Sunday, 07 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amir Mohammad Kalwar
  4. Hazrat Umar Farooq Aur Social Security

Hazrat Umar Farooq Aur Social Security

حضرت عمر فاروق اور سوشل سیکورٹی

دنیا کے ایک دور افتادہ علاقے میں ایک قانون بنا ہوا تھا کہ جب بچے ڈھائی سال کی عمر کو پہنچ جائیں یا دودھ پینا چھوڑتے تھے تو سرکار ان بچوں کے لئے وظیفہ مقرر کرتی تھی۔ لیکن ایک رات ایک واقع پیش آیا، جس نے قانون کا رخ موڑ دیا۔ اتفاق سے حسب معمول ملک کے حکمران معمول کے دورے پر تھے تو اسے ایک بچے کے رونے کی آواز آئی تو جب وجہ معلوم کی تو پتا چلا بچے کو دودھ چھوڑنے پر اس کی ماں مجبور کر رہی تھی، کیونکہ حکومت کی طرف سے وظیفہ صرف ان بچوں کے لیے ہے جو دودھ چھوڑ چکے ہوں۔

وہ دانا اور رحمدل حکمران لرز کر رہ گئے اور پھر فوری طور پر ملک بھر میں یہ قانون نافذ العمل ہوگیا کہ "آج سے ہر نومولود بچے (New born baby) کا وظیفہ اس کی ماں کے نام سے مقرر ہوگا"۔

یہ دنیائے تاریخ کا پہلا "Child benefit" تھا اور اس کے ساتھہ ہی "ماں" کے نام سے منسوب کرکے عورت کو فنانشلی طور پر ایمپاورمنٹ کیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ وہی معاشرہ ہے جو قبل از اسلام بچیوں کو ژندہ درگور کرتے تھے لیکن جن کو افضل البشر نے، "فاروق" کے لفظ سے نوازا، یہاں پر حضرت عمر فاروق کے وژن کو داد دینے کی ضرورت ہے کہ، جس وقت امریکہ نام کے ملک کا اس دنیا میں وجود ہی نہیں تھا، اس وقت "UMAR THE GREAT"۔

جی ہاں، مائیکل ھارٹ نے اوپر دی گئی مذکورہ کتاب میں حضرت عمر کو عمر دی گریٹ ہی لکھا ہے، نے عورت کو معاشی طور پر مضبوط کیا۔

یہ بات حقیقت ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت (644 عیسوی) اور دنیا میں عورت کو ووٹ ملنے (امریکہ 1920) کے درمیان تقریباً 1276 سال کا فاصلہ ہے۔ امریکہ جولائی 1776 میں وجود میں آیا اور اس نے 144 سال کے بعد 1920 میں عورت کو ووٹ کا حق دیا اور اس سے 1276 سال پہلے ابن الخطاب نے عورت کو معاشی خودمختاری دے دی تھی۔

یہ فرق صرف وقت کا نہیں بلکہ تمدنی، سماجی اور تہذیبی ترقی کے معیار کا فرق بھی ظاہر کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر رحمت اللعالمین کی تربیت کا عکس اس میں جھلک رہا ہے۔

جب دنیا کے بڑے بڑے خطے ابھی عورت کو انسان بھی مکمل نہیں مانتے تھے۔ جب یورپ تاریکی کے دور (Dark Ages) میں ڈوبا ہوا تھا۔ جب روس اور چین اپنی قدیم بادشاہتوں میں عورت کو کسی بنیادی حق کی حیثیت نہیں دیتے تھے، اُسی زمانے میں حضرت عمر فاروقؓ نے عورت کو وراثت کا مکمل حق دیا، مہر کو عورت کا اختیار بنایا عورت کی شادی اور طلاق کے حقوق کو قانونی شکل دی۔

تاریخ میں بعض رہنما ایسے ہوتے ہیں جن کی بصیرت، عدل اور عوامی خدمت کے اصول صدیوں بعد بھی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ حضرت عمر بن خطابؓ ایسے ہی رہنما تھے جن کی قیادت اور سماجی اصلاحات آج بھی دنیا کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کے اصول عدل، انصاف، عوامی خدمت اور سماجی تحفظ کے ستون تھے۔

دنیا آج سوشل سیکیورٹی، ویلفیئر اسٹیٹ، ہیلتھ انشورنس، بے روزگاری الاؤنس اور معذوری بینیفٹس جیسے تصورات پر فخر کرتی ہے۔ یورپ ان کے مؤسس اوٹو فان بسمارک کو جدید سوشل سیکیورٹی کا بانی قرار دیتا ہے اور امریکہ خود کو "ویلفیئر ماڈرنزم" کا علمبردار سمجھتا ہے۔ مگر حقیقت کی سب سے روشن کرن یہ ہے کہ جس چیز کو آج جدید دنیا نے نئی ایجاد سمجھ کر اپنا تاج بنا رکھا ہے، وہی تصور چودہ سو سال پہلے فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطابؓ کے ہاتھوں اپنی اصل شفاف صورت میں موجود تھا۔ جرمن کے بسمارک نے شاید دنیاوی سسٹم تشکیل دیا، مگر وہ بیج جس سے ویلفیئر اسٹیٹ کا درخت پھوٹا، وہ مدینہ میں بویا گیا تھا اور اس کے باغبان حضرت عمرؓ تھے۔

حضرت عمرؓ کا دور خلافت، اسلامی تاریخ کے اُن ابواب میں سے ہے جنہیں پڑھ کر قاری حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ انسانی حقوق، گڈ گورننس، اکانومی مینجمنٹ اور سوشل جسٹس جیسے الفاظ اس وقت نہیں تھے، مگر ان کی روح مکمل طور پر موجود تھی۔ آج جب ہم جدید طرز پر مبنی سوشل سیکیورٹی کے ماڈلز پر بحث کرتے ہیں، تو ہمارے سامنے سب سے نمایاں مثال "ریاستِ مدینہ" کی وہ عملی تصویر آتی ہے جو حضرت عمرؓ نے کھینچی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مؤرخین حضرت عمرؓ کو دنیا کی پہلی ویلفیئر ریاست کے معمار کے طور پر دیکھتے ہیں۔

حضرت عمرؓ نے خلافت کے دوران ایک ایسا نظام قائم کیا جو ہر شہری، خاص طور پر یتیموں، بیواؤں، غریبوں اور مزدوروں کے لیے مالی، سماجی اور طبی تحفظ فراہم کرتا تھا۔ اس نظام کے اہم پہلو درج ذیل تھے:

یتیموں اور بیواؤں کے لیے مالی امداد

بیماری یا حادثے کے وقت علاج اور معاوضہ

ریاستی خزانے (Bait-ul-Mal) کے ذریعے عوام کی خدمت

قانون اور عدل کے اصولوں پر مبنی مساوی حقوق اور جس فلسفے کو نافذ کیا، وہ یہ تھا کہ ریاست کی ذمہ داری صرف قانون تشکیل دینا نہیں، بلکہ شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنا ہے۔ آج جسے ہم "سوشل سیکیورٹی نیٹ" کہتے ہیں، عمرؓ کے دور میں اسے حقِ شہری سمجھا جاتا تھا۔

یہ ایک حکومتی فلسفے کا اعلان تھا ریاست شہری کی حاجت پوری کرنے میں جواب دہ ہے۔

"پاکستان میں سوشل سیکیورٹی کا باقاعدہ آغاز 1965 کے سوشل سیکیورٹی آرڈیننس سے ہوا، جب صنعتی و تجارتی ورکرز کے لیے طبی و مالی تحفظ کا نظام قائم کیا گیا۔ سندھ ایمپلائیز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن (SESSI) 1965 میں قائم ہوا، مگر اس کا عملی آغاز اور ادارہ جاتی استحکام 1 مارچ 1970 سے نمایاں ہوتا ہے۔

"کیا ہی دلچسپ اتفاق ہے کہ مجھ ناچیز کی تاریخ پیدائش بھی یکم مارچ 1970 ہے اور سیسی کی پیدائش بھی ایک ہی دن۔ قدرت نے جیسے ہماری خوشیوں کو ایک ساتھ باندھ دیا ہو اور ہر سال یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کچھ لمحات محض اتفاق نہیں، بلکہ زندگی کی خوبصورت ہم آہنگی ہیں"۔

اور یہ تاریخ ایک عجیب طرح کی ہم آہنگی محسوس ہوتی ہے کہ جس دن یہ ادارہ اپنے اصل سفر پر گامزن ہوا، اسی دن میری زندگی کا سفر بھی شروع ہوا۔ آج جب میں خود اسی ادارے میں کام کر رہا ہوں، تو روز محسوس ہوتا ہے کہ یہ ادارہ صرف ایک دفتر نہیں بلکہ ایک ذمہ داری، ایک خدمت اور ایک عہد ہے۔

وادی مھران، پاکستان کا سب سے زیادہ انڈسٹریل صوبہ ہونے کے باعث سوشل سیکیورٹی کا دائرہ سب سے وسیع ہے بڑے ہسپتال، جدید آپریشن تھیٹرز، ورکر فیملی کو مکمل کوریج، میٹرنٹی بینیفٹ بہترین، قانونی طور پر ورکرکے حقوق مضبوط، MIS / ڈیجیٹل ریکارڈ سسٹم بہتر ہو رہا ہے۔

سندھ بھر میں لاکھوں ورکرز اور ان کے خاندانوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ کراچی، حیدرآباد، کوٹری اور سکھر کے بڑے سوشل سیکیورٹی اسپتال صرف ادارے کی عمارتیں نہیں بلکہ مزدور کے لیے امید کے چراغ ہیں۔

جنرل سرجری ایمرجنسی، ڈائیلیسس۔ آئی سی یو، میٹرنٹی، آرتھو پیڈکس، ENT، لیبارٹریز کی سہولتیں دستیاب ہیں۔ (اور اب تو ڈائیلیسس پیشنٹ کو گھر سے سیسی کڈنی سینٹر لانڈھی اور کڈنی سینٹر سے واپس گھر تک Pick & Drop کی سہولت بھی موجود ہے)۔

ورکرکے صرف علاج تک بات محدود نہیں، بلکہ مالی مدد، بیماری الاونس، حادثے میں پوری تنخواہ، معذوری پنشن، بیوہ و یتیم کے حقوق، یہ سب وہ پہلو ہیں جو SESSI کو حقیقی فلاحی نظام کا درجہ دیتے ہیں۔

آج سیسی آج ایک ایسا ادارہ ہے جہاں قابلیت ہی اصل معیار ہے۔ یہاں مرد و عورت کے درمیان تفریق محض ماضی کی بات ہے اور ادارے میں 30 فیصد سے زائد خواتین اہم اور فیصلہ ساز عہدوں پر اپنی صلاحیت کا لوہا منوا رہی ہیں۔ اسی طرح، اقلیتی برادری کے ملازمین بھی اہم پوزیشنوں پر فائز ہیں اور ادارے کی یونین اور نمائندہ فورمز میں برابر کے شریک ہیں۔ ان کی رائے اور کردار کو مکمل احترام حاصل ہے۔

اسی طرح معذور افراد کا معاشرتی اور اقتصادی شمولیت انسانی ترقی کی بنیاد ہے۔ آج دنیا کے کئی ممالک میں معذور افراد کے لیے ملازمتوں میں خاص کوٹہ اور اسپیشل الاؤنس دیے جاتے ہیں تاکہ وہ معاشرے میں خودمختار اور باعزت زندگی گزار سکیں۔ بین الاقوامی ادارہ محنت (ILO) نے بھی پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کو اس بات پر زور دیا ہے کہ معذور افراد کو ملازمتوں میں ترجیح دی جائے اور ان کے لیے مالی و سماجی سہولیات فراہم کی جائیں۔

پاکستان میں بھی اس حوالے سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ حکومت اور ادارے معذوروں کے لیے ملازمتوں میں کوٹہ اور اسپیشل کنوینس الاؤنس دینے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ نہ صرف معذوروں کے معیار زندگی کو بہتر بناتا ہے بلکہ انہیں معاشرتی طور پر باعزت مقام بھی دیتا ہے۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ میں جب یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو یہ بات بتاتے ہوئے خوشی محسوس کررہا ہوں کہ سیسی اس پر پہلے سے ہی کام کر رہا ہے اور سیسی میں موجود معذور ملازموں کے لیے اسپیشل کنوینس الائونس دینے کے لئے خصوصی اجازت گورننگ باڈی سے لی جارہی ہے، جس کے بعد سیسی کے معذور ملازمین اس خصوصی الائونس سے مستفید ہو سکے گیں کیونکہ ان کے لیے مالی سہولیات یقینی بنانا، ایک مضبوط اور جامع معاشرے کی علامت ہے۔

یقیناً اگر یہ اقدامات مستقل بنیادوں پر کیے جائیں تو پاکستان ایک ایسا ملک بن سکتا ہے، جہاں ہر شخص اپنی صلاحیتوں کے مطابق زندگی گزار سکے، چاہے وہ کسی بھی جسمانی یا ذہنی حالت کا حامل ہو۔

یہ تمام اقدامات بین الاقوامی معیار، جیسے ILO اور UNO کے اصولوں کے مطابق ہیں، جو برابری، انصاف اور شمولیت کو فروغ دیتے ہیں۔ سیسی کا یہ عملی وژن نہ صرف ادارے کی کامیابی بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور روشن مستقبل کی بھی مثال ہے۔

ھم اس وقت 2025 کو الوداع اور 2026 کو خوش آمدید کہنے جارہے ہیں اور یہ خبر دل کو راحت اور خوشی محسوس کرتی ہے کہ ماشاءاللہ آج صوبہ سندھ کی سیاسی قیادت بشمول صوبائی وزیر محنت اور ان کی پوری ٹیم اور سیسی انتظامیہ اس معاملے پر ایک صفحے پر ہیں اور وہ سیسی کو مزدوروں کے لیے ملک کا ایک ماڈل ادارہ بنانےکی بھرپور کوشش میں مصروف عمل ہیں۔ ظاہر ہے، راستے میں مشکلات آتی ہیں، لیکن نیت صاف ہو تو اللہ تعالیٰ شامل مدد ہوتا ہے۔

Check Also

Dushman Se Khairat Ki Talab

By Sohail Bashir Manj