Tuesday, 21 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Hassan
  4. Soch Badlo, Pakistan Badlo

Soch Badlo, Pakistan Badlo

سوچ بدلو، پاکستان بدلو

بہت ہو گیا تیرا نواز میرا نواز، تیرا بلاول میرا بلاول، تیرا کپتان میرا کپتان کرتے اب اپنے گھر، اپنی آنے والی نسلوں اور اپنے ملک کا سوچنا ہو گا اپنے ملک کی فکر کرو۔ اب وقت آ گیا ہے عوام کو لیڈر پرستیوں سے باہر نکلنا ہو گا۔ لیڈر پرستیوں سے باہر نکل کر جہاں انکا لیڈر غلط ہو وہاں اس کو فوراً غلط کہے اور جہاں کوئی دیگر سیاسی رہنما صحیح کام کر رہا ہے تو اپنے تمام تر اختلافات کو چھوڑ کر اسکو صحیح کہے۔

ہم اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اس حد تک گر چکے ہیں کہ کوئی ہمارا مخالف رہنما اچھا کام بھی کر رہا ہو تو ہم اپنے سیاسی مفادات کے لیے اس کو عوام کے سامنے غلط ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانی قوم تب تک ایک عظیم قوم نہیں بن سکتی جب تک پاکستان کی عوام اپنے تمام تر اختلافات، اپنا مطلب اور اپنی محبت کو ایک طرف رکھ کر صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا نہیں آتا۔

ہم اپنے سیاسی لیڈر کی محبت میں اس قدر مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم ان کی غلطیوں کو بھی مختلف جواز بنا کر لوگوں کے سامنے ڈیفنڈ کر رہے ہوتے ہیں۔ آخر کب ہم اس سیاسی پارٹی بازی سے نکل کر صرف اپنے ملک و قوم کا سوچیں گے؟ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی سوچ کو بدلیں۔ ہم کو کسی ایک پارٹی کو سپورٹ کرنا چاہیے لیکن اس کی محبت میں اتنا ہی نہ مبتلا ہو جائیں کہ اگر وہ کسی مقام پر غلط ہو تو ہم میں ان پر تنقید کرنے کی بھی ہمت نہ ہو۔

ہمارے سیاسی رہنماؤں کو اس بات کا پتا ہونا چاہیے کہ اگر ہم کہیں غلط ہوۓ تو ہمارے اپنے ہی چاہنے والے ہم پر تنقید کریں گے اس لیے وہ ہر فیصلہ اور ہر بات کرنے سے پہلے ذرا سوچیں گے۔ انکو یہ نہ ہو کہ ہم جو مرضی کریں یا بولیں ہم کو ڈیفنڈ کرنے والے اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے والے بہت لوگ ہیں۔

بدلو سوچ اور تب بدلے گا پاکستان

ہم بنائے مل کر خوبصورت پاکستان۔

میں عمران خان کو باقی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے بہتر سمجھتا ہوں۔ اور ان کی ایمانداری اور نیک نیت ہونے کی وجہ سے میں ان کو بہت پسند کرتا ہوں پر اس کے علاوہ مجھے عمران خان کی بہت سی باتوں سے اختلافات ہیں ان میں سے دو اہم اختلافات یہ ہیں۔ میرا عمران خان سے پہلا اختلاف اس بات پر ہے جس بات کا پچھلے چار سالوں میں عمران خان نے سب سے زیادہ ذکر کیا ریاست مدینہ۔

عمران خان نے اپنے پچھلے چار سالوں میں ریاست مدینہ کا ذکر کئی بار کیا اور انہوں نے یہ کہا کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں، جہاں غریب امیر تمام قانون کے کٹہرے میں برابر ہوں۔ اور اس ملک میں ریاست مدینہ جیسا قانون لانا چاہتے ہیں اور میں ان کی اس بات سے خوش بھی ہوں کہ وہ پاکستان میں ایک اسلامی نظام لانے کی بات کرتے ہیں۔

پر میرا خان صاحب سے اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ خان صاحب ریاست مدینہ میں صرف قانون کی بالادستی نہیں وہاں پر اور بھی بہت سی چیزیں تھیں، وہاں پر اخلاق نام کی چیز تھی۔ "اخلاق" جمع ہے "خلق" کی جس کا معنی ہے "رویہ، برتاؤ، عادت"۔ یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے رویے یا اچھے برتاؤ یا اچھی طرح پیش آنا۔ اور میرا آپ سب سے بڑا اختلاف یہ ہے کہ آپ اخلاقیات کو بھول چکے ہیں، اپنی سیاست کو چار چاند لگانے کے لیے اخلاقیات کو بہت پیچھے چھوڑ آئیں ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان صاحب پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور ان کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ بہت اہم ہے اور اگر وہ کسی سیاسی رہنما کا نام بگاڑتے ہیں تو ان کو دیکھ کر ان کے چاہنے والے بھی اسی نام سے اس کو پکاریں گے۔ جس سے معاشرے میں بھی بد اخلاقی پیدا ہو گی لہذا خان صاحب کو تنقید کرنی چاہیے پر سیاستدانوں کے نام رکھنے اور کھلے جلسے عام میں ان کو ان کے غیر اخلاقی ناموں سے پکارنا ایک اچھی سیاست نہیں ہے۔

اور نہ ہی اس چیز کو ہمارے معاشرے میں اور نہ ہی ہمارے مذہب میں اچھا سمجھا جاتا ہے۔ اگر کسی کو مولانا ڈیزل بلا کر یا کسی کو چیری بلوسم بلا کر یا کسی کو امریکیوینٹی لیٹر بلا کر آپ کی سیاست کو چار چاند لگ جائیں گے یا پڑھے لکھے لوگ آپ کی اس بات کو سراہیں گے یا کسی جگہ اس بات کو ڈیفنڈ کرینگے تو یہ غلط سوچ ہے آ پ کی۔

اور دوسرا اختلاف یہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی مقصد کے لیے استمال کرے تو ٹھیک اگر کوئی اور کرے تو غلط، اگر عدالتیں ان کے حق میں فیصلہ دیں تو ٹھیک اگر نہ دے تو وہ بھی غلط اور جج غدار، اگر میڈیا ان کے حق میں بولے تو ٹھیک اگر ان کے خلاف بولے تو میڈیا بک گیا۔ اگر چند صحافی ان کے حق میں بولیں تو ٹھیک اگر ان کے خلاف بولیں تو وہ لفافہ صحافی ہے۔

لہذا برائے مہربانی اپنی سیاسی جماعت کو سپورٹ کریں، اپنے لیڈر کو سپورٹ کریں لیکن جب وہ غلط ہوں تو ان کا ساتھ نہ دیں۔ جب وہ غلط ہوں تو ان کو کہیں کہ آپ اس جگہ غلط ہیں۔ اپنے ملک کو پہلے رکھیں پھر اپنے لیڈر کو۔ اس شخص کی تعریف کریں جو ملک کے لیے کچھ اچھا کر رہا ہے۔ بے شک وہ آپ کا سیاسی مخالف ہی کیوں نہ ہو۔

About Ali Hassan

Ali Hassan is from Sargodha. He is doing BS International Relations and political science from university of lahore sargodha campus. He is interested in writing on different political and social issues.

Check Also

Tarbooz Ki Kahani Meri Zubani

By Mubashir Saleem