Thursday, 25 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amir Mohammad Kalwar
  4. Sindhi Culture Day Kyun Manaya Jata Hai?

Sindhi Culture Day Kyun Manaya Jata Hai?

سندھی کلچر ڈے کیوں منایا جاتا ہے؟

2009 سے پہلے یہ دن وادی مھران کے باسی نہیں مناتے تھے تو آئیے میں آج آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ دن کیوں منایا جاتا ہے۔ 2008 میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے ایران کا دودہ کیا تھا جس میں انھوں نے سر پر سندھی ٹوپی پہنی ہوئی تھی، تو اس پر ایک مشھور اینکر جو فرضی کہانیاں گھڑنے کے بڑے ماھر ہیں، انھوں نے صدر زرداری کے ٹوپی پہننے پر اعتراض کیا تھا وہ اس اینکر کا حب علی تھا یا بغض معاویہ، میرا یہ آج کا عنوان نہیں ہے۔

اس وقت کے مشھور سندھی چینل کے مالک جو اینکر ہونےکے ساتھ ساتھ، سندھی زبان میں نکلنے والا ایک بہت بڑا مشھور اخبار بھی ان سے وابستہ تھا، انہیں یہ بات بہت بری لگی اور انھوں نے 2009 سے یہ سندھی کلچر ڈے منانے کا سلسلہ شروع کیا، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نہ صرف انہیں ہی نہیں بلکہ جو بھی سندھی ثقافت سے پیار کرنے والے لوگ تھے چاہے وہ سندھ میں ہو یا ھند میں، امریکہ ہو یا یورپ کسے چھوٹے سے گائوں میں، انھیں بھی یہ بات بری لگی کہ ایک ھزاروں سالوں سے چلی ہوئی ایک چیز جو سر پر پہنی جاتی ہی، جس کو سارا دن پہن کر "حدیث نبوی ﷺ کی بھی پیروی ہوتی ہے کہ ھمیشہ سر ڈھانپ کر رکھو" یہاں پر ایک اور وضاحت دیتا ہوا چلوں کہ سندھی ٹوپی کی اوپر کی مخصوص curve یا خم صرف زیبائش کے لیے نہیں بلکہ یہ مسجد کے محراب سے متاثر ہے۔ محراب وہ حصہ ہے جو نماز میں کعبہ کی سمت دکھاتا ہے۔ ٹوپی میں یہ خم احترام، تواضع اور اللہ کی طرف رجوع کی علامت بھی ہے۔

وہ اینکر جو فرضی کہانیاں گھڑنے کے ماھر ہیں اور خاص کر، ان کے الزامات خصوصاً Zainab murder case سے متعلق دعوّوں کو عدالت نے "بے بنیاد" قرار دیا۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں ان کے دعوّے کی تصدیق نہ ہو سکی۔ اس کے علاؤہ صاحب موصوف پر پر یہ بھی الزام ہے کہ بطور ایم ڈی پی ٹی وی انہوں نے Pakistan Cricket Board (PCB) کے میڈیا رائٹس حاصل کرنے کے لیے ایک جعلی کمپنی (fake company) کے ساتھ معاہدہ کیا۔ نتیجتاً پی ٹی وی کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا اور مبینہ طور پر پی ٹی وی سے تقریباً 37-38 ملین روپے (یا بعض اوقات دعویٰ 3 کروڑ 80 لاکھ روپے) کی بدعنوانی کی گئی۔ اس کو ھم یہیں پر ختم کرکے آگے بڑھتے ہیں ورنہ پورا پینڈورا بکس کھل جائے گا۔

دنیا کی بڑی تہذیبیں اپنے ورثے، اپنی شناخت اور اپنی ثقافتی علامتوں کے اعتبار سے پہچانی جاتی ہیں۔ کوئی لباس ہو یا زبان، کوئی روایت ہو یا لوک موسیقی قوموں کے یہ ورثے ان کی اجتماعی پہچان کو نئی زندگی دیتے ہیں۔ سندھ کی دھرتی بھی ایسے ہی رنگوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں کی مٹی، یہاں کے صوفیاء، یہاں کی محبتیں اور سب سے بڑھ کر اس خطے کی دو روشن علامتیں سندھی ٹوپی اور اجرک ہمیشہ سے اس خطے کو دنیا بھر میں ایک الگ مقام دیتی آئی ہیں۔

سندھی ٹوپی کی تاریخ تقریباً پانچ ہزار سال پرانی تہذیبوں تک جاتی ہے۔ موئن جو دڑو کی مٹی سے ملنے والے مورتوں میں بھی سر ڈھانپنے کی ایسی ہی شکلیں ملتی ہیں۔ سندھی ٹوپی صرف لباس نہیں بلکہ "احترام" کا مترادف ہے۔ آج بھی سندھ کے دیہات اور شہروں میں جب کسی بڑے یا مہمان کو خوش آمدید کہا جاتا ہے تو ٹوپی پہنانا عزت و تکریم کا اظہار ہے۔

اجرک کی تاریخ تو اور بھی قدیم ہے۔ عالمی ماہرین کے مطابق سندھی اجرک کے ڈیزائن، رنگ اور پرنٹنگ کے انداز قدیم مصر، بین النہرین اور وادیٔ سندھ میں مشترک ملتے ہیں۔ لیکن جس خوبصورتی اور فن سے اجرک سندھ میں ابھری، اس کی مثال نہیں ملتی۔

اجرک کے نمایاں رنگ گہرا نیلا، سرخ، کالا اور سفید۔ درحقیقت سندھ کے چار بڑے استعاروں کی علامت ہیں نیلا: دریائے سندھ کی روانی، سرخ: جذبہ، محبت اور صوفیائی حرارت، کالا: وقار اور گہرائی اور سفید: امن، پاکیزگی اور سچائی۔

اجرک ایک ایسا لباس ہے جسے مرد بھی اوڑھتے ہیں اور خواتین بھی۔ گرمی میں سایہ، سردی میں گرمائش اور روزمرہ زندگی میں وقار اجرک ہر موقع پر اپنا وجود منواتی ہے۔

اب تو یہ دن اتنا مشھور ہوگیا ہے کہ پاکستان میں چاہے وہ امریکن ہو، جرمن ہو، رشین ہو یا چائنیز سفیر ہو سارے سفارتکار بھی یہ دن بڑی خوشی سے مناتے ہیں اور باقاعدگی سے ٹوپی، اجرک پہننے کا اھتمام کرتے ہیں اور رات میں "اوطاق" کی مشھور ڈشز بھنڈی، ساگ اور چاول کی روٹی اور بصری شوق سے کھاتے ہیں۔ اس کے علاؤہ صوبہ سندھ میں رہنے والے اور ھر زبان بولنے والے، چاہے وہ اردو ہو، پشتو ہو یا بلوچی یا پنجابی ہو سب مل کر پیار و محبت سے مناتے ہیں۔

Check Also

25 December 1876 Aik Eham Din

By Khursheed Begum