Cricket Ki Muhabbat
کرکٹ کی محبت
میرا کرکٹ دیکھنے کا سفر کوئی چار عشروں پر محیط ہے، اسی کے عشرے کے وسط سے میچز دیکھنے شروع کئے، مجھے چوراسی میں نیوزی لینڈ کی پاکستان دورے والی سیریز یاد ہے جس میں جرمی کونی نیوزی لینڈ کا کپتان تھا۔ وہ ون ڈے بھی جس میں وسیم اکرم پہلی بار کھیلا اور آخری اوور میں جرمی کونی نے شائد اسے چار چوکے لگائے تھے، بیس رنز بنانے تھے، پاکستان وہ میچ جیت گیا تھا۔
چھیاسی کا شارجہ کپ اور ستاسی کا ورلڈ کپ بہت اچھی طرح یاد ہے۔ اس کے بعد کرکٹ مسلسل دیکھتا رہا۔ ایک زمانے میں یاداشت ایسی تھی کہ کالج میں دوستوں کے ساتھ کسوٹی کھیلتا تھا اور صرف دس سوالات میں ہر نیشنل، انٹرنیشنل کھلاڑی کا نام بوجھ لیتا، شرط یہ ہوتی کہ وہ پچاسی کے بعد بھی کھیلتا ہو، پرانے کھلاڑیوں کا بھی خوب پتہ تھا، مگر سو فی صد معلومات نہیں تھیں۔ اخباروطن، کرکٹر باقاعدگی سے پڑھتا تھا۔
کرکٹ سے محبت پچھلے چالیس سال سے جاری ہے۔ پاکستانی کرکٹ کو خاص طور سے مستقل اور مسلسل فالو کرتا رہا ہوں، عمومی طور پر دیگر بڑی ٹیموں کے میچز بھی کسی حد تک۔ ایشز یا کوئی دوسری بڑی سیریز کو خاص طور سے فالو کرتا ہوں۔
اس دوران پاکستانی کرکٹ یا کرکٹروں کے حوالے سے میری پسند ناپسند میں ایک بار بھی کسی شہر، زبان یا قومیت کا حوالہ اہم نہیں ہوا۔ صرف اور صرف کرکٹ ہی بنیادی معیار رہا۔ مجھے اس سے قطعی دلچسپی نہیں کہ فلاں کرکٹر لاہور، کراچی، پنڈی، پشاور یا جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا اچھا کھلاڑی ہونا ہمیشہ اہم رہا۔
ہم عمران خان کے تب مداح تھے، جب یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کا تعلق میانوالی سے ہے یا جاوید میانداد کراچی کا مہاجر ہونے کی وجہ سے کبھی ایک لمحے کے لئے بھی ان فیورٹ نہیں رہا۔ ہمیشہ جاوید میانداد کے کھیل کی وجہ سے ان کے بڑے مداح رہے۔ یہی ظہیرعباس، ماجد خان، عبدالقادر، اقبال قاسم، قاسم عمر، سلیم ملک، راشد لطیف، باسط علی وغیرہ کے ساتھ رہا۔
انضمام الحق کا تعلق ملتان سے ہے، مگر اس کے کھیل کی وجہ سے اسے پسند کرتا تھا اور اس کے تساہل اور کمزور فٹنیس کے باعث اپنی بہت سی اننگز کو سنچریوں میں تبدیل نہ کرنے پر ناقد بھی رہا۔
میں ستائیس برسوں سے لاہور میں مقیم ہوں، یہ میرا اب ہوم ٹائون ہے، میرے بچے یہیں بڑے ہوئے ہیں، اسی شہر نے مجھے شناخت اور عزت دی۔ لاہوری کرکٹر بھی اگر اچھا نہیں تو اس کا ناقد رہا۔ کامران اکمل پر ہمیشہ اس کی کمزور کیپنگ کی وجہ سے تنقید کی اور عمر اکمل کے شوخے ہونے پر نالاں رہا اور تنقید کرتا رہا۔ سلمان بٹ کے خلاف میں نے بہت کچھ لکھا، اسی لئے کہ میں اسے میچ فکسر گروہ کا سرغنہ سمجھتا تھا جس کی وجہ سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی۔
میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں راشد لطیف بطور وکٹ کیپر معین خان سے زیادہ پسند تھا، باسط علی کی شارجہ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف سنچری پر اس کا فین بنا اور دکھ ہوا جب وہ فکسنگ ایشوز پر احتجاجا ریٹائر ہوا۔ سرفراز کی اچھی کپتانی پر اس کو پسند کرتے تھے اور جب اس کی بیٹنگ پرفارمنس بہت بری ہوئی اور وہ ٹیم پر بوجھ بن گیا تو اس پر تنقید بھی برملا کرتے رہے اور رضوان کے حق میں لکھا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی جینوئن کرکٹ لور اور فین ہمیشہ کھلاڑیوں کے کھیل کی بنا پر انہیں پسند یا ناپسند کرے گا۔ ان کے شہر، زبان، قومیت وغیرہ کا کھیل سے کم از کم کوئی تعلق نہیں۔ اسی وجہ سے مجھے حیرت ہوتی ہے جب کوئی ناجائز طور پر کسی کھلاڑی کا مقدمہ لڑتا ہے یا دفاع کرتا ہے، صرف اس لئے کہ وہ ان کے شہر کا ہے۔
یار کرکٹ کا شہروں سے کیا لینا دینا؟ مجھے ذاتی طور پر اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ گیارہ کے گیارہ کھلاڑی کراچی کے ہوں، اگر وہ اچھے کھلاڑی ہیں، پاکستان کو میچ جتوا سکتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ اسی طرح اگر قومی ٹیم میں میرٹ پر کراچی کا ایک بھی کرکٹر نہ آ سکے تب بھی کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔
اصل بات یہ ہے کہ میرٹ پر اچھے کھلاڑی منتخب کئے جائیں۔ دیر کا نسیم شاہ اگر اچھا فاسٹ بائولر ہونے کی بنا پر سلیکٹ ہوتا تو یہ ٹھیک ہے، یہی فاٹا کے شاہین شاہ آفریدی کا معاملہ ہے یا دیہی سندھ کے نعمان علی اور شاہ نواز دھانی کا۔ وقار یونس بوریوالہ کا تھا اور اس نے دنیا بھر میں دھوم مچائی تو یہ اہم ہے، اس کا شہر خواہ کوئی بھی ہو، سلیکشن میں یہ فیکٹر نہیں بننا چاہیے۔
کراچی، لاہور کے سپورٹس رپورٹروں میں مگر اس حوالے سے بڑا واضح فرق ہے۔ کراچی کے سپورٹس رپورٹر خاص کر جنگ، جیو کے رپورٹر کراچی کے بعض کھلاڑیوں کی غیر معمولی فیور کرتے رہے ہیں اور پنجاب کے کرکٹرز پر بلاجواز تنقید۔
ایک زمانے میں یہ سب شاہد آفریدی کے پروپیگنڈہ ایجنٹ بنے پھرتے تھے اور مصباح الحق پر بلاجواز غیر ضروری تنقید کرتے۔ جواب میں ہمارے بعض سپورٹس رپورٹر دوست کامران اکمل کا خواہ مخواہ مقدمہ لڑنے کی کوشش کرتے، حالانکہ ایسے نالائق وکٹ کیپر کی کون حمایت کر سکتا ہے۔
سرفراز کی جب کارکردگی بہت ڈائون ہوگئی اور وہ ٹی ٹوئنٹی ٹیم پر بوجھ بن گیا تھا، تب بھی کراچی کے سپورٹس حلقے اس کی حمایت کر رہے تھے، حالانکہ تب رضوان زیادہ بہتر چوائس بن چکا تھا اور جب موقعہ ملا تو رضوان نے غیر معمولی پرفارم کرکے دکھا دیا۔ سرفراز تو پچھلے تین چار برسوں سے کوئٹہ گلیڈایٹر پر بھی بوجھ بن چکا ہے اور اس کے مالکان مروت میں اپنی ٹیم کا بیڑا غرق کرا چکے ہیں۔
اب یہی اعظم خان کے معاملے میں کیا جا رہا ہے۔ اعظم خان کی فٹنیس خوفناک ہے اور وکٹ کیپنگ بھیانک۔ اس سے ہلا نہیں جاتا، کیپر کے طور پر ڈائیو لگانا تو دور کی بات ہے وہ تھوڑا سا ادھر ادھر کیچ ہو تو پکڑ نہیں سکتا۔ اس سے صرف اس لئے کیپنگ کرائی جا رہی ہے کہ وہ اتنا برا فیلڈر ہے کہ گرائونڈ میں کہیں پر نہیں کھڑا کیا جا سکتا، اس سے بھاگا ہی نہیں جاتا، بیٹنگ میں بھی دوسرا رنز نہیں لے پاتا، ہانپنے لگ جاتا ہے۔ اپنے ہاتھی جیسے جسم کے ساتھ اسے انٹرنیشنل لیول پر آنا ہی نہیں چاہیے۔ جو پروفیشنل کھلاڑی ہونے کے باوجود اپنا وزن کم نہ کر پائے، پیٹ اور سائیڈوں پر چربی کے لوتھڑے ہوں، اسے قومی ٹیم میں کیسے شامل کیا جا سکتا ہے؟
یہ ٹھیک ہے کہ وہ پاور فل ہٹنگ کرتا ہے، مگر ہر جگہ ٹلے بازی نہیں ہوسکتی، کسی پچ پر ایک اور دو رنز بھی تیزی سے بنانے پڑتے ہیں۔ وہاں کیا کرے گا؟ اسی طرح صرف بیٹنگ نہیں کرنا ہوتی، فیلڈنگ بھی لازمی ہے۔ یہ بات اعظم خان کو سمجھ کیوں نہیں آرہی؟
شاداب خان کا تعلق میانوالی سے ہے، وہ غالباً سرائیکی سپیکنگ ہے۔ اس بنیاد پر مگر ہم اس کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں؟ ایک برا کرکٹر خواہ سرائیکی ہو یا پنجابی، پشتون سندھی یا بلوچ اسے ٹیم میں نہیں ہونا چاہیے۔ شاداب کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے بائولنگ بہتر کرنے پر توجہ نہیں دی۔ لیگز میں مسلسل کھیل کر پیسہ کمانے کا جنون ان لڑکون پر سوار ہے۔ اسے اپنی بائولنگ بہتر کرنی چاہیے، نئی ورائٹیز سیکھنی چاہیے تھیں۔ نہیں کی تو اب مشکل میں ہے۔ شاداب خان اپنی اس بری فارم کی وجہ سے قومی ٹیم پر بوجھ بن چکا ہے۔
بابر اعظم بلاشبہ پاکستان کا اس وقت نمبر ون بلے باز ہے۔ واحد ایسا ورلڈ کلاس بیٹر جسے دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ بابر مگر اچھا کپتان نہیں۔ اس کا ویژن محدود ہے اور وہ بڑے تناظر میں چیزیں دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ وہ دبائو میں بروقت فیصلے نہیں کر پاتا اور بہت بار ایسا لگتا ہے کہ یاری دوستیاں نبھاہ رہا ہے۔ ممکن ہے ایسا نہ ہو، لیکن پھر یہ تو ضرور کہنا پڑے گا کہ اس کی سلیکشن بہت ہی ماٹھی ہے۔ حسن علی جیسا چلا ہوا کارتوس وہ بار بار واپس لے آتا ہے۔ کبھی فہیم اشرف جیسے تھکے ہوئے ترین نام نہاد آل رائونڈ کو کھلانے پر اصرار تو کبھی شاداب خان کو لازمی کھلانا ہے چاہے ٹیم ورلڈ کپ ہار جائے۔
کوئی بھی ایسا کپتان جس میں معمولی سی سوجھ بوجھ ہو، وہ یہ سمجھ لے گا کہ ابرار احمد ایک اچھا سپیشلسٹ سپنر ہے، اسے مسلسل کھلا کر اعتماد دیا جائے تاکہ وہ ورلڈ کپ میں مفید ثابت ہو۔ پاکستان کو درمیانے اوورز میں وکٹ لینے والا سپنر چاہیے، یہ کام شاداب نہیں کر پا رہا۔ عماد وسیم بھی اس طرح کا وکٹ ٹیکر سپنر نہیں ہے، مگر اس کی فارم اچھی ہے اور وہ نپی تلی بائولنگ کرا رہا ہے، اس باعث اسے وکٹیں بھی مل جاتی ہیں اور رنز بھی کم دے رہا ہے۔
کراچی کے دوستوں سے خصوصی اور باقی شہروں والوں سے عمومی درخواست ہے کہ شہروں کی بنیاد پر کرکٹروں کو سپورٹ کرنے کا سلسلہ ختم کریں، میرٹ پر کرکٹ اور کرکٹرز کو سپورٹ کریں۔ اگر آپ اعظم خان، شاداب خان جیسوں کو سپورٹ کرتے پھریں گے تو زیادہ تر شرمندہ ہی ہونا پڑے گا۔ اس پر بھی اصرار نہ کیا جائے کہ قومی ٹیم میں کراچی کے کرکٹرز کم کیوں ہیں؟ جو اچھا کھیلے اسے ہی آنا چاہیے، بے شک وہ کسی بھی شہر کا ہو۔