب میں واپس مڑا تو آنکھوں نے جو منظر دیکھا، ہارر فلم کا انجام اچانک کسی رومانی مزاحیہ فلم میں بدل گیا تھا، روزا، جو کچھ دیر پہلے ہچکیاں لے لے کر کانپ رہی تھی، اب اسی "مردہ کمرے والی" خوفناک سمجھی جانے والی روسی خاتون کے ساتھ قہقہے لگا رہی تھی اور دونوں اتنی بے تکلفی سے سیلفیاں کھینچ رہی تھیں جیسے کسی چائے کے ڈھابے پر پرانی دوستیں ملی ہوں۔
یہ وہی روزا تھی جو کچھ منٹ پہلے مجھے کمرے سے بھاگتے وقت ایسے کھینچ رہی تھی جیسے کوئی کشتی ڈوب رہی ہو اور میں تنکا ہوں اور اب؟ اب وہ اس "فرشتہء اجل" کو ایسے گلے لگا رہی تھی جیسے کوئی لاپتہ ماں بیٹی برسوں بعد ملی ہو!
میں ان کے پاس گیا تو وہ بوڑھی خاتون نہایت جذباتی انداز میں معذرتیں کر رہی تھیں، بار بار کہہ رہی تھیں کہ "میں تو صرف سانس لینے اٹھی تھی، کس کو پتہ تھا کہ اس سانس سے کسی کی جان ہی نکل جائے گی"۔
میں نے فوراً ان کا دل ہلکا کیا اور کہا "ارے نہیں اماں جی، یہ تو محض ایک معصومانہ نظر کا فریب تھا، آپ تو خود اس دن کی سب سے مشہور فنکارہ بن گئی ہیں"۔
روزا اب مکمل طور پر "شاک موڈ" سے باہر آ چکی تھی، بلکہ وہ تو اس خاتون کو کچھ ایسے گلے لگا رہی تھی جیسے یہ سب کچھ جان بوجھ کر نہیں، بلکہ ایک ناقابلِ فراموش یادگار حادثہ ہو جس پر اب ہنسا جائے۔
بوڑھی خاتون کا دل بھی بالکل دادی اماں والا ہو چکا تھا۔ وہ روزا کو بار بار خود سے لپٹا کر ایسے ماتھے پر پیار کر رہی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں: "میری بچی! میں تو بس ایک تھکا ہارا کردار تھی، تم نے مجھے دل سے ہیروئن بنا دیا"۔
سیلفی کے اس ایپی سوڈ میں شاید سب سے خاص بات یہ تھی کہ وہ کمرہ جو پہلے روزا کو جہنم کا دروازہ لگا تھا، اب انسٹاگرام کا پسندیدہ بیک گراؤنڈ بن چکا تھا۔
دل چاہتا تھا یہ منظر فریم کر دوں، کیپشن کے ساتھ: "جہاں موت کا فرشتہ سیلفی پارٹنر بن جائے"۔
روزا نے میری طرف دیکھ کر ہلکا سا سر ہلایا، جیسے کہنا چاہ رہی ہو، "اب تو ٹھیک ہوں، لیکن پلیز مجھے اب صرف پھول، پرندے اور سمندر دکھاؤ"۔

