Soor
سور

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ سور کا نام بھی لے لیں تو ستر دن تک زبان ناپاک رہتی ہے اور کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ سور لفظ کو گالی دینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ہمیں سور سے اتنی نفرت ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک پاکستانی مسلمان یورپ میں ایک گروسری سٹور میں جا کر سور کے گوشت کے پیکٹوں پر زپ کھول کر پیشاب کرتے ہوئے اللہ اکبر کے نعرے لگاتا نظر آیا۔ کچھ عرصہ پہلے سور کے دل گردے انسانوں میں لگنے کا آغاز ہوا تو تب بھی ہمارے یہاں سوشل میڈیا پر کافی مباحث دیکھنے کو ملتے رہے مگر کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ آخر ہمیں اس جانور سے اتنی نفرت کیوں ہے؟ کیا اس لیے کہ محبت کرنے والے مذہب نے اس بیچارے کو قابلِ محبت نہیں سمجھا؟
میں نے آج تک سور صرف تصویروں میں دیکھے ہیں اور تھوتھنی والا یہ ایک معصوم سا بکری جیسا بے ضرر جانور ہی نظر آتا ہے شاید پاکستان میں سور ہماری نفرت کی نذر ہو گئے ہوں اسی لیے کبھی دکھائی نہیں دیے۔ کیا آپ نے کبھی حقیقی زندگی میں سور دیکھا ہے؟
دادا ابا نے ایک بار یہ واقعہ سنایا تھا آج یونہی یاد آ گیا تو ان کے پنجابی الفاظ کا ترجمہ لکھ رہی ہوں۔۔
سخت سردی کا موسم تھا اور ایک ڈاکٹر صاحب اپنے کلینک کے باہر بیٹھے آگ جلا کر ہاتھ سینک رہے تھے کہ ایک سور کا چھوٹا سا بچہ کہیں سے گھومتا ہوا ادھر آ نکلا اور آگ کی حرارت پا کر رک گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے سور کے بچے کو سردی سے کانپتے ہوئے دیکھا تو رہ نہ سکے اور آگ پر کچھ لکڑیاں اور پھینک دیں اور اسے پکڑ کر کپڑے سے خشک کرنے لگے۔ ایسا کرتے ہوئے کسی نے انہیں دیکھ لیا اور قاضی صاحب کو جا کر شکایت لگا دی۔
قاضی کی عدالت میں پیش ہونے کا حکم آ پہنچا اور جج صاحب نے دریافت کیا کہ کیا یہ الزام درست ہے کہ آپ سور کے بچے کو آگ سینکوا رہے تھے؟ ڈاکٹر صاحب نے قبول کر لیا اور جج صاحب نے انہیں سات سو روپے (اس زمانے میں بڑی رقم تھی) جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی۔
ڈاکٹر صاحب نے صفائی میں کہا کہ جناب اعلٰی سات سو روپے تو میں ادا کر دیتا ہوں لیکن اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ میں نے صرف آگ سینکوائی ہے تو مجھے سات سو روپے جرمانے کی سزا سنا رہے ہیں تو جس خدا نے اس ناپاک سور کو پیدا کیا ہے اس سے کتنے روپے کا جرمانہ وصول کیا ہے؟
کہتے ہیں کہ قاضی صاحب لاجواب ہو گئے اور ڈاکٹر صاحب کو باعزت بری کر دیا۔

