Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Aatish Kada Baku (5)

Aatish Kada Baku (5)

آتش کدہ باکو (5)

"پرس، ٹکٹ اور آذری مسکراہٹ"

تیسری دکان میں آتش گاہ سے منسوب لوازمات کی بھرمار تھی، کچھ روحانی، کچھ ثقافتی اور باقی خالصتاً بیگماتی! جی ہاں، یہاں ہر وہ چیز تھی جو سیاح خرید کر گھر جا کر شو کیس میں رکھتا ہے، یا انسٹاگرام پر "لوکلی ہینڈکرافٹڈ" لکھ کر پوسٹ کرتا ہے۔

لیکن یہ منظر اُس وقت بدل گیا جب روزا نے "صنفِ نازک موڈ" آن کرلیا، وہی والا موڈ جس میں خواتین ایک طرف سے دوسری طرف جاتے ہوئے ہر چیز کو "پھرولتی" ہیں، پھر "پھراتی" ہیں، پھر دوبارہ "پھرولتی" ہیں اور بالآخر جس چیز کو پہلے نظرانداز کیا تھا، وہی پسند آ جاتی ہے۔

اس پورے فلٹرنگ سسٹم کے بعد آخرکار ایک لیڈی پرس روزا کی نگاہِ انتخاب بن گیا۔ اس پرس پر آتش گاہ کا مرکزی مندر بنا تھا، جیسے ثقافت اور فیشن کا نکاح ہوگیا ہو۔

قیمت تھی صرف بیس منات۔

میں نے فوراً "مہمان نوازی پلس مردانہ فراخ دلی" کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرس نکالا، لیکن روزا نے ایک دم سے ہاتھ روک کر کہا: "نو سر، میں خود ادا کروں گی"۔

اس نے قیمت ادا کی، پرس وصول کرکے دکان سے نکلے، آتش گاہ کی جانب روانہ ہوئے۔ میں نے دل میں کہا،: واہ بھئی، آج کا دن بھی تاریخ میں جائے گا۔

اب ہم آتش گاہ کے صحن سے گزر کر ایک چھوٹے دروازے پر پہنچے جہاں نصب ایک آہنی بورڈ پر تین زبانوں، آذری، انگریزی اور رشین، میں کچھ ایسی معلومات درج تھیں کہ جنہیں پڑھ کر لگتا تھا کوئی ماسٹرز تھیسس لکھ دی ہو۔

روزا نے جیسے ہی بورڈ دیکھا، فوراً ہنسی دبا کر کہا: "ہم ٹکٹ لینا تو بھول گئے"۔

اور پھر اپنی گائیڈانہ شان سے بتایا: "جب مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہیں، تو بائیں ہاتھ پہلی دکانوں سے پہلے جو بوتھ ہے، وہی ٹکٹ گھر ہے"۔

اس نئی دریافت پر میں اچھے بچے کی طرح سر ہلایا اور فوراً ٹکٹ بوتھ کی طرف اس ڈر سے قدم بڑھائے کہ کہیں اس شاندار آتش کدہ کو بغیر ٹکٹ دیکھنے کی مد میں جرمانہ نہ پڑ جائے۔

ٹکٹ گھر پہنچا تو وہاں کھڑکی کے پیچھے ایک نہایت خوبصورت آذری خاتون براجمان تھیں۔ ایسی پروفیشنل مسکراہٹ جیسے "خوش آمدید" لفظ نے بھی نیا میک آپ کر لیا ہو۔

میں نے ادب سے سلام کیا اور پوچھا: "ایک بالغ کا ٹکٹ کتنے کا ہے؟"

جواب آیا: "پانچ منات"۔

میں نے فراخ دلی سے جھٹ جیب سے دس منات نکال کر اس کے حوالے کئے، ٹکٹ وصول کرکے جیب میں رکھے اور واپس روزا کی طرف روانہ ہوگیا، دل میں سوچتا ہوا کہ یہ سفر ثقافت کا ہے لیکن مصالحہ مزاح کا لگا ہوا ہے۔

اب ہم اُس چھوٹے مگر تاریخی دروازے پر پہنچے جس کے بعد "آتش گاہ انٹری" کی سطح اگلے لیول پر چلی جاتی ہے۔ دروازے کے اندر قدم رکھا تو لگا جیسے جدید اور قدیم کے ملاپ سے کوئی نیا ایپ کھل گیا ہو۔ دائیں بائیں دو کاؤنٹرز، جیسے تاریخ نے دو سائیڈ مرر لگا رکھے ہوں اور بیچ میں ایک متحرک رکاوٹ، جو بالکل اُس شادی کی میزبان خالہ کی طرح تھی جو مہمانوں کو اندر جانے سے پہلے چار سوال کرتی ہیں۔

رکاوٹ نظر تو سخت آتی تھی، لیکن حقیقت میں وہ "اٹھاؤ اور گزر جاؤ" والی نسل سے تھی، بس سیکیورٹی گارڈ اور عملہ کے حکم کا انتظار تھا۔

میں نے ڈیوٹی پر مامور لیڈی کو ٹکٹ تھمائے، تو اُس نے نرمی سے وہی کہا جو ہر آفس میں چائے مانگنے پر کہا جاتا ہے: "ویٹ پلیز"۔

ابھی میں انتظار کے معنی پر غور کر ہی رہا تھا کہ روزا نے میرا کان یوں چھوا جیسے خفیہ ایجنسی کا کوئی اہلکار ہو اور سرگوشی کی: "پیچھے آجاؤ، یہ دس دس لوگوں کا گروپ بنا کر گائیڈ کے ساتھ بھیجتے ہیں"۔

لگا جیسے کسی خفیہ پلان کا حصہ بن گیا ہوں، "مشَن آتش گاہ: گروپ آف 10"!

جیسے ہی دس لوگ مکمل ہوئے، کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھی لڑکی یوں کھڑی ہوئی کہ فرما رہی ہو، "میں ہی آج کی تاریخ ہوں، میرے ساتھ آؤ"۔

پھر دوسری لیڈی نے نہایت منظم انداز میں دس ٹکٹ گن کر پھاڑے، ایسے، جیسے چھٹی جماعت کی استاد حاضری کا رجسٹر چیک کر رہی ہو۔ آدھے ٹکٹ خود رکھے، باقی اُس گائیڈ کے سپرد کیے۔

یہ تھا ہمارا "گروپ پرمٹ"، ایک طرح کی سیاحتی ویزا، آتش گاہ کے اندر کے لیے!

نوجوان گائیڈ نے دل آویز مسکراہٹ سے لبریز انگریزی میں خوش آمدید کہا اور ہمیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔

رکاوٹ ہٹائی گئی اور ہم باری باری اُس دروازے سے اندر داخل ہوئے، جیسے کسی راز کی دنیا میں جا رہے ہوں۔

اور یوں "گروپ آف 10" اپنی رہنما کے ساتھ تاریخ، مذہب اور شعلوں کی سرزمین کی سیر کو روانہ ہوا، دل میں یہ احساس لیے کہ اگر رکاوٹ ہو بھی، تو انٹری کا مزا تب ہی ہے جب کوئی گائیڈ مسکرا کر کہے: "This way please! "

اب ہم اس مقام پر پہنچے، جہاں ہماری نگاہوں کے سامنے آتش گاہ کا تاریخی مندر، چار سنگی ستونوں پر ٹکا یہ تاریخی ڈھانچہ، کنکریٹ کی چھت اوڑھے یوں ایستادہ تھا جیسے کسی پرانی تہذیب کا خوداعتماد معمار آج کے زمانے میں بھی اپنی مرضی سے چھاؤں کر رہا ہو۔

مندر تک جانے کے لیے کنکریٹ کا ایک چوڑا راستہ تھا، بالکل ایسا جیسے "پتلی گلی سے بچو" کا عملی حل ہو۔

اور صحن کے چاروں طرف بنے کمروں کے ساتھ ساتھ کنکریٹ کا فٹ پاتھ، جس پر چلتے ہوئے ہر بندہ خود کو تھوڑا "ماڈرن مہاتما" محسوس کرتا تھا۔

جیسے ہی گائیڈ نے ہمیں اشارہ دیا، ہم سب باادب و بانظم سیڑھیاں چڑھ کر مندر کی طرف بڑھے، سیڑھیاں کچھ زیادہ نہیں تھیں لیکن ہر فرد ایسے چڑھ رہا تھا جیسے کوہِ طور پر وحی لینے جا رہا ہو۔

مندر کے عین وسط میں ایک چبوترے پر وہ خاص "چولہا نما" اسٹیج موجود تھا، دو فٹ اونچا، کنکریٹ سے بنا اور ایسا لگتا تھا جیسے زمانہ قدیم کا باربی کیو اسٹینڈ ہو۔

اوپر کوئلوں میں آگ دہک رہی تھی، بالکل ویسی ہی شعلہ نما، جیسی ہر اچھے فوٹو میں بیک گراؤنڈ ایفیکٹ کے طور پر کام آتی ہے۔

ہم سب نے اپنی اپنی جیب سے موبائل نکالے اور کیمرے آن کر لیے، کوئی زاویہ درست کر رہا تھا، کوئی پوز اور کچھ ایسے بھی تھے جو "مندر کے ساتھ سیلفی" کو عبادت سمجھ کر انجام دے رہے تھے۔

Check Also

Pee Ja Ayyam Ki Talkhi

By Syed Mehdi Bukhari