Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Aatish Kada Baku (1)

Aatish Kada Baku (1)

آتش کدہ باکو (1)

میں نے پلیٹ فارم پر نگاہ دوڑائی، روزا نظر نہ آئی، دل میں تھوڑی سی امید اور تھوڑا سا خوف ایک ساتھ مچلنے لگے، امتحان کا نتیجہ آ چکا تھا لیکن رول نمبر نہ مل رہا تھا، تھوڑا آگے جا کر دیکھا، پلیٹ فارم کے ایک بنچ پر روزا پھولوں والی ہاف آستین شرٹ پہنے دو آذری لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی اور خوب چہک رہی تھی، گلے میں وہی ڈوریوں والا نیکلس (جو پچھلی بار بھی موسمی اثرات سے بے نیاز نظر آیا تھا) کلائیوں میں رنگ برنگے بریسلٹ کسی چھوٹے میوزیم کی برانچ، پاؤں میں سپورٹس شوز سے اندازہ ہوا کہ کیٹ واک نہیں بلکہ رننگ کیلئے بھی تیار تھی۔

ابھی دخل دینا موقع کی نازک جذباتی کھال پر چھری چلانے جیسا تھا، میری آمد سیاسی بحران نہ بنے لہذا خاموشی سے روزا کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا، باقی دونوں لڑکیوں نے میری موجودگی کو محسوس کرتے سٹائلش انداز میں ایکس رے مشین کی مانند میری طرف دیکھا، روزا کی ہنسی کو بریک لگی، نظروں کی پیروی کرتے جب روزا نے گردن گھما کر میری طرف دیکھا، پہلے آنکھوں میں خفیف حیرت چمکی پھر چہرے پر مسکراہٹ لئے چہکی "بہت جلدی نہیں آگئے؟"

میں نے اپنے تئیں "سنجیدہ لیکن دوستانہ سوری" کا وہ والا ورژن بولا جو دل سے کم، سیفٹی سے زیادہ نکلا تھا۔

روزا نے متعارف کروایا "یہ ہیں لیلیٰ اور جمیلہ"۔

دونوں دراز قد، تروتازہ چہرے اور پرفیوم کا مشترکہ ہالہ، انہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ والدین نے پہلے خوب صورتی دیکھی، پھر نام رکھے، ایک ہی پلیٹ فارم پر تین موسم، تین کہکشائیں، ان کی نظریں گویا چیخ چیخ کر روزا سے کہہ رہی تھیں، "اچھاااا، یہی ہے وہ؟"

دونوں نے مسکرا کر ہلکا سا سر ہلایا، جیسے کسی پراسرار مہمان کو "عارضی اجازت نامہ" دے رہی ہوں، میں نے بھی اپنے تئیں ایک "سنجیدہ لیکن دوستانہ" چہرہ اپنایا، وہی جو شادیوں میں دولہے کے کزنز بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

روزا نے موقع کو زبردست مہارت سے سنبھالتے ہوئے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

"یہیں بیٹھ جاؤ، آج تمہیں فرار کا کوئی بہانہ نہ ملے گا"۔

میں بھی ہنستے ہوئے بیٹھ گیا اور کہا "آپ کی محفل سے فرار؟ یہ تو ایسا ہے جیسے بندہ دعوت میں صرف سلاد کھا کے چلا جائے"۔

روزا میری آمد سے پہلے انہیں میرے بارے بتا چکی تھی، میں بھی ہنستے ہوئے بیٹھ گیا اور کہا، لیلیٰ نے شرارت سے پوچھا، "تو آپ پاکستان سے آئے ہیں؟"

"جی ہاں، ٹورسٹ کہہ لیں، یا قسمت کا دھکا"

جمیلہ بولی "باکو کیسا لگا؟"

میں نے فوراً جواب دیا، "باکو کا موسم باکو دلفریب ہے لیکن دل اب بھی پاکستانی ہے، کبھی ہواؤں میں ہلکورے کھاتا ہے، کبھی بارش اور کبھی چائے و کوفی مانگتا ہے"۔

روزا نے چوٹ کی، "چائے کی نہیں، توجہ کی طلب ہے"۔

میں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا، "کچھ لوگ چائے میں چینی نہیں ڈالتے، کیونکہ اُن کی باتوں میں پہلے ہی مٹھاس ہوتی ہے"۔

یہ سنتے ہی تینوں ہنسنے لگیں، وہ والی ہنسی جو سچ میں خوشی دیتی ہے اور آس پاس کے بور مسافروں کو احساس دلاتی ہے کہ ان کی زندگی کچھ زیادہ ہی سادہ ہے۔

تبھی ایک کبوتری سی آواز لیلیٰ کی طرف سے نکلی "آپ تو کافی باتونی لگتے ہیں"۔

میں نے کہا، "باتونی نہیں، صرف موقع پرست، جب سامنے تین ایسی ذہین خواتین ہوں تو خاموش رہنا ضیاعِ نعمت ہے"۔

روزا نے انتباہی نظروں سے میری طرف دیکھا، وہی انداز جو کہہ رہا ہو، "حد میں رہو، حد میں"۔

میں نے جلدی سے اصلاحی تبسم کے ساتھ کہا "میرا مطلب ہے، ادب سے بھرپور، بے حد مہذب باتونی انسان"۔

اب لیلیٰ، جمیلہ اور روزا تینوں آپس میں دیکھ کر مسکرا رہیں تھیں، جیسے یہ طے کر رہی ہوں کہ "یہ لڑکا پاگل تو ضرور ہے، مگر تھوڑا دل خوش کر دیتا ہے"۔

ابھی قہقہوں کی گونج پوری طرح بیٹھنے نہ پائی تھی کہ اچانک اناؤنسمنٹ ہوئی: "اگلی ٹرین پلیٹ فارم پر آ رہی ہے، پلیز پیچھے ہٹ جائیں"۔

لیلیٰ اور جمیلہ نے فوراً فیشن شو کے بیک اسٹیج سے اشارہ ملتے ہی ماڈلز کمر کس لیں، روزا نے بھی بیگ سنبھالا اور ہم سب "ٹیم ورک" کے ساتھ اگلی ٹرین کی طرف بڑھ گئے، ٹرین آئی تو حسبِ روایت اندر وہی انسانی جمی ہوئی بریانی کی حالت تھی، ہر طرف صرف کندھے، کوہنیاں اور "معاف کیجیے گا" کے جملے، کسی نہ کسی طرح ہم سوار ہوگئے، روزا اور میں آمنے سامنے جبکہ لیلیٰ اور جمیلہ بیک آپ گلوکاراؤں کی طرح پیچھے کھڑی ہوگئیں۔

ٹرین نے جیسے ہی حرکت کی، وہی عام سا "آرام دہ" جھٹکا لگا، "چلو جی سفر شروع"۔ ہر جھٹکے پر روزا اپنے آپ کو سنبھالتی، کبھی پاؤں جماتی اور کبھی مجھے حیرت سے دیکھتی جیسے میں ہی ٹرین چلا رہا ہوں۔

ایک جھٹکے کے بعد جب لمحاتی سکون ملا تو روزا نے ناک سکوڑ کر کہا "پرفیوم اچھا ہے، کوئی بھی لڑکی کھنچی چلی آئے گی"۔

میں جواب دیا "مجھے لڑکیوں کا شوق نہیں ہے"۔

روزا نے شوخی سے رشین فلٹر والی آنکھیں سکیڑتے ہوئے کہا "چلو، دیکھتے ہیں۔۔ "

میں چاہتا تھا کہ بول دوں "تمہاری روسی مسکراہٹ دل موہ لینے والی ہے"۔

لیکن میں نے زبان پر ٹیپ لگا دی، کچھ باتیں خاموش رہ کر کہی جائیں تو زیادہ اثر کرتی ہیں۔

ادھر پیچھے دونوں لڑکیاں آپس میں باتوں میں مصروف تھیں اور ہم دونوں ایسے کھڑے تھے جیسے کوئی پرانا ناول ہو، جس میں "ہیرو اور ہیروئن ایک ہی پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں، لیکن ٹرین نہیں رُک رہی"۔

جب کچھ سواریاں اُتریں اور دو نشستیں خالی ہوئیں تو میں نے فوراً شرافت کا پرچم بلند کیا اور انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا، وہ دونوں "شکریہ" کہتے ہوئے بیٹھ گئیں۔

روزا سے کہا: "آپ بھی بیٹھ جائیں، آرام کر لیں"۔

وہ مسکرا کر بولی "میں کھڑے رہنا پسند کرتی ہوں، ویسے بھی آپ کا ساتھ خاصا دلچسپ ہے"۔

(اس لمحے مجھے لگا کہ میں کوئی دو ٹانگوں والا پرفیوم ایڈ ہوں جو اسٹینڈ موڈ پر چل رہا ہے۔)

میں نے روزا سے پوچھا: "یہ دونوں کون ہیں؟ کافی خوش مزاج لگتی ہیں"۔

روزا نے نرمی سے جواب دیا "میری پرانی سہیلیاں ہیں، جب بھی باکو آتی ہوں، ملتی رہتی ہوں۔ آج پلیٹ فارم پر اچانک ملاقات ہوگئی اور قسمت دیکھو، یہ بھی اُسی طرف جا رہی ہیں"۔

میں نے چونک کر پوچھا "آتش گاہ کی طرف؟"

روزا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا "نہیں، کروغلو بس اڈے سے دوسری بس لیں گی، دنیا صرف تمہارے آس پاس نہیں گھومتی"۔

(میں سوچا کہ چلو اچھا ہوا، ورنہ میں تو سمجھ بیٹھا تھا کہ سب لڑکیاں آتش گاہ کی "زیارت" پر جا رہی ہیں!)

مشہدی میٹرو اسٹیشن پر ہم اترے، نہ رش، نہ دھکم پیل، یہ اسٹیشن کاراکارائیف سے پہلے آتا ہے اور ہاں، شکیب کے دفتر بھی اسی راستے سے گیا تھا۔

روزا نے انڈرگراؤنڈ راستے کی طرف رہنمائی کی، جب سیڑھیاں چڑھ کر باہر نکلے تو لگتا تھا کہ موسم نے خاص ہمارے استقبال کے لیے پریس کانفرنس رکھی ہوئی تھی: ہلکی ہلکی دھوپ، بادل ایسے جیسے روئی کے گالے بچوں کی پتنگ سے بھاگ نکلے ہوں، سورج چھپن چھپائی کھیل رہا تھا، کبھی بادل کے پیچھے چھپتا، کبھی جھانکتا، لیکن گرمی؟ حضور، نام کو نہیں!

بادل بھی لگتا تھا فیشن شو سے آئے ہوں، بلکل سیمی پلاٹنسک کے اسٹائل والے، جیسے کسی ماہر آرٹسٹ نے رنگوں سے شرارت فضا میں بکھیری ہو، دائیں طرف ٹرکش ریسٹورنٹس سے کھانے کی خوشبوئیں ایسے آ رہی تھیں جیسے نانی اماں کی عید کی دیگیں پک رہی ہوں اور روسی گانے، ایسے بج رہے تھے جیسے ڈی جے بابا کی سالگرہ ہو۔

آگے ایک سرسبز قطعہ اراضی، واک ٹریک اور بنچ اور بنچوں پر بیٹھے لوگ ایسے ریلیکس جیسے زندگی میں صرف ایک ہی کام رہ گیا ہو، بیٹھنا! بائیں طرف عمارتوں کی قطار، پیچھے روڈ پر ٹریفک ایسے دوڑ رہا تھا جیسے کوئی میراتھن چل رہی ہو لیکن اس ٹریفک میں مڈل ایسٹ والی تیزرفتاری نہ تھی، قدرے مہذب ٹریفک تھا۔

اچانک دور سے "آئی لو کروغلو" کا لال رنگا مارکہ چمکتا دکھائی دیا، ساتھ ہی گوگل میپ کا نشان جیسے کہہ رہا ہو: "یہی ہے وہ جگہ جسے تم ڈھونڈ رہے تھے"۔ روزا نے فوراً میرا موبائل لیا اور ایسی تصویریں بنائیں جیسے انسٹاگرام پر وائرل ہونا زندگی کا مشن ہو۔

Check Also

Desan Da Raja

By Syed Mehdi Bukhari