Aatish Kada Baku (8)
آتش کدہ باکو (8)

کچھ دیر سستانے کے بعد باقی ماندہ کمرے دریافت کرنا طے پایا، اپنے گروپ کی تلاش میں نظر دوڑائی لیکن گروپ ہم کو چھوڑ کر آگے بڑھ چکا تھا اور اب کسی نامعلوم کمرے کے اندر تھا، باہم طے پایا کہ خود ہی باقی کمرے وزٹ کرتے ہیں، وہاں سے اٹھ کر اندازے کے مطابق ایک کمرے کا پردہ یوں اٹھایا جیسے کوئی خزانے کا دروازہ کھولنے لگا ہو، لیکن اندر جو ملا، وہ خزانہ کم اور تھرلر فلم کا کلائمیکس زیادہ لگا۔ روزا بہادری سے آگے تھی اور میں پیچھے، جیسے کسی مہم جوڑی میں ہیروئن لیڈ کر رہی ہو اور ہیرو صرف بیمہ کروانے آیا ہو۔
کمرے میں اندھیرا ایسا کہ اگر اپنی ناک پر ہاتھ رکھو تو بھی شک نہ ہو کہ کسی اور کا ہے۔ بائیں طرف دیوار کے ساتھ نصب ایک چبوترے پر، اوپری دھڑ ننگا اور نیچے سفید دھوتی میں لپٹا ہوا ایک مردہ نما مجسمہ ایسے پڑا تھا جیسے ابھی ابھی "اینڈ کریڈٹس" چلنے والے ہوں۔ اس کی کھلی آنکھیں آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں جیسے ملک الموت کے تعاقب میں ہوں۔
اسی اثنا میں دیوار کے ساتھ بیٹھی ایک روسی دادی ماں، جو بظاہر نیند میں خوش باش لگ رہی تھیں، اچانک بجلی کی طرح اٹھ بیٹھیں۔ ہماری نظریں مردے پر تھیں اور وہ عورت اٹھ کر یوں کھڑی ہوئیں کہ لگا گویا وہی موت کا فرشتہ ہے اور ہمیں اب روح دینے کا فارم پکڑا ہی دینے والی ہیں۔
یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ روزا کے اندر کی تمام اداکاریاں نکل آئیں۔ اس نے وہ چیخ ماری کہ گویا ہارر فلم میں Best Screamer Award جیتنے کا پورا ارادہ ہو۔ روزا نے یکبارگی میرا ہاتھ پکڑا اور ہم دونوں نے ریورس گئیر میں دوڑ لگائی، جیسے گوگل میپ نے غلط راستہ دکھا دیا ہو۔
لیکن قسمت کی سڑک پر پھسلن تھی، میرا پاؤں رپٹا اور ہم دونوں عین دروازے کے بیچ گر گئے۔ روزا پوری شدت سے مجھ سے لپٹ گئی اور یوں چیخنے لگی کہ جن کو بھی شرم آ جائے۔
میں بھی تھوڑا گھبرا گیا تھا، دل نے کہا، "بھائی اب روح نہ نکلی ہو تو شکر کرو"۔
روزا آنکھیں بند کیے، کپکپاتی ہوئی، مجھ سے چپکی رہی۔ میں نے اپنے اندر کے بہادر مرد کو آواز دی، جو کہیں کافی پینے گیا تھا اور بمشکل روزا کو سنبھالا۔ نرمی سے کہا۔
"روزا۔۔ روزا۔۔ آنکھیں کھولو، یہ مردہ ہے، زندہ نہیں"۔
لیکن روزا کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور وہ ایسے کپکپا رہی تھی جیسے روسی نہیں، برفانی ریچھ دیکھ لیا ہو، میرے بازو سے ایسے چمٹی پڑی تھی جیسے میں کوئی موبائل پاور بینک ہوں جو خوف کے جھٹکوں میں بیٹری بحال رکھتا ہو۔
میں نے ایک بار پھر نرمی سے روزا کو پکارا، جیسے استاد اسکول کی پہلی جماعت میں آئے ہوئے نئے بچے کو مخاطب کر رہا ہو۔ لیکن روزا کے ہونٹ صرف تھرتھرا رہے تھے، آواز کا سگنل "نو نیٹ ورک" پر چلا گیا تھا۔ میں نے شفقت سے کہا، "روزا، آنکھیں کھولو، سب کچھ ٹھیک ہے، ہم بالکل خیریت سے ہیں، کوئی جن، بھوت یا رشین بھاگتا مجسمہ نہیں ہے یہاں"۔
لیکن روزا ابھی بھی خوف کے قلعے میں قید تھی۔ میں نے نرمی سے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھا، جیسے کسی فلم میں ہیرو ہیروئن کو راجھستانی رومانس میں تسلی دیتا ہے اور آہستہ سے بولا، "روزا، آنکھیں کھولو، سب کچھ ٹھیک ہے"۔
روزا نے جواب میں چھوٹے بچے کی طرح سر میرے سینے پر رکھ دیا، آنکھیں زور سے بند کیں اور نفی میں سر ہلانے لگی جیسے کہہ رہی ہو، "نہیں، مجھے یہ ہارر گیلری اب نہیں دیکھنی، چاہے اس کے بعد کینڈی فیکٹری ہی کیوں نہ ہو"۔
میں اسے تھپکیاں دینے لگا، ایسے جیسے گود میں آیا پالتو خرگوش ڈر کر خود کو کمبل سمجھ لے۔ میری مسلسل تسلیوں، ہلکے لفظوں اور دل سے کی گئی "کوئی جن نہیں ہے" تھراپی سے آہستہ آہستہ اس کے اوسان بحال ہوئے۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور میری شکل دیکھی تو کچھ لمحے ایسے لمبے لمبے سانس لیے جیسے کوئی نیا نویلا ایتھلیٹ بغیر تربیت کے ہمالیہ کی چوٹی پر چڑھ آیا ہو۔
اس کا سانس ایسا چل رہا تھا جیسے بمشکل میراتھن جیت کر ابھی ابھی اختتامی لکیر عبور کی ہو اور اب رپورٹرز کے بجائے میں سامنے آ گیا ہوں۔ لیکن سب سے حیرت انگیز بات یہ کہ اس کی گرفت میری کمر پر ویسی ہی مضبوط تھی، جیسے میں کوئی انسانی لائف جیکٹ ہوں، جو ہر طرح کے ہارر سے بچاتا ہو۔
عین اسی لمحے وہی رشین بڑھیا پیچھے سے نمودار ہوئی اور روزا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بڑے سکون سے پوچھا، "بیٹی، کیا تم ٹھیک ہو؟"
ہم دونوں کی نظریں ایک بار پھر اس آواز کی طرف گئیں اور جو دیکھا، وہ وہی چالاک رشین دادی، وہی مردہ کمرے والی محترمہ جنہوں نے پچھلے منظر کو ہارر فلم سے براہِ راست براڈکاسٹ میں تبدیل کیا تھا۔ اب وہ نہایت خلوص سے روزا کی خیریت دریافت کرنا چاہتی تھیں، لیکن روزا کے دل نے تو جیسے اُنہیں دیکھتے ہی دوبارہ "پلے" کا بٹن دبا دیا۔
جیسے ہی اس نے دادی کو پہچانا، ایک فلمی چیخ ماری، اس بار والی پچھلی سے بھی زیادہ طویل، بلند اور دھمکی آمیز، جیسے آواز کے ذریعے بوڑھی خاتون کو "ریوائنڈ" پر بھیجنے کا ارادہ ہو۔ پھر پوری شدت سے مجھ سے لپٹی، جیسے میں کوئی بولی وڈ ہیرو ہوں اور وہ زلزلے میں بچنے آئی ہو اور بغیر کوئی ڈائیلاگ کہے مجھے باہر کی طرف دھکا دے دیا۔
نتیجہ؟ میرے قدم لڑکھڑائے اور ہم دونوں ہائی ایکشن اسٹائل میں کمرے سے نکل کر کنکریٹ کے فرش پر "سلو موشن" میں گرے، گویا زمین ہمیں کہہ رہی ہو، "آجاؤ، تمہاری فلمی سین کے لیے میں تیار ہوں"۔
میرا سر دھڑام سے کنکریٹ سے ٹکرایا اور اوپر سے روزا کا پورا وزن مجھ پر آ گرا، ابھی اس ٹکر سے ٹھیک سے سنبھلا نہ تھا کہ اگلے لمحے ہمارے ماتھے بھی ایک دوسرے سے ٹکرا گئے۔ یک نہ شُد دو شُد۔ لمحہ ایسا تھا جیسے کرکٹ کی گیند سیدھا ہیلمٹ پر آ لگے اور پھر ایک اور گیند ساتھ ہی آ کر لگے۔
ایک لمحے کے لیے مجھے اپنے بچپن کے کارٹون یاد آ گئے، جن میں ٹکرکے بعد ستارے، پنچھی اور چمگادڑیں سر کے گرد چکر لگاتے تھے۔ روزا کو ذہنی جھٹکا لگا تھا اور مجھے دو عدد فزیکل، لیکن میرے دل میں اب بھی فکر روزا کی تھی، میں تو مرد ہوں، تھوڑا سر ٹکرا بھی جائے تو چلتا ہے، بس دنیا دوڑ میں تھوڑا گول گول نظر آنے لگتی ہے!
چند لوگ ہماری فلمی گراوٹ دیکھ کر دوڑتے آئے، جیسے کوئی لائیو شو کا آخری سین ہو اور ہمیں اٹھنے میں مدد دی۔ روزا اب بھی زمین پر بیٹھی تھی، جیسے کہہ رہی ہو: "بس کرو اب، مجھے واپس پیک کرکے گھر بھیج دو"۔
اسی دوران وہی دادی ایک بار پھر آگے بڑھنے لگیں، غالباً کچھ اور خیرسگالی الفاظ لے کر، لیکن میں نے فٹ سے ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا: "نو شکریہ، آج کے لیے اتنا پیار ہی کافی ہے"۔
روزا زمین پر بیٹھی رہی، لیکن اب اُس کی سانسیں نارمل ہو رہی تھیں اور میں اندر سے دعا کر رہا تھا کہ اگلے کمرے میں یا تو کوئی چائے والا ہو یا پنکھا، صرف اتنا کہ ہم پھر انسان بن جائیں۔
اب تو ہم دونوں ایک مکمل فلمی سین کے مرکزی کردار بن چکے تھے، میں نے خود کو سنبھالتے ہوئے روزا کی کمر میں بازو ڈال کر اٹھنے میں مدد دی، جیسے کسی رومانوی ڈرامے میں زخمی ہیروئن کو ہیرو سہارا دیتا ہے اور اُسے دھیرے دھیرے قربان گاہ والے چبوترے کی طرف لے گیا، کم از کم اس وقت ہمیں وہ جگہ سب سے "پرسکون" لگی!
روزا کو وہاں بٹھایا تو آس پاس فوراً ایک "ٹورسٹ امدادی ٹیم" نمودار ہوگئی، جن کے چہروں پر وہی تاثر تھا جیسے کسی ڈاکیومینٹری میں نایاب پرندہ گر کر زخمی ہو جائے۔
میں نے سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور نرمی سے کہا، "دوستو، اب یہ سین ڈائریکٹر کے ہاتھ میں ہے، آپ آرام سے آگے بڑھیں"۔
ایک ولندیزی خاتون، جن کی آنکھوں میں نرسنگ کا تجربہ اور ہاتھوں میں یورپی نرمی تھی، آگے بڑھی اور روزا کو نہایت نرمی سے سنبھالا، جیسے ٹیولپ کا پھول سنبھالا جاتا ہے۔ اس نے روزا کو پانی پلایا اور وہ پہلی گھونٹ میں ایسا لگا جیسے جان پھر سے لوٹ آئی ہو۔ میں خود بھی روزا کی حالت دیکھ کر پریشان تھا، لیکن ساتھ ہی حیران بھی کہ ہم اب بھی ایک عجائب گھر میں ہیں، نہ کہ ہسپتال یا فلمی سیٹ پر۔
چند روسی خواتین بھی آ گئیں، جن کے انداز میں ایک عجیب ماں جیسی شفقت تھی۔ انہوں نے روزا کو "روسی ماں والا" پیار دے کر کافی حد تک سنبھال لیا۔ دس بارہ منٹ بعد روزا نے میری طرف دیکھا اور بالکل ایسی آواز میں جیسے ابھی کوئی فائنل ڈسکشن ہونے والا ہو، پوچھا:
"اب کیا پروگرام ہے؟"
میں نے شرارت سے اسی ہارر کمرے کی طرف اشارہ کیا، اب تو میری شوخی پوری طرح لوٹ چکی تھی۔
روزا نے فوراً دونوں کانوں کو ہاتھ لگائے، جیسے کوئی کہہ رہا ہو "پناہ بخیر" اور بے ساختگی سے بولی۔
"اب زندگی میں کبھی دوبارہ اس کمرے میں نہ جاؤں گی، چاہے ٹکٹ کے ساتھ پیزا بھی مفت ملے"۔