Waldain Aur Ustad
والدین اور استاد

حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کی ذاتِ گرامی کے ایسے ایسے پہلو ہیں کہ جن کو پڑھ کر دنیا دنگ رہ جاتی ہے، اہل مغرب تو حضور پاک ﷺ کے زندگی گزارنے کے ہر پہلو پر ریسرچ کر کرکے تھک گئے ہیں ھمیشہ ان کو ایک نیا سائنسی مگر مثبت پہلو نظر آتا ہے جس سے وہ لوگ انگشت بداں ہیں کہ یہ کون سی شخصیت تھی جن کے ایسے حیران کن پہلو ہیں ان کی ذات کے کہ، جن جن پہلوئوں پر بھی کڑی سے کڑی نظر ڈالیں تو پرفیکشن کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا چاہے ان کی ذاتی زندگی ہو، انداز سیاست ہو، جنگی حکمت عملی ہو، رہن سہن، کھانا پینا ہو، معاشرتی پہلو ہوں ماشاءاللہ وہ ھر جگہ سب سے بلند اور پرفیکٹ ہیں۔ اسی لئے تو کائنات کی سب سے سچی کتاب قرآن پاک میں اللہ پاک نے فرمایا ہے لَقَدُ كَانَ لَكُمُ فِي رَسُولِ اللہِ أُسُوَةٌ حَسَنَةٌ (سورۃ الأحزاب، آیت 21)۔
تو آئیے چلتے ہیں، میرے ماں باپ ان پر قربان ان کی زندگی کے دلچسپ اور انوکھے پہلو پر۔
"دنیا میں دو ایسی عظیم اور بلند مرتبہ ہستیاں ہیں جن کے احسانات کا حق کوئی انسان تمام عمر بھی ادا نہیں کر سکتا: والدین، جن کی شفقت سایۂ رحمت ہے اور استاد، جن کی رہنمائی انسان کی زندگی کو روشن راہوں کی طرف لے جاتی ہے"۔
اور اب جو میں نایاب الفاظ کہنے جا رہا ہوں جو خالصتاً میرے تخلیق شدہ ہیں وہ آپ نے اب تک نہ کسی کتاب میں پڑھے ہوگیں اور نہ ہی کسی ذی روح سے سنے ہونگیں کیونکہ اللہ جل جلالہ کو مکہ کے یتیم بچے اور رہتی دنیا تک سب سے زیادہ عاجزی کے پیکر، جن کے لئے حضرت حق نے کہا کہ اے محبوب اگر تمہیں اس دنیا میں پیدا نہ کرتا تو میں اس کائنات کو کبھی نہ بناتا۔
وہ الفاظ جو اللہ پاک نے میرے دل میں ڈالے وہ یہ ہیں کہ "اللہ پاک نے یہ دونوں رشتے اپنے پیارے نبی ﷺ کو نہیں دیئے، آپ دونوں سے مبرا تھے" آپ کہیں گے کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے تو وہ ایسے کہ رحمت اللعالمین کے والد محترم کا انتقال تو آپ ﷺ کی اس دنیا میں آمد سے قبل ہوگیا تھا اور جہاں تک بات ہے بی بی آمنہ والدہ ماجدہ کی تو آپ کی عمر 6 سال بعض کتب میں 9 سال آئی ہے تو اس وقت آپ تو صغیر سنی کی عمر میں تھے، یعنی کہ آپ ابھی کمسن ہی تھے کہ آپ کی والدہ محترمہ اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئی تھی، تو آپ پر نہ والد کی ذمہ داری تھی کہ آپ کی پیدائش سے قبل ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا اور نہ والدہ کی ذمہ داری تھی بلکہ اس عمر میں تو آپ ﷺ خود والدہ کی ذمہ داری یا زیر نگرانی تھے، یعنی آپ غیر مکلف تھے۔
تو جو الفاظ اسلامی کتب میں آتے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی انسان ماں باپ کا حق ادا نہیں کرسکتا تو "یہ عبارت حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس پر صادق نہیں آتی، کیونکہ آپ ﷺ کے والدین کا انتقال آپ ﷺ کے اوائلِ طفولیت ہی میں ہوگیا تھا"۔
یعنی کہ "رب ذوالجلال کو یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ کل کلاں کو کفار یہ آقائے دو جہاں کو طعنہ دیں کہ آپ کے دین میں تو اتنا مقام ہے والدین کا تو اس طرح تو آپ بھی اپنے والدین کا حق ادا نہیں کرسکے، تو یہ جملے سننا بھی اللہ نے اپنے محبوب کے لئے پسند نہیں فرمائے اور وہ یہ نوبت ہی نہیں لائے"۔
اب آتے ہیں دوسری ہستی یعنی استاد پر۔ آپ اس کائنات کی کوئی سی بھی کتاب اٹھالو، چاہے وہ احادیث کی ہو، تفسیر ہو، فقہہ کی ہو، کسی بھی مسلک کی ہو یا کسی بھی مذھب کی، چاہے وہ عیسائیت ہو، یھودیت ہو، ھندو مت ہو، یہ آپ کو کہیں لکھا ہوا نہیں ملے گا کہ مسلمانوں کے آخری نبی ﷺ نے کسی اسکول، مدرسہ، کالج، یونیورسٹی، دارالعلوم سے تعلیم حاصل کی ہو اور فلاں فلاں حضرات ان کے استاد رہے۔ یہ آپ کو دنیا کی کسی بھی کتاب میں نہیں ملے گا آپ کتنی بھی ریسرچ کریں لیکن آپ ناکام ونامراد ہی لوٹیں گیں۔
یہاں تک کہ احادیث کتب میں آیا ہے کہ جب اللہ پاک نے آپ پر پہلی وحی نازل فرمائی تھی تو جب جبرائیل امین نے پہلی دفعہ اقرا کہا یعنی پڑھہ تو آپ ﷺ خاموش رہے، پھر دوسری مرتبہ اقرا کہا آپ ﷺ خاموش رہے اور جب تیسری مرتبہ اقرا باسمک رب للذی خلق، تو پھر آپ ﷺ نے پڑھا، تو اس پر محدثین کرام اور فقہاء کرام اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ پہلی مرتبہ اقرا پڑھ لیتے تو جبریل امین تھوڑے بہت استاذ کے ذمرے میں آسکتے تھے لیکن آپ نے پہلی دفعہ اور دوسری مرتبہ بھی نہیں پڑھا اور جب تیسری مرتبہ پڑھ اپنے رب خالق کے نام سے تو حضور پاک ﷺ نے پڑھا، تو اس حکمت سے آپ کا کوئی استاذ اس کائنات میں نہیں ہے۔
سوائے اللہ سبحانہ کی ذات کے یعنی کہ "رب ذوالجلال کو یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ کل کو کفار یہ آقائے دو جہاں کو طعنہ دیں کہ آپ کے دین میں تو استاد کا اتنا مقام ہے تو اس طرح تو آپ بھی اپنے استاد کرام کا حق ادا نہیں کرسکے، تو یہ جملے سننا بھی اللہ نے اپنے محبوب کے لئے پسند نہیں فرمائے"۔
واہ قربان جائیں ان کے قدموں کی خاک پر، جہاں جہاں ان کے قدم مبارک پڑے تھے۔

