Thursday, 04 July 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Awais Haider
  4. Abhi Gardani e Shab Mein Kami Nahi Aayi

Abhi Gardani e Shab Mein Kami Nahi Aayi

ابھی گردانیِ شب میں کمی نہیں آئی

قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد ہی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے سانحہ ارتحال نے پاکستان کو عجیب و غریب دلدل میں دھکیل دیا کہ بعد کے سیاسی رہنماء نہ تو کوئی باضابطہ آئین دے سکے اور نہ ہی دستورِ پاکستان کو مکمل فعال کرسکے مزید برآں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء نے جمہوریت کی رہی سہی ساکھ بھی تہہ در خاک کر دی۔ بلاشبہ انفراسٹرکچر، انویسٹمنٹ اور ڈویلپمنٹ پروجیکٹس میں اک ربط ضرور قائم ہوا مگر "اسلامی جمہوریہ پاکستان" نے آمریت کو کسی طور قبول نہ کیا کیونکہ یہ دونوں متضاد تصورات حکمرانی ہیں۔

بہرکیف جمہور اس کے بعد اس قدر ناکام و ناتواں ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید سے لیکر عمران خان اسِیر تلک جتنے وزرائے اعظم اور سیاسی حکومتیں معرضِ وجود میں آئیں وہ جمہوری و معاشی استحکام لانے میں کوئی خاص کامیاب نہ ہوسکی یکے بعد دیگرے کے مارشل لاء، فسطائیت، دہشتگردی اور امن عامہ وغیرہ نے جمہوری حکومتوں اور عافیت زدہ قوم کو پرسانِ حال کیے رکھا کہ اہل خرد چاہ کر بھی مسائل کی گتھی کو نہ سلجھا سکے۔۔

قیام پاکستان سے لیکر 2024 تک کے سالانہ بجٹ عوام کیلئے تقریباً خیالِ پریشاں اور بارِ گراں ہی ثابت ہوئے ہیں، بے وفا وقت ہمیشہ بے زبان اور نامہرباں ہی نکلتا رہا ھے مگر اس کے باوجود ماضی بعید میں منہگائی کا تناسب، روزگار، زراعت و تجارت اور انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اور نیشنل و انٹرنیشنل انویسٹمنٹ نے کسی حد تک گزارا کیے رکھا اور گزر بسر کسی طور عام آدمی کی قوت برداشت میں رہی۔

2020 کے کرونا وائرس نے پوری دنیا کی طرح پاکستان کے معاشی نظام کو بھی حددرجہ متاثر کیا، اس وقت کی حکومت نے معمولات زندگی، کار ہائے روزگار اور کاروبار وغیرہ کو بحال رکھنے کی کافی کوششیں کی مگر اس کے باوجود پرائیویٹ سیکٹر بہت زیادہ متاثر ہوا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار اور بے یارو مددگار ہوئے، مہنگائی، بے روزگاری اور بین الاقوامی پابندیوں نے عام آدمی اور مزدور کو اپنے شکنجے میں لے لیا۔ حالات کچھ سنبھلنے کی جانب رواں دواں ہوئے ہی تھے کہ تحریک عدم اعتماد، تحریک انصاف حکومت کا خاتمہ اور سیاسی و جماعتی افراتفری نے ملک کو نئے سرے سے متزلزل صورتحال سے دوچار کردیا۔

ملک کی ڈگمگاتی کشتی کے نئے مقرر کردہ ملاح سمندری سفری صعوبتوں اور پیچیدگیوں سے نبردآزما نہ ہو سکے، نتیجتاً پاکستان کی ہچھکولے کھاتی نہئیاء مزید بڑے معاشی و معاشرتی سمندری طوفان کی طرف دھکیل دی گئی، بعد ازیں رہی سہی کسر نگران حکومت کے سیٹ آپ نے نکال دی، بلا ناغہ پٹرول، گیس، بجلی کے نرخوں میں اضافے، گندم سکینڈل، سیاسی پکڑ دھکڑ وغیرہ نے ملک و قوم کو مزید عدم استحکام سے نوازا۔۔

آخرکار خدا خدا کرکے فروری 2024 میں جیسے تیسے کرکے عام انتخابات کا انعقاد ہوا، ایک مخلوط حکومت معرضِ وجود میں لائی گئی، بلند بالا سیاسی و تعمیری دعووں، وعدوں اور قسموں پہ ہمیشہ کی طرح بہلائی گئی قوم نے پھر سے یقین کیا کہ اب شاید کوئی معاشی و معاشرتی انقلاب ضرور آئے گا بقول شاعر:

عادتاً تم نے کر دئیے وعدے
عادتاً ہم نے اعتبار کر لیا!

مگر یہ خوش گمانی بھی بالآخر اپنے اختتام کو پہنچی جب اسی ہفتے قوم کے عظیم افلاطونوں نے سالانہ وفاقی قومی بجٹ پیش کرکے اپنی قابلیت پہ مہر ثبت کردی ھے۔ سانس لینے کے علاؤہ ہر بنیادی ضرورت، سہولت، آسائشِ زندگی اور چیز پر ہزاروں اربوں ٹیکسز کی بھرمار، بچے کچے قومی اثاثوں کی نیلامی، اشیائے ضروریہ کے کئی گنا بڑھتے نرخ، گیس اور بجلی تو خیر اس قدر مہنگی کی گئی ھے کہ غریب اور سفید پوش بندہ سوچ سوچ کر ہی ہلقان ہورہا ھے کہ رہی سہی عزت اور سہولت بھی ہاتھوں سے جائے گی مزیدبرآں آئینی و قانونی ترامیم کی بات تو رہنے ہی دی جائے فی الوقت۔۔

اس حالِ بے یقینی میں بھی یہ بجٹ سرکاری ملازمین، اشرافیہ اور مافیہ کیلئے ہر ہمیش بڑا پرتعیش رہا ھے، انکی محنت و لگن، عظمت، قربانیوں اور حب الوطنی کو سراہتے ہوئے بیس سے پچیس فیصد تنخواہیں اور کوئی پندرہ فیصد پنشنز کو بڑھوتری دے دی گئی ھے حالانکہ مجھے تو اس بار یہ خوش گمانی ہوچلی تھی چونکہ ملکِ پاکستان فی الوقت بڑے مشکل معاشی حالات اور تذبذب کا شکار ھے تو شاید اس دفعہ بیس پچیس فیصد تنخواہیں اور مراعات کم کی جائیں گیں! خیر سوچ پر کوئی پابندی نہیں۔۔

اقوام عالم کا یہ معاشرتی اصولِ زندگی ھے کہ ہمیشہ ٹیکس دینے والے شخص کو حکومتِ وقت بڑی عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھتی ھے اور اسے ترجیحی بنیادوں پر بنیادی ضروریات زندگی، تعلیم و تربیت، بے روزگاری الاؤنس اور طبعی سہولیات کے ساتھ دیگر مراعاتِ زندگی فی الفور دیتی ہیں تاکہ وہ خوشحال زندگی کی طرف گامزن ہو سکے اور مزید ٹیکس ادا کرکے ملک و قوم کی بہترین اکائی بن سکے، یعنی اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے پالیسی دنیا میں بلا تفریق رائج ھے مگر ہم کیونکہ ساری دنیا سے الگ مزاج اور منفرد فطرت رکھتے ہیں ہمارے ہاں سسٹم اس کے بالکل برعکس ھے یہاں عام بندہ ٹیکس دیتا ھے اور اسے بدلے میں غربت، بے روزگاری، مہنگائی، حسبِ ضرورت چھتر پریٹ کے علاؤہ کچھ بھی نہیں ملتا کیونکہ ہمارے ملک میں سہولیات و مراعات پر شاید صرف اربابِ اختیار اور طاقتور یا قابض لوگوں کا حق ھے، عام عوام کیلئے ایک ہی مراعت اور وظیفہ ھے "وان اللہ مع الصابرین"۔

بادی النظر موجودہ بجٹ 2024 بھی صاحبانِ اقتدار اور اربابِ اختیار کی عیش و عشرت کے سامان کے علاؤہ کچھ نہیں، گھر گاڑیوں، کوٹھیوں، پروٹوکول نوکروں چاکروں، ڈیزل پٹرول، بجلی گیس پانی تک کی تمام آسائشیں پوری ٹھاٹ باٹ کے ساتھ انکی دہلیز پر پہنچادی گئی ہیں بس کسی طور یہ راضی رہیں۔

بہرحال تمام سابقہ ٹوٹی پھوٹی جمہوری حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی کچھ اس درجہ مجبور، لاچار اور بے بس نظر آرہی ھے کہ اگر انہیں ملکی و انتظامی پہیہ چلانا ھے تو مقتدر حلقوں کے یہ معصومانہ ناز و ادا تو برداشت کرنا پڑیں گے کیونکہ یہ وہ بھینسیں ہیں جو چارے میں کَھل اور چوکرکے بغیر دودھ نہیں دیتیں بلکہ قریب جانے پر لَات بھی دے مارتی ہیں لہٰذا قصداً یا مجبوراً یہاں بالائی بھرا دودھ ہمیشہ اچھے وَنڈے کا مرہون منت رہا ھے۔

دوسرا بحیثیت قوم ہمارا المیہ ھے کہ ہمیں بس اپنی اپنی چودھراہٹ اور عہدوں سے مطلب ھے چاہے کوئی بھاڑ میں جاتا ھے یا چاند پر ہمیں اس سے کوئی غرض ھے نہ واسطہ، صد شکر کہ اب کی بار مجھ پر نگاہ کرم ہوا ھے اور قرعِ فعال میرے نام کا نکلا ھے۔۔ بلکہ آج وزیراعظم کے بعد وزیر خزانہ بھی کانفرنس میں فرما رہے تھے کہ "یہ ہمارا آئی ایم ایف سے مشروط آخری پروگرام ہوگا" مطلب ٹیکسز کی بہتات کے ساتھ بیرونی قرض بمعہ سود بھی بالکل مفت ہمارے ذمے۔۔

ابھی چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گردانیِ شب میں کمی نہیں آئی

نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔۔

Check Also

Mubarak Ho (2)

By Javed Chaudhry