Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amir Mohammad Kalwar
  4. Otaq

Otaq

اوطاق

کراچی سے باہر جب آپ حیدرآباد یا پنجاب کی طرف جانے کے لئے نکلتے ہیں تو بائیں ہاتھ پر آپ کو ریسٹورینٹس کی ایک قطار نظر آتی ہے اور جب آپ M9 موٹر وے کے گیٹ پر یعنی ٹول پلازہ پر پہنچے گیں تو سب سے آخری ریسٹورنٹ جو آپ کو نظر آئے گا وہ اوطاق ریسٹورنٹ ہے۔ جو کہ میرے ایک بہت ہی پیارے دوست کا ہے جن کا تعلق ضلع نواب شاہ کی تحصیل دولتپور سے ہے یہ اوطاق ریسٹورنٹ کی دوسری برانچ ہے پہلی شاخ کامران چورنگی گلستان جوھر میں واقع ہے۔ یہاں میں نے اپنے دوست کا ذکر اس لئے کیا کہ یہ موصوف مجھے اس لئے بھی پسند ہے کہ فرائض نمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ قیامُ اللیل کا اہتمام کرنے والا بھی ہے۔

اوطاق کا نام ذھن میں آتے ہے سندھی کلچر اور مہمان نوازی ذھن میں آتی ہے۔ دیہی زندگی کی کچھ روایات ایسی ہوتی ہیں جو وقت کی دھول جَھڑتے ہوئے بھی اپنی اصل شکل برقرار رکھتی ہیں۔ سندھ کی "اوطاق" انہی روایتوں میں سے ایک ہے۔ بظاہر یہ ایک کچا یا پکا کمرہ، ایک سادہ سا دالان یا بیٹھک دکھائی دیتا ہے، مگر حقیقت میں اوطاق پورے گاؤں کی سماجی روح کا ترجمان ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں وقت رُکتا نہیں بلکہ تہذیب بن کر بہتا ہے۔

اوطاق کی اصل صدیوں پرانی قبیلائی مجلسوں میں ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ وہ زمانہ جب کسی گاؤں، قبیلے یا بستی کے مسائل بڑے گھروں یا مشترکہ بیٹھکوں میں طے ہوتے تھے۔ انہی ملاقات گاہوں کی شکل بدلتے بدلتے جدید اوطاق وجود میں آیا۔ اسلامی دور میں اس روایت نے مہمان نوازی اور مشاورت کی وہ خوبیاں جذب کیں جو آج بھی اوطاق کا خاصہ سمجھی جاتی ہیں۔

سندھ کے ٹالپور اور کلہوڑا ادوار میں اوطاق ایک طرح سے سماجی پارلیمان تھا۔ وڈیرے کی اوطاق گاؤں کا مرکز قرار پاتی جہاں رزمیہ کہانیاں سنائی جاتیں، لوک موسیقی کی محفلیں جمتیں اور نوجوان بزرگوں کی باتیں سن سن کر آدابِ زندگی سیکھتے۔ اوطاق صرف بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی بلکہ ایک تربیتی ادارہ تھا جس میں قول و قرار، برداشت، گفتگو اور احترام کے اسباق بغیر کسی کتاب کے پڑھائے جاتے۔

اوطاق محض ثقافتی علامت نہیں، یہ ایک سماجی تربیت گاہ ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ سماج صرف گھروں میں نہیں بنتا گلیوں، بیٹھکوں اور اوطاقوں میں بھی پروان چڑھتا ہے۔ شاید اسی لیے اوطاق آج بھی دیہی معاشرت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔

لفظ اوطاق دراصل ترکی زبان سے آیا ہے۔

ترکی، ازبک، ترکمان اور قدیم تُرکی قبائل میں "اوطاق / اوطاق/ اُطاق" کا مطلب تھا:

بادشاہ یا سردار کا خیمہ

مہمان داری کا بڑا خیمہ

سرکاری یا قبیلائی ملاقات گاہ

راج دربار یا درباری کمرہ

ترک زبان میں Otağ / Otağh / Odagh کا مطلب ہوتا تھا۔

عثمانی دور میں سلطان کے شاہی خیمے کو بھی اوطاقِ ہمايون کہا جاتا تھا۔

برصغیر میں یہ لفظ مغل دور میں آیا، کیونکہ مغل ترک نژاد تھے اور ان کی درباری زبانوں میں یہ لفظ پہلے سے موجود تھا۔ اس کے بعد یہ اصطلاح سندھ کے دیہی سماج میں عام ہوگئی۔ یہاں اس کا مطلب سردار کی بیٹھک، مہمانوں کی جگہ، یا مشاورت کا کمرہ، کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔

سندھی میں یہ لفظ مکمل طور سے راسخ ہو کر اوطاق کی موجودہ شکل بن گیا، جس کا مطلب ہے۔۔ گاؤں کا مجلسی کمرہ، مردانہ بیٹھک، مہمان خانہ یا سماجی مرکز۔

اسلام کے آغاز میں ہی مسجد نبوی ﷺ مسلمانوں کا مرکز تھی۔ مشاورت، فیصلے، تعلیم، مہمان داری اور اجتماعی گفتگو یہ تمام کام مسجد میں ہوتے تھے۔

اسی بنیادی تصور نے بعد میں قبیلائی نظام میں مجلس یا بیٹھک کی شکل اختیار کی اور یہی اوطاق کا روحانی و سماجی ماخذ ہے۔

اسلام میں مہمان نوازی کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔

رسول ﷺ نے فرمایا: "جو اللہ اور اخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے"۔ (بخاری)

اوطاق بنیادی طور پر مہمان خانہ ہوتا ہے، جہاں آنے والے مہمانوں کے لیے، چائے، کھانا۔

آرام اور استقبال کو خاص مقام حاصل ہوتا ہے۔ یہی سنتِ نبوی ﷺ کا تسلسل ہے۔ جدید سندھ میں اوطاق کی شکل تبدیل ضرور ہوئی ہے، مگر کردار برقرار ہے۔ آجکل سیاسی سرگرمیوں کا مرکز، الیکشن کمپین، ترقیاتی منصوبوں کی مشاورت، نوجوانوں کا سوشل پلیٹ فارم، تقریبات کی جگہ دیہاتی رہنمائی آج بھی اوطاق میں ہوتی ہے۔

سندھ چونکہ باب الاسلام ہے اور یہاں مقامی لوگوں کے اندر اسلام نسل در نسل چلا آرہا ہے، 1947 میں جب مھاجرین کے قافلے جوق در جوق پاکستان آرہے تھے تو ان کا سب سے زیادہ دل وجان سے استقبال کرنے والے یہ سندھ صوبہ کے ہی لوگ تھے اور اسی لئے سندھیوں کی صرف پاکستان میں ہی نہیں پاکستان کی سرحدوں کے دوسری جانب بھی مہمان نوازی کے چرچے ہیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam