Shehad Ki Makhi Aur Zalim Insan
شہد کی مکھی اور ظالم انسان

شہد کی مکھیوں کی پوری کالونی کو 450 گرام شہد بنانے کے لیے تقریباً 20 لاکھ پھولوں پر جانا پڑتا ہے۔ ایک ورکر مکھی اپنی پوری زندگی میں میلوں کا سفر طے کرتی ہے لیکن اوسطاً ایک مکھی اپنی پوری زندگی میں تقریباً 1/12 چائے کا چمچ شہد ہی بنا پاتی ہے۔ یعنی ایک شہد کی مکھیوں کے چھتے سے حاصل ہونے والی شہد کی معمولی سی مقدار دراصل ہزاروں مکھیوں کی اجتماعی کاوش کا نتیجہ ہوتی ہے۔
شہد بنانے کا عمل بھی بہت مشقت طلب ہے مکھیاں پہلے پھولوں سے امرت جمع کرتی ہیں پھر اسے پراسیس کرتی ہیں اس میں انزائمز شامل کرکے پروں سے ہوا دے کر گاڑھا کرتی ہیں تب جا کر شہد بنتا ہے۔
ہم انسان شہد تو بہت شوق سے کھاتے ہیں لیکن ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ چھوٹی چھوٹی یہ مکھیاں اتنی محنت سے آخر شہد بناتی کیوں ہیں؟ کیا اس لیے کہ انسان اسے مزے لے لے کر کھا سکے؟
بالکل نہیں!
شہد کی مکھیاں بنیادی طور پر اپنی کالونی اور بچوں کی خوراک کے لیے شہد بناتی ہیں۔ جب موسم سرد ہوتا ہے، اوس برف یا بارش ہوتی ہے یا پھول کم ہوتے ہیں تو شہد کی مکھیاں زندہ رہنے اور کالونی کو گرم رکھنے کے لیے شہد استعمال کرتی ہیں۔ خصوصاً سردیوں میں شہد مکھیوں کی بقا کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ پھر شہد نوزائیدہ مکھیوں کی پرورش کے لیے بھی ضروری ہے۔ چھتے میں موجود لاروا کو بھی غذا کے طور پر شہد کھلایا جاتا ہے۔ مکھیاں پھولوں کے امرت کو اتنی محنت سے اس لیے شہد میں بدلتی ہیں تاکہ یہ خراب نہ ہو اور برے وقت میں ان کے زندہ رہنے کا ذریعہ بن سکے۔
ہم انسان اندھا دھند شہد کی مکھیوں کے چھتے تباہ کرکے شہد حاصل کرتے ہیں۔ اس دوران کئی مکھیاں انسانی تشدد اور کچلے جانے کی وجہ سے ماری جاتی ہیں۔ میرے نزدیک چھتے سے شہد چرانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے بچے کا دودھ چرا لیا جائے یا کمزور آدمی سے اس کی محنت سے سال بھر کے لیے محفوظ کی گئی گندم چھین لی جائے۔ انسان شہد کے لیے شہد کی مکھیوں کا صدیوں سے استحصال کرتا چلا آ رہا ہے اور خود کو اشرف المخلوقات سمجھتے ہوئے اس ظلم کو اپنا حق بھی سمجھتا ہے۔ اگر مستقبل میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس، طاقتور روبوٹ یا کوئی ہم سے زیادہ ذہین خلائی مخلوق نمودار ہوتی ہے تو کیا اسے بھی ہم پر ایسے ہی ظلم کرنے کا حق ہوگا؟
سچ تو یہ ہے کہ خود کو انسانیت ہمدردی اور اخلاقیات کا علمبردار سمجھنے والے انسانوں سے زیادہ ظالم شاید ہی کوئی اور ہو۔۔

