Tuesday, 02 July 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aisha Fawad
  4. Safar e Hajj, Muhabbat Ka Safar

Safar e Hajj, Muhabbat Ka Safar

سفر حج، محبت کا سفر

محبت کا سفر، عقیدت کا سفر، اپنی پہچان کا سفر، اپنے رب کی حکم پے لَبیک کا سفر۔۔ یہ وہ سفر ہے جو فرض تو ہے ہی مگر جب اس فرض میں محبت، شوق اور تڑپ شامل ہو جاے تو پھر تو یہ دل میں چنگاری کی طرح سلگتا ہے، پل پل ایک انسان کو تڑپاتا ہے جب تک کہ وہ وہاں کی تیاری نہ کر لے۔۔ وہاں کی تیاری ہوتی ہے تو گویا دل کو پنکھ لگ جاتے ہیں کہ کب جانا ہوگا؟ نہ جاے رفتن نہ پایے ما ند ن والی کیفیت ہو جاتی ہے۔

یوں تو ہم میں سے بہت سے لوگ حج کا سفر کر چکے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں سے اسکی بات بھی کرنا چاہتے ہیں کہ یہ وہ آگ ہے جو جلائےناجلے بجھائے نا بھجے۔۔ جو جا چکے ہیں وو تڑپتے ہیں اور جو نہیں گئے وہ تر ستے ہیں۔ نہ جانے والے چاہتے ہیں کہ انکو پتا لگے کہ یہ سفر ہے کیا؟ اس میں در پیش مشکلات کیا ہیں اور اسکے بارے میں وہاں جانے والوں کے احساسات کیا ہیں؟ احساسات ان کے بھی جو بار بار جاتے ہیں کہ آخر وہ کس چیز کی جستجو میں بار بار رخت سفر باندھتے ہیں، در بدر پھر تے ہیں۔ وہ کونسی ایسی تمنا ہے جس کو پورا کرنے جاتے ہیں یا کہ اس در کی حا ضر ی گویا لازم و ملزوم کر دی گئی ہے ان کے لیے یہ معاملات تو انسانی عقل سے باہر ہیں۔

یہ یا تو اللہ جانے یا پھر وہ بندہ جس پر کرم ہے اور جس پر کرم ہو اس کے معاملے میں کیا پڑنا۔ جو پہلی بار جاتے ہیں انکی حالت ایسے بچے کی سی ہوتی ہے جسے اسکا من پسند کھلونا ایک دم مل گیا ہو جیسےتو نہ وہ روتا ہے نہ ہی ہنستا ہے بس چپ چاپ گم سم اسے دیکھتا چلا جاتا ہے اور ہوش تب آتا ہے جب وہ کھلونا کوئی اور اٹھالے اسی طر ح پہلی حاضری ہوتی ہے، گم سم، چپ چاپ، ہولے ہولے، نظریں جھکایے بس حاضر ہو جائیں۔ اس بندگی کے لیے جو ازل سے ا بد تک معبود اور عبد کے ما بین ہے۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ پوچھیں کس سے؟ بات کس سے کریں؟ اور لوگ خود ان سے آخر کیوں نہیں ذکر کرتے اس سفر کا؟

بہت سے لوگ جو اس سال حج پر گئے تھے اور رحمٰن کے مہمان بنے تھے۔ ان میں سے کچھ نے اس کی مشکلات تو بتا دیں تھیں، رش کا بتایا، اپنی گریہ زاری کا بھی تذکرہ کیا۔ مگر یہ نہیں بتایا کہ ہمارا بلاوا لے کر آئے یا نہیں؟ کیا ہمارے لیے بھی یہ سفر اللہ سے مانگا یا بس گرمی اور رش سے گھبراتے پھرے۔ عرفہ کے میدان تک ہماری صدائیں اور آہ و زاری بھی پہنچی کیا؟ ہميں بھی کسی نے یاد رکھا کہ نہیں۔ جو بھی اس مقدس سفر کے مسافر بنے تھے وہ جانتے ہیں کہ یہ محبت کا سفر ہے۔

اس سفر میں انسان صحیح معنوں میں تن، من اور دھن کی قربانی دے کر جاتا ہے۔۔ اپنی اولاد، اپنا مرتبہ، اپنا گھر سب چھوڑ کر جاتا ہے۔ صرف اور صرف اپنے پیارے اللہ کے حکم کی تعمیل کے لیے۔ اس قربانی کی یاد تازہ کرنے جو حضرت ابراھیمؑ نے دی تھی اتنے سال پہلے۔ اللہ حاجی خود چنتا ہے جیسے ہم چاول چنتے ہیں ناں اور اس میں سے سب سے صاف، سب سے اچھے چن کے الگ کر لیتے ہیں ویسے ہی اللہ بھی کرتا ہے۔ اپنےبندوں میں سے کچھ خاص کو چن لیتا ہے۔۔ اپنے در کے لیے، انکو وہ اپنی میزبانی کا شرف دیتا ہے اور کون نہیں چاہے گا اللہ کا مہمان بننا۔

کس کا نہیں دل کرے گا منی، عرفات اور مز دلفہ کا مقیم ہونے کو، بھلے یہ عارضی ٹھکانہ ہے مگر ہے تو۔۔ اور یہیں تو آقا کریم ﷺبھی رہے تھے اور ہم نے بھی انکے نقش پا پر ہی تو چلنا ہے۔ اس سفر پر جاتے ہوئے جذبات اور ہوتے ہیں اور آتے ہوئے کچھ اور۔۔ جاتے ہوئے خوشی، جوش اور تھوڑا سا خوف ہوتا ہے اور آتے ہوئے اداسی اور ایک عجیب سا بوجھل پن اور خالی پن ہوتا ہے۔

دل میں یہی خیال آ تا ہے، اب کب آنا ہوگا؟ کیسے رہیں گے ان میٹھی اور آقا کریم کی خوشبو بسی ان پیاری اور پاک جگہوں کے بغیر۔ بس آپ اپنا خالی وجود لیے چلے آتے ہیں اور دل وہیں انہی کوچوں میں ہی مچلتا رہ جاتا ہے۔ شاید بعد میں جانے والےحاجیوں کو کہیں دھول میں، بیت اللہ کے کسی داخلی دروازے کی چوکھٹ پر یا آقا کریم کے روزے کی جالیوں کے نیچے گرا ہوا مل جائے تو اسے وہیں رہنے دیں کہ ہوسکتا ہے مٹی میں مٹی ہونے سے مجھے معافی مل جائے تو میں تو رنگا گیا ناں اور جو اللہ کے رنگ میں رنگا گیا، اسے اور کیا چاھئیے۔

بیشک اللہ ہی کا رنگ بہترین ہے

اللہ ہم سب کو اپنے رنگ میں رنگ دے۔

اللہ ہم سب کو اپنے گھر کا مسافر بنالے اور بار بار بنالے۔۔

Check Also

Abhi Gardani e Shab Mein Kami Nahi Aayi

By Awais Haider