Sunday, 14 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Aatish Kada Baku (10)

Aatish Kada Baku (10)

آتش کدہ باکو (10)

"دو پگڑیاں، ایک وارثت"

اتنے میں سامنے سے ایک شاندار پگڑی والے سردار جی آتے نظر آئے، لمبی سی پگ، مونچھوں میں تیور، چہرے پر وہی خوش مزاجی جیسے صبح کی چائے میں ادرک، گرم، تیز اور دل خوش کر دینے والی، قد، لباس اور چہرے سے لگ رہا تھا کہ پورے امرتسر کی رونق سجا رکھی ہو، انہوں نے مجھے دیکھتے ہی خیر خیریت پوچھی، "منڈیا سنا، توں ٹھیک ایں؟ ویسے تیری ٹکر دے بڑے چرچے ہو رہے نیں!"

میں نے بھی موقع غنیمت جانا اور فوراً پنجابی کا نعرہ لگایا: "جو بولے سو نہال، ست سری اکال!"

پنجابی سنتے ہی میرے اندر کا وائی فائی سگنل فل ہوگیا، سردار جی کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی، دل والا وائی فائی کنیکٹ ہو چکا تھا اور پھر وہی ہوا جو صدیوں سے ہوتا آیا ہے، سردار جی نے جوابی فتح بلائی، برسوں کی دوری پل بھر میں ختم ہوچکی تھی، ہم دونوں بغلگیر ہوگئے، دو دل، دو زبانیں اور ایک جذباتی موج، تعارف کا مرحلہ آیا۔

وہ بولے: "منندر سنگھ گل فرام امرتسر"

میں نے بھی پوری تمکنت سے کہا۔

"اشفاق عنایت کاہلوں، فرام پنڈ رنگڑ نگر سرداراں، ضلع امبرسر!"

یہ سنتے ہی ان کی آنکھیں کھل گئیں، جیسے بچپن کی یادیں ٹائم مشین سے باہر کود پڑی ہوں۔ حیرانی سے بولے، "یار! تیرا لہجہ بلکل ویسا ہے جیسے میرا دادا بولتا تھا، مطلب اوہی ساڈی بولی، اوہی ٹھہراؤ، اوہی نمک!"

میں نے مسکرا کر بتایا، "میرے دادا جی بھی امرتسر سے ہی ہجرت کرکے پاکستان کے ضلع گوجرانوالہ کے قصبہ حافظ آباد آ گئے تھے، وہیں ان کی سسرال تھی!"

یہ سن کر منندر سنگھ جی کے جذبات بھی موجوں پر آ گئے۔ کہنے لگے، "واہ یار، میرے دادا بھی احمد نگر چٹھہ، ضلع گوجرانوالہ سے ہجرت کرکے انڈیا چلے گئے تھے!"

دونوں دادے، ایک ہی ضلع کے، دونوں پوتے، ایک ہی جذبے کے، یہ ملاقات نہیں، جذباتی ری-یونین تھی، تھوڑی ہنسی، تھوڑا پیار، تھوڑا تاریخ کا ٹچ اور بہت ساری پنجابی روحانیت!

اب جو منظر تھا وہ صرف دو افراد کا نہیں، دو خاندانوں، دو سرحدوں، دو زمانوں کا ملاپ تھا۔

پگڑی اور ٹوپی میں فرق ضرور تھا، پر لہجہ، خوشبو اور داداؤں کی پرچھائیاں ایک جیسی تھیں۔ اگرچہ تاریخ نے ہمیں دور پھینک دیا، لیکن زبان، جذبات اور داداؤں کی بولی نے پھر سے قریب لا کھڑا کیا۔

"دادے دی بولی، وارثاں دے گلے"

تب مجھے احساس ہوا۔

پگڑی یا ٹوپی سے کچھ نہیں ہوتا، اصل وارث وہ ہوتا ہے جسے دادا کی بولی آتی ہو اور قہقہوں میں وراثت سنبھالنی آتی ہو۔

اس مشابہت پر ہم دونوں نے پھر سے زوردار جپھی ڈالی، جیسی فلموں میں ہیرو اور بچھڑا ہوا بھائی آخری سین میں ڈالتے ہیں، صرف پس منظر میں وائلن کی کمی تھی!

واقعی، سردار لوگ، خاص طور پر امرتسر والے، ایسے ملتے ہیں جیسے بندہ اپنے کزن سے نہیں بلکہ دادا جی کی یادوں سے مل رہا ہو۔ ان کے لہجے، انداز اور وہ چمکتی ہوئی مسکراہٹ دیکھ کر دل میں ایک عجیب سی اپنائیت بھر جاتی ہے، جیسے مٹی پکار رہی ہو:

"پُتر، واپس آ جا!"

ہم کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ پچھلے پچیس دن سے ساحل ہوسٹل میں قیام پذیر ہیں۔ میں نے فوراً حیرت زدہ ہو کر کہا۔

"پچیس دن! تُسی تاں باکو نوں اپنا دوسرا پنڈ بنا لیا اے!"

اسی بات چیت میں مجھے پتا چلا کہ باکو میں نہ صرف ہوسٹل ہوتے ہیں، بلکہ وہ بھی ایسے کہ مشترکہ روم میں رہنے کا مزا بھی آتا ہے اور کرایہ بھی اتنا کم کہ دل کرے بندہ روز دو بار کرایہ دے دے، جتنی بچت ہو رہی تھی، لگا جیسے باکو نہیں، مسافر کا جنتی خواب ہو۔

یہ سب سن کر میری معلومات میں بھی خاصا اضافہ ہوا۔ ذہن میں ایک لسٹ بن گئی: "اگلی بار باکو آؤں گا تو فائیو اسٹار چھوڑ کر سردار اسٹار کے مشورے پر عمل کروں گا!"

تو جناب، وہ ملاقات صرف ایک جپھی نہیں تھی، وہ تھی تاریخ، مٹی، بچپن کی یادوں اور نئی معلومات کی ایک مکمل، پنجابی پیکڈ آفر، جذبات بھی مفت اور ہاسٹل کے ٹپس بھی!

یہ جپھی ایک تاریخی بلوٹوتھ کنیکشن تھا، جس نے دونوں خاندانوں کی یادیں آن کر دیں۔

جیسے ہی میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، وہ بوڑھی خاتون جا چکی تھی، یعنی "عمر رسیدہ معمہ" حل ہو چکا تھا۔ اب منظر قدرے صاف تھا، میں نے روزا کو آواز دی، وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی قریب آئی جیسے فلم میں ہیروئن دھند سے نکل کر آتی ہے، بس بیک گراؤنڈ میوزک کی کمی تھی۔

ابھی ہم رسمی بات چیت ہی کر رہے تھے کہ منندر سنگھ نے میرے کان کے قریب ہو کر بڑی سنجیدگی سے اور تھوڑے حسد بھرے لہجے میں کہا:

"یار، ویسے تیری تیویں بڑی سوہنی اے!"

میں زور سے ہنسا اور کہا۔

"او پائی، یہ میری بیگم نہیں، دوست ہے۔ آرام نال، باؤ مت بن!"

وہ فوراً شرمندہ سا ہو کر بولا۔

"او ہو! سوری یار، تجھے رشین لڑکی کے نال دیکھ کے میاں بیوی ہی سمجھ لیا۔ پنجابی گمان تھا، جذباتی نکلا!"

میں نے روزا کا تعارف کروایا، وہ تھوڑی حیران، تھوڑی مسکراتی ہوئی، جیسے خود کو اچانک کسی بالی وڈ سین میں پایا ہو۔

میں نے اپنا موبائل روزا کو تھمایا اور مندر کی آگ کے پاس کھڑے ہو کر دو پکے پنجابیوں کی یادگاری تصویر بنوائی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے بیک گراؤنڈ میں "دل والے دُھرتے لوک" کی تھیم چل رہی ہو۔

الوداعی وقت آیا، تو ہم دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا، ایک بار پھر، جذباتی جپھی۔

میں نے کہا۔

"یار، دعاؤں میں یاد رکھنا"۔

وہ بولا۔

"جے کدے امبرسر آویں، تے ملنے ضرور آویں!"

منندر سنگھ کا قیام ابھی کچھ دن مزید تھا اور میرا سفر آگے روانہ ہونا تھا۔ لیکن وہ لمحہ، وہ تصویر اور وہ غلط فہمی، سب کچھ ہمیشہ کے لیے باکو کی دھوپ میں سنہری یاد بن کر رہ گیا۔

میں اور روزا گیلری آتش گاہ مندر سے نکلے تو باہر کی فضا میں تھوڑا سا وہی "اختتامیہ سین" والا احساس تھا، بس کوئی وائلن نہیں بچا تھا۔

اندر دکان میں اب صرف وہی رشین آرٹسٹ لڑکی موجود تھی، جس کی مہارت نے ایک عام کینوس کو جذبات کا جادو بنا دیا تھا۔

ہمیں دیکھتے ہی وہ جلدی سے اٹھی، جیسے اسکرپٹ کے مطابق ہمارا دوبارہ آنا لکھا ہو۔ ہاتھ میں وہی پینٹنگ اٹھائی، یہ اب مکمل ہو چکی تھی، جیسے اس پر خود مندر کی روح سانس لے رہی ہو اور نرمی سے ہمارے حوالے کی۔

پھر اگلی حیرت: ایک گول تانبے کی پلیٹ نکالی، جس پر مندر کی شبیہ ایسے کندہ تھی جیسے وقت کو قید کر لیا ہو۔

میں نے خوش ہو کر اتنا شاندار تحفہ قبول کیا اور دل سے شکریہ ادا کیا۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ فوراً اسے کسی شوکیس میں رکھ کر فخر سے گلے لگا لوں، لیکن اگلا سین کچھ اور تھا۔

میں نے وہ دونوں چیزیں فوراً روزا کی طرف بڑھا دیں۔

روزا نے وہ مخصوص یورپی انداز میں کہا۔

"اوہ نو، میں یہ نہیں لے سکتی!"

لیکن میں ایک پاکستانی پنجابی ہوں، جہاں تحفہ دینے کا مطلب ہے: "یا تو لے لو، یا میں زبردستی پرس میں ڈال دوں گا!"

آخرکار زبردستی جیت گئی۔ روزا وہ تحفے لے کر ہچکچاہٹ سے ہنسی اور نرم آواز میں کہا: "اس مندر کی تصویر میں کبھی نہیں بھول سکتی۔۔ میں موت کے منہ سے واپس آئی ہوں"۔

یہ سن کر آرٹسٹ لڑکی نے بھنویں چڑھائیں، جیسے پوچھنا چاہتی ہو: "کون، کیا، کہاں، کب؟"

جب روزا نے اپنا پورا ڈرامائی لیکن سچّا قصہ سنایا، "دوسری زندگی" والی فیلنگ، تو وہ آرٹسٹ ہنسی اور خوب ہنسی۔

ایسی ہنسی جیسے فنکار کو پتہ چلا ہو کہ اس کی آرٹ ورک صرف دیوار پر نہیں، کسی کی زندگی میں بھی ٹنگ گئی ہے۔

Check Also

Isay Bhi Utha Lein

By Javed Chaudhry