So Lafzon Ki So Kahaniyan
سو لفظوں کی سو کہانیاں
انسان کو جو چیزیں زمین کے دوسرے جانداروں سے جدا کرتی ہیں ان میں سرفہرست تخیل اور قصہ گوئی ہے۔ ہم سب بچپن میں نانی دادا سے کہانیاں سنتے ہیں اور بڑھاپے میں اپنے پوتوں اور نواسوں کو کہانیاں سناتے ہیں، گویا جھولے سے جنازے تک ہمارا سارا جیون کہانی کہتے اور کہانی سنتے گزرتا ہے۔ ادب کی بات کریں تو پہلے داستانیں لکھی جاتی تھیں پھر ناول نے دھوم مچائی۔ افسانہ آیا تو وہ بھی خوب چھایا۔ انٹرنیٹ اور سائنسی ترقی نے زندگی کی رفتار اتنی بڑھا دی ہے کہ ہمارے پاس امیجنیشن اور کہانی سننے سنانے کے لیے وقت نکالنا پہلے سے بہت مشکل ہوگیا ہے۔ انسان کے ساتھ ساتھ کہانی کا ارتقاء بھی جاری ہے اور اب عوام میں افسانچہ، مختصر کہانی اور سو لفظی کہانی جیسی اصناف مقبول ہو رہی ہیں۔
سو لفظی کہانی کو انگریزی میں ڈریبل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مختصر کہانی کی ایک ایسی قسم ہے جس میں کم نہ زیادہ پورے سو الفاظ ہوتے ہیں۔ البتہ یہ ضروری نہیں کہ اس میں عنوان کے الفاظ کو بھی شامل کیا جائے۔ سو لفظی کہانی کا اصل مقصد اختصار ہے اور مصنف کی کہانی کہنے کی صلاحیت کو پرکھنا کہ وہ الفاظ کی قید میں رہتے ہوئے دلچسپ اور بامعنی خیالات کا اظہار کیسے کرتا ہے۔ سو لفظی کہانی کا اختتامی جملہ چونکا دینے والا اور زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
سو الفاظ کی کہانیاں لکھنے کا آغاز برمنگھم یونیورسٹی کی سائنس فکشن سوسائٹی نے 1980ء کی دہائی میں کیا تھا۔ انھوں نے 100 الفاظ کی کہانی کو ایک الفاظ کے کھیل "ڈریبل" کا نام دیا۔ 1988ء میں برطانیہ کی بلائنڈ ایسوسی ایشن کی امداد کے لیے 100 لکھنے والوں سے 100 الفاظ کی 100 کہانیاں لکھوائی گئیں۔ ان کہانیوں کے مجموعے کو "ڈریبل پروجیکٹ" کے نام سے 1988ء میں کتابی شکل میں چھاپا گیا۔ دو سال بعد "ڈبل سنچری" اور 1993ء میں"ڈریبل ہو" کے نام سے دو اور کتابیں بھی شائع ہوئیں۔
اردو میں سو لفظی کہانی لکھنے کا آغاز مبشر علی زیدی نے کیا۔ 2013 سے 2015 تک ان کی سو لفظی کہانیوں کے تین مجموعے نمک پارے، شکر پارے اور سو لفظوں کی کہانی شائع ہوئے۔ ان کی کہانیاں روزنامہ دنیا، ایکسپریس اور روزنامہ جنگ میں بھی چھپتی رہی ہیں۔ مبشر زیدی صاحب لکھتے ہیں کہ دس بارہ سال پہلے جب میں نے سو لفظوں کی کہانی لکھنا شروع کی تو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنی مقبول ہو جائے گی۔
مبشر زیدی صاحب سے تحریک پا کر کچھ اور لوگوں نے بھی سو لفظی کہانیاں لکھیں۔ سو لفظی کہانی ہی سے متاثر ہو کر کچھ لوگوں نے تیس، پچاس اور ڈیڑھ دو سو لفظی کہانیاں بھی لکھیں۔
مبشر زیدی صاحب کی طرح شاہد کاظمی بھی شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ان کا شمار بھی ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جو کئی سالوں سے باقاعدگی سے سو لفظی کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ شاہد کی کہانیاں کئی اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ "سو لفظوں کی سو کہانیاں" ان کی پہلی کتاب ہے جو ان کی منتخب شدہ سو لفظی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ شاہد کی کہانیاں مثبت اور اصلاحی ہیں۔ حالانکہ ان کی بیشتر کہانیوں میں مذہبی بیانیہ غالب ہے لیکن اس کے باوجود ان کی بیشتر کہانیاں انسانیت کی فلاح کا خواب محسوس ہوتی ہیں۔
کتاب نگر سے شائع ہوئی اس کتاب کی قیمت 550 روپے ہے۔ سو کہانیوں میں سے ایک کہانی بطور نمونہ پیش خدمت ہے:
"بھوک"
نمبردار صاحب کا یہ ساتواں حج تھا۔ واپسی پہ پورے گاؤں کی انہوں نے دعوت کی۔
الحاج نمبردار جی کلف لگے کرتے شلوار میں اکڑے بیٹھے تھے۔
مٹھائی بے شمار۔۔ مبارک بادیاں، شادمانیاں۔
"دینو! کوئی نئی تازی سنا، کیا حالات رہے گاؤں کے؟"
"نمبردار جی! باقی سب تو ٹھیک رہا۔۔ بس وہ اپنا کاماں نہیں تھا، بوٹا۔۔ عین حج والے دن مر گیا۔ آخری سانسوں پہ ڈاکٹر نے چیک کیا، پتہ چلا خوراک کی کمی نے موت تک پہنچا دیا"۔
"اوہ اچھا! خوش قسمت تھا، بیوہ کو بھی مبارک دینا کہ۔۔ دینو حج کے بابرکت دن مرا۔ پکا جنتی ہے"۔