Chamre Ki Jacket Bhi Utar Do
چمڑے کی جیکٹ بھی اتار دو

گزشتہ برس بڑی عید پر میں نے عید مبارک کی پوسٹ لگائی تو ایک کمیونسٹ دوست نے کمینٹ کیا کہ آپ تو ایتھیسٹ ہیں پھر ایک ایسے تہوار کی مبارک دینا جس پر لاکھوں معصوم جانوروں کو قتل کر دیا جاتا ہے آپ کی منافقت کی نشاندہی کرتا ہے۔
ایک تو ان ایتھیسٹ حضرات کو نجانے کیوں ہر وہ شخص بھی ایتھیسٹ لگتا ہے جو مذہب پر تنقید یا سوال کرے۔ میں اگناسٹک ہوں اور اگناسٹک ایسے شخص کو کہتے ہیں جو سوال کرتا ہے۔ وہ سوال یہ بھی ہو سکتا کہ کیا خدا ہے؟ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا خدا نہیں ہے؟ اگناسٹک مذہبی لوگوں کی طرح نہ تو یہ کہتا ہے کہ خدا ہے اور نہ ملحدین کی طرح یہ کہتا ہے کہ خدا نہیں ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ مجھے تاحال معلوم نہیں کہ کائنات اور زندگی کیسے وجود میں آئی اور اسے بنانے والا کوئی ہے یا نہیں؟
میں اپنی گوشت خوری کی بات کروں تو مجھے گوشت پسند نہیں جیسے بہت سے لوگوں کو چنے دال یا ٹینڈے پسند نہیں ہوتے۔ گوشت کھاؤں بھی تو بغیر شوربے والا بہت تھوڑا سا ہی کھا پاتی ہوں۔ انڈے بے حد پسند ہیں۔
گوشت نہ کھانے کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے۔ بچپن میں چچا کو گائے کے کٹے سر کا گوشت بناتے ہوئے دیکھا اور الٹیاں آنے لگیں۔ کچھ عرصہ بیمار رہ کر ٹھیک ہوگئی لیکن وہ منظر یادداشت میں ایسا بیٹھا کہ دس برس سے زائد گزرنے کے بعد بھی شوربہ خون لگتا اور گھر والوں کے اصرار پر ایک آدھ بوٹی کھانے پر الٹیاں آنے لگتیں۔ اماں کچا گوشت دھلواتیں تو ہاتھوں سے بار بار دھونے کے باوجود پورا ہفتہ بدبو آتی رہتی۔ کھانا کھانا مشکل ہو جاتا کہ نوالہ منہ کے قریب جاتا تو ہاتھوں سے گوشت کی بدبو آتی اور الٹیاں آنے لگتیں۔ میرے ان نفسیاتی مسائل کو سمجھنے اور ان سے نکلنے میں کسی نے میری مدد نہیں کی بلکہ الٹا ہمیشہ گوشت نہ کھا پانے پر مذاق اڑایا جاتا رہا۔ مجھے یہ تلخ یاد بھلانے کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا رہا لیکن آخرکار میں نے فتح پا لی اور اب میں ہلکا پھلکا گوشت بغیر الٹیاں کیے کھا لیتی ہوں۔
بچپن کے واقعات ہماری شخصیت اور نفسیات پر بہت گہرا اثر چھوڑتے ہیں اس لیے بچوں کو جانور ذبح ہونے اور گوشت وغیرہ کاٹنے کے مناظر سے دور رکھنا چاہیے اور جانور کا خون آنتیں اور دیگر آلائشیں پھینک کر ماحول میں بدبو اور گندگی کا اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔ مسلمان دوست ویسے تو صفائی نصف ایمان کا دعوی کرتے ہیں لیکن ان کے عمل سے یوں لگتا ہے باقی نصف ایمان شاید گندگی پھیلانا ہے۔ یہ لوگ قربانی سے پہلے اپنے بکرے اور دنبے کو خوب شمپو مل مل کر نہلاتے ہیں جیسے خدا صرف جانور قربان ہونے سے پہلے تک ہی دیکھ رہا ہوتا ہے اور قربانی کے بعد جگہ جگہ پھیلائی غلاظت کی طرف سے منہ پھیر لیتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایتھیسٹ دوست غیر مسلموں کے تہواروں میں تو بڑے جوش اور خلوص سے شامل ہوتے ہیں کہ تہوار اور خوشیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اور اقلیتوں کے تہواروں میں شرکت سے بین المذاہب ہم آہنگی اور امن و آشتی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے لیکن شراب اور کباب کے یہ شائقین عید قربان پر مسلمانوں کے اس تہوار میں مل کر باربی کیو پارٹی کرنے کی بجائے اپنے اس موقف سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
ہم اگناسٹک لوگوں کو ہر طرف سے تنقید کا سامنا رہتا ہے کیونکہ ہم ہر چیز میں سوال کرنے لگتے ہیں۔ جیالے ہمیں یوتھیے اور یوتھیے پٹواری سمجھتے ہیں اور پٹواری سرخے سمجھ کر اپنا دشمن گردانتے ہیں۔ سرخوں کے نزدیک ہم لبرل ہیں کیونکہ ہم کارل مارکس کو فلسفی تو مانتے ہیں خدا نہیں مانتے۔ بات یہیں نہیں رکتی۔۔ رشتے دار ہمیں وابی اور اردگرد کے لوگ پڑھے لکھے جاہل سمجھتے ہیں۔ سنی شیعہ سمجھ کر گالیاں بکتے ہیں اور شعیہ سنی سمجھ کر۔ مسلمان ہمیں ایتھیسٹ سمجھ کر لعن طعن کرتے اور جہنم کے عذاب سے ڈراتے ہیں اور ایتھیسٹ و لبرل منافقت کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے ہیں۔
اگر تو منافقت کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اس بات پر ہنسی آتی ہے کہ سارا سال گوشت کے تکے اور کباب کھانے والے ملحدین عید قربان پر جانوروں کی قربانی پر طنز کرتے ہیں تو جی ہاں! میں منافق ہی ہوں۔ دیسی ملحدین کے نزدیک فش فرائی شاید شہاب ثاقب کی طرح ڈائریکٹ خلا سے آتی ہے اور چکن تکہ شاید پیڑ پر لگتا ہے۔ عید کے دنوں میں ان کا فلسفہ یہ ہوتا ہے کہ "جانوروں پر ظلم ہو رہا ہے! " لیکن جب انہیں باربی کیو کی دعوت دی جائے تو قطار میں سب سے آگے پلیٹ لے کر بھی یہی کھڑے ہوتے ہیں۔
میں اپنے اردگرد بہت سے ایسے غریب لوگوں سے واقف ہوں جنہیں اچھا گوشت سال میں ایک دو بار عید قربان یا خدا کی راہ میں جانور خیرات کرنے والوں سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ اگر چار لوگوں کو چار دن اچھی خوراک مفت مل رہی ہے تو کسی گوشت خور کا اس پر اعتراض مجھے تو غیر انسانی سا لگتا ہے۔
میرے دوست! اگر تمہیں جانوروں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو اپنی چمڑے کی جیکٹ بھی اتار دو!

