Deewar e Berlin
دیوار برلن

جرمنی کا یا جرمن قوم کا تذکرہ ہو اور ھٹلر کا ذکر نہ ہو یہ تو ہوئی نہیں سکتا کہ جرمن قوم کو طاقتور اور عظیم بنانے اور دنیا میں سب سے اعلیٰ قوم کہلوانے کے لئے ہی دنیا فتح کرنے نکلنے والا شخص، لیکن اسے نہیں پتہ تھا کہ دنیا میں اور بھی طاقت ہے جو دن کو رات اور رات کو دن بناتی ہے جسے چاہے بادشاہ سے گدا بنا دے اور جسے چاہے قید خانے سے اٹھا کر مصر کا بادشاہ بنادے اور وہ ھر چیز پر قادر ہے اور اس کے لئے کوئی محنت بھی نہیں کرنی پڑتی اور وہ صرف کن کہتا ہے اور اور فیکوں وہ چیز ہو جاتی ہے، اسی لئے تو ابو تراب کو کہنا پڑا کہ میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔
1933 میں جرمنی کا چانسلر بننے والا اپریل 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے آخری سال میں ان کا انتقال ہوا یا اس نے خودکشی کی، تاریخ اب تک اس رخ کا صحیح طور پر تعین نہیں کرسکی۔ انسان کو نفرت یا تو ورثے میں بائیو لوجیکل جینز کی شکل میں ملتی ہے یا بچپن یا جوانی میں اس کے اردگرد کے حالات اس کو باغی بنا دیتے ہیں۔ کیا پتہ کہ اگر بچپن میں جسے مصوری کا شوق تھا اگر اسے ویانا اسکول آف آرٹ میں داخلہ مل جاتا تو اسے کبھی جرمن قوم پرستی اور یھودیوں سے نفرت نہ ہوتی لیکن اس بچے نے دو دفعہ ویانا اسکول آف آرٹ آسٹریا میں داخلہ لینا چاہا لیکن اسے داخلہ نہیں ملا اور یہیں سے ایک نئے ھٹلر نے جنم لیا جس کی جرمن قوم پرستی اور یھودیوں سے نفرت آخرکار ھولوکاسٹ کی شکل میں پایہ تکمیل تک جا پہچی۔
اب آتے ہیں اپنے اصل عنوان پر، برلن کی دیوار انسانی تاریخ کی اُن دیواروں میں سے ایک تھی جو صرف اینٹوں سے نہیں بلکہ نظریات، خوف اور طاقت کے فرق سے بنی تھی۔
آج 9 نومبر ہے اور آج دیوار برلن کو گرے ہوئے 46 سال ہوگئے یہ دیوار 13 اگست 1961 کو مشرقی جرمنی (East Germany) کی حکومت نے تعمیر کی تھی تاکہ لوگ مشرقی برلن سے مغربی برلن کی طرف فرار نہ ہو سکیں۔
تقریباً 28 سال تک یہ دیوار مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان ایک سیاسی اور علامتی تقسیم کی نشانی بنی رہی۔ 1989 میں مشرقی یورپ میں کمیونزم کے خاتمے اور عوامی احتجاجوں کے بعد حکومت نے سرحدیں کھولنے کا اعلان کیا۔ اسی رات عوام سڑکوں پر نکل آئے، دیوار توڑ دی گئی اور جرمنی کے اتحاد کا آغاز ہوا۔ برلن کی دیوار کا گرنا سرد جنگ کے خاتمے اور یورپ میں آزادی کے نئے دور کی شروعات کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
دیوار برلن اپنی تعمیر کے بعد دس ہزار تین سو پندرہ دنوں تک سرد جنگ کے استعارے اور نشان کے طور پر تاریخ کے صفحات پر موجود رہی۔ اس دیوار کو کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی جانب سے عبور کرنے کی کوشش کے دوران ڈھائی سو زائد افراد نے سکیورٹی فورسز کی گولیوں کے ذریعے موت کو گلے لگایا۔ اس دیوار کی تعمیر کے وقت مشرقی حصے سے راہِ فرار اختیار کرنے والے افراد میں سے ہر دوسرا شہری پچیس برس سے کم عمر کا تھا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سن 1961 کی جوان جرمن نسل جنگ، تباہی و بربادی اور بمباری کے دور میں پیدا ہوئی تھی۔ اس نسل کے کئی بچوں نے اپنی زندگی میں اپنے اپنے باپ کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی کیونکہ وہ میدان جنگ میں کام آ چکے تھے۔ اس نسل کے روشن مستقبل کے لیے اِن کے بڑوں نے جنگ سے عبارت تلخ ماضی کو بھلا کر اسے پروان چڑھایا۔
برلن کی دیوار انسانی تاریخ کی اُن دیواروں میں سے ایک تھی جو صرف اینٹوں سے نہیں بلکہ نظریات، خوف اور طاقت کے حفرق سے بنی تھی۔ برلن کی دیوار کا زوال نہ صرف جرمنی کے اتحاد کی علامت تھا بلکہ اس نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ آزادی اور سچائی کو زیادہ دیر تک قید نہیں رکھا جا سکتا۔
امریکہ میں 2001 سے صدر جارج ڈبلیو بش نے اس دن یعنی 9 نومبر کو ورلڈ فریڈم ڈے منانے کا اعلان کیا اور جب سے یہ دن ورڈ فریڈم ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے

