Pakistan Ke Tamam Ulema Ke Naam Aik Khula Khat
پاکستان کے تمام بڑے علما کے نام ایک کھلا خط
خدا نے فرشتوں سے جب کہا کہ "زمین میں ایک نائب مقرر کرنے لگا ہوں تو کہنے لگے کہ وہ تو زمین میں فساد اور خونریزی کرے گا۔ خدا نے کہا جو علم میں رکھتا ہوں تم نہیں۔ پھر جنابِ آدم ع کو علم کی بنیاد پر برتر قرار دے کر فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اگر فرشتوں کا احتمالِ فساد خدا نے انکی لا علمی قرار دیا تو قضیہِ ہابیل قابیل سے لے کر آج مدین تک اور پہلے کسی جنگی فساد سے لے کر آج کی جاری خونریزی تک یہ خدشہ ہر عہد کی زمینی حقیقت کیسے ہے؟
بساط بھر تدبر سے طالبعلم اس نتیجے پر پہنچا کہ فرشتے نہیں جانتے تھے کہ خدا زمین پر پوری انسانیت کے کے لیے اسی سلامتی کو ایک دین یعنی اسلام بنا کر "ولا تفسدو فی الارض (اور زمین پر فساد نہ پھیلاؤ " کا حکم دے گا۔ اسکا مطلب وہ جو خدا نے کہا تھا کہ " جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں" دراصل فساد اور خونریزی کی خو کو خدا کے حکم کے تابع ہو کر دینِ سلامتی / اسلام کی جدوجہد بنانے کا علم تھا۔ پھر خدا نے اس دینِ سلامتی کی جزئیات کو انسانیت کے لیے مشعلِ راہ بنانے کے لیے "علم " ہی کا راستہ اپنایا۔ پیغمبر، کتاب، قلم اور درس پر محیط یہ علمی سفر "ربنا ظلمنا انفسنا" سے شروع ہو کر "وما ارسلنک الا رحمت للعالمین " پر آن کر مکمل ہوا۔
اس سر زمین کا باسی، سلامتی کے دین کا ایک ادنی سا پیروکار اور انسانی تاریخ کا ایک چھوٹا سا طالبعلم ہوں۔ پچھلے دنوں انٹرنیشنل ریڈ کراس تنظیم کے زیرِ اہتمام ایک مقابلے کے لیے مقالہ لکھنے کے لیے سیرۃ النبی ص پر ازسرِ نو کچھ مطالعہ و تحقیق کا موقع ملا تو حیرت کے نئے دریچے سے کھلے اور احساسِ زیاں کا گھاؤ اور گہرا ہوگیا۔
جناب رحمت للعالمین کے اسوۃِ حسنہ کی ان کتابوں کے صفحات حلم، نرم خوئی، صلہ رحمی، شفقت و الفت، عفو و درگزر، خیر اندیشی و بھلائی اور اعلی ترین انسانی اقدار و اخلاقیات سے بھرے پڑے تھے۔ جو کوئی ان مسلمان سے لے کر غیر مسلم ادیبوں تک نے ان محاسن کو اسلام کی ترویج کا محور قرار دیا۔ اخلاقِ نبوی ص کو دیکھ کر جانی دشمن اسلام قبول کر لیا کرتے۔ جنابِ رحمت للعالمین کی اسی سیرت کو خدا نے انسانیت کے لیے اسوہِ حسنہ کہا۔ اسلام اس اسوہ حسنہ کی مشعل تھام کر ایشیا پہنچا جہاں اسکے نام پر یہ ملک وجود میں آیا۔
سیرت کی یہ کتابیں پڑھتے ٹی وی چلایا تو سرگودھا میں ایک ہجوم دکھائی دیا۔ سب سے اندوہناک بات یہ تھی کہ اس میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ الامان الحفیظ، جنابِ رحمت للعالمین کے نامِ اقدس کے نعروں کے سنگ اینٹیں، پتھر، ڈنڈے، چھڑیاں پکڑ کر کسی کو توہینِ مذہب کی سزا سنا رہے تھے اور اذیت ناک ترین موت دے کر ایک پورے گھرانے کو بے یارو مددگار کر رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ بوٹوں کی دکان لوٹ رہے تھے۔ میرے ہاتھ میں پکڑی کتاب رونے لگی۔ رو رو کر ہلکان ہونے لگی۔ چند روز بعد مرنے والے کی بیوی بھی صدمے سے چل بسی۔
اور پھر اسکے کچھ ہی دن بعد مدین سوات میں ایک شخص کو مبینہ توہینِ قرآن کے جرم میں پولیس کی حراست سے نکال کر گولیاں ماری گئیں ہتھوڑے کے ساتھ سر کچلا گیا اور پھر پھر لاش کو آگ لگا دی گئی۔ او میرے خدایا۔
پچھلے دس سال کے وہ سارے واقعات یاداشت کے کیل کانٹے بن کر ذہن میں چبھنے لگے۔ سیرت النبی ص کی کتابیں دھاڑیں مارنے لگیں۔ وہ ہجرت کرکے جانے والے نبی ص کے نام پر بننے والے ملک میں ہجرت کرکے آنے والے سری لنکن کی قینچیوں سے کٹی پھٹی جلی ہوئی لاش، وہ جانی دشمن سپاہ سالار کو معاف کرنے والے پیغمبر کی ناموس کی آڑ میں اپنی ذاتی دشمنی پر قتل کرنے کے قبیح سانحات، وہ خود پر اونٹ کی آلائش پھینکنے والوں کو بددعا نہ دینے کی تاکید کرتے عظیم رسول ص کے نام پر جڑانوالہ میں بہیمانہ قتل و غارت، وہ طائف میں پتھر کھا کر لہو لہان ہاتھوں کو دعا میں اٹھانے والی ہستی کے نام پر خانیوال میں درخت سے لٹکا کر پتھروں سے مسل دیا جانے والا بے چارہ ذہنی مریض امتی۔ یا الہی، اے پروردگار، اے مالک رحم۔
ان تمام واقعات پر طالبعلم منتظر رہا کہ "انبیاء کے ورثا" اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے دینِ سلامتی پر پڑتے انسانی لہو کے چھینٹوں کی مزمت کریں گے۔ فروعی و گروہی معاملات پر دکھائی گئی حساسیت کا نصف ہی یہاں ظاہر کریں گے۔ لوگوں کو بتائیں گے کہ اسلام میں اسطرح گلیوں، چوکوں، چوراہوں میں الزام لگا کر کسی کی جان لے کر ایک پورے خاندان کو اجاڑ دینا دراصل فتنہ و فساد جسکی سزا موت ہے۔ لیکن آپ حضرات کہیں کھیرا کاٹنے کے مسنون طریقے بتا رہے تھے، کہیں دور کسی ملک کے لیے چندہ جمع کر رہے تھے، کہیں دوسرے فرقے سے مناظرے کر رہے تھے، کہیں اپنے یوٹیوب چینل کے لیے ملین سبسکرائیبر پر جشن منا رہے تھے، کہیں"ملک بینک " کے خلاف فتوے دے رہے تھے، کہیں عید کا چاند دیکھ رہے تھے تو کہیں کسی یونیورسٹی کا کوئی سائینسی ایوارڈ روکنے کے لیے دھمکیاں دے رہے تھے۔ ترجیحات جنابِ والا۔۔ ترجیحات
پچھلے دنوں کہیں لکھا تھا۔ نامہِ اعمال جو پردہ سکرین پر روزِ محشر چلنے تھے ہم نے یہیں انکا ریکارڈ جمع کرنا شروع کر دیا۔ ذاتی حیثیت کا تو ہر کوئی خود مکلف ہے مگر یہ کیا کہ آج کسی کو پتھروں، لاٹھیوں، کینچیوں، چھریوں اور گولیوں سے اذیت ناک ترین موت دیتے اور پھر لاشوں کی بے حرمتی تک کرتے لوگ " نام رحمت للعالمین ص" زبانوں پر لاتے ہیں تو دل کیا روح تک کانپ جاتی ہے۔ کون مانے گا ان کتابوں کو جو بین کر کرکے مسلمانوں کو یاد دلا رہی ہیں کہ اسوہِ حسنہ یہ نہ تھا۔ کوئی رحمت للعالمین کا معنی و مطلب تو جانے۔ اسلام کو سلامتی کا دین اور امن کا مذہب کیا ان ویڈیوز کو دیکھ کر کوئی مانے گا۔ کتنا بڑا نقصان ہے جو اس دین اور اس سماج کا جو ہم اپنے ہی ہاتھوں سے کر رہے ہیں۔
میں طالبعلم آپ عالم۔ پچھلی دو دہائیوں میں جو بارودی سرنگیں انسانی رگوں میں بچھائی گئیں وہ سب نے دیکھیں۔ اپنے اپنے چولہے کے لیے کیسے اس سر زمین کو جنت کے جھانسے میں دوزخ بنایا گیا وہ سب جانتے ہیں۔
جب یہاں پہلا ہائی پروفائل قتل ہوا تھا تو قاتل کے بقول قتل کے لیے اکسانے والے مفتی صاحب اپنے آج بھی یوٹیوب پر موجود بیان ہی سے مکر گئے تھے۔ گولیوں سے بھوننے کی باتیں کرنے والے عدالت میں"بارود نہیں درود" کہہ کر قاتل کو پھانسی گھاٹ تک چھوڑ آئے پھر اس کی لاش پر کیمرے لے کر پہنچ گئے۔ اپنے عمامے اسکے پیروں میں رکھنے کی اداکاری کرنے لگے۔ اس قتل پر قاتل کے نام سے سیاسی، مذہبی اور معاشی مفادات حاصل کرنے کے لیے ایک جماعت تو باقاعدہ اس لہو سے سرخرو ہونے کے لیے میدان میں اتری تھی لیکن باقیوں نے بھی مقتدرہ کے ملک میں بنائے گئے اس نئے "ووٹ بینک" کی دیگ میں سے اپنا حصہ بٹورنے کے لیے جھولی پھیلائی تھی۔ مذہبی سیاست کرنے والے جو ایک دوسرے کے پیچھے خدا کی نماز تک نہیں پڑھتے اس نئی ووٹ بینک کی دیگ بٹتے اکٹھے ہو گئے تھے۔ کتنے کرب کی بات ہے کہ ملک کے سب سے بڑے مفتی صاحب نے کہا تھا "ٹھیک ہے مقتول نے توہینِ رسالت ص نہیں کی لیکن قاتل کو نیت کا ثواب بہرحال ملے گا " اندازہ کیجیے مشرک کی جان ناحق لینے کی سخت ممانعت کرتا دین ایک کلمہ گو کے ناحق قتل پر نیت کا ثواب دے گا۔ معاذاللہ۔ ایک مشہور عالم اور موجودہ یو ٹیوبر نے اس معاملے پر اپنے طلباء سے کہا تھا "بھئی اس معاملے میں ادھار نہیں رکھنا"۔
ایسے میں ایک حق گو زبان تھی جس نے یہ کہا تھا کہ خدارا اسکی اجازت نہ دیجیے کہ ایسا کرنے سے گلی گلی مقتل بپا ہونگے اور یہ سرزمین فساد اور خونریزی کی آماجگاہ بن جائے گی۔ اسے منکرِ حدیث کہنے لگے۔ اور صد حیف کہ وہی ہوا۔ آج آئے روز یہ سانحات اس سرزمین کو ایک مقتل بنائے دے رہے ہیں۔
کیسے پوچھوں یہ سوال کہ کہیں اس پر بھی کوئی فتویٰ نہ آن لگے۔ فرشتوں کے احتمال پر عالم الغیب خدا کا علم ہی غالب آنا چاہیے تو پھر آج اس خونریزی اور فساد کے تدارک کی ذمہ داری کس پر ہے؟ کیا آپ ہی پر نہیں جنہوں نے اپنے مسلکی، سیاسی، معاشی اور گروہی مفادات کی خاطر اس سرزمین کو ایک مقتل بنا دیا۔ آج چوکوں، چوراہوں، گلیوں بازاروں میں اپنی عدالتیں لگاتے لوگوں کو "سر تن سے جدا" کی ترغیب کس نے دلوائی۔ کس نے لوگوں کے دلوں میں اتنا زہر بھرا کہ پولیس کی تحویل سے نکال کر ملزم کو مار کر خود کو حنفی مسلمان کہتے ہیں اور توہینِ مذہب پر امام ابو حنیفہ کی تعلیمات کی سریعاً خلاف ورزی کرتے ہیں۔ کس نے انہیں یوں ملزم سے پہلے اسلام کے بنیادی اصول عدل و انصاف کے قتل کا لائیسنس دیا۔
خدا کا واسطہ، اسکے رسول ص کا واسطہ، اب وقت آ گیا ہے "ربنا ظلمنا انفسنا " کہہ کر پورے ملک کے علما ایک کانفرنس منعقد کروائیں اور بیک زبان "وما ارسلنک الا رحمت للعالمین" کے فلسفے کو اجاگر کریں۔ واضح اعلامیہ جاری کریں کہ یہ دینِ سلامتی میں اسطرح کے ظلم کی کوئی گنجائش نہیں کہ کسی پر محض الزام عائد کرکے اسکی جان، مال، عزت کی حرمت پامال کی جائے۔ قانون ہاتھ میں لینے والوں سے "قصاص" کے اسلامی قانون کے تحت نمٹا جائے گا۔ کسی دھرنے اور مزاکرات میں ایسے مجرموں کی رہائی کے غیر شرعی مطالبات نہیں رکھے جائیں گے۔ کسی بھی قسم کی شکایت پر ریاست کے نام درخواست کے علاوہ ملزم کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی۔ حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ سیاسی و گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر چوکوں چوراہوں میں عدالتیں لگا کر جلاد بننے والوں کے خلاف انہی چوکوں چوراہوں میں خصوصی عدالتیں لگا کر قاتلوں کو قرار واقعی سزائیں دلوائے گی۔
خدا نے کہا تھا "جو میں جانتا ہوں تم نہیں"۔ اس سماج کا ایک ادنی ترین طالبعلم اگر اس جانکاری پر یہ قیاس کر سکتا ہے تو آپ تو خدا کے اس علم کے عالم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، انبیاء کے وارث کہلواتے ہیں۔ خدارا اس دھرتی پر اس دینِ سلامتی کے تشخص کو بچا لیجیے اور اس سماج کو ایک کامل مقتل بننے سے بچا لیجیے۔ وگرنہ وہ دن تو آئے گا ہی جب اس "عالم الغیب و شہادۃ" کی عدالت لگے گی، اس دن کہیں وہ اپنے انہی فرشتوں کے سامنے ہم انسانوں سے نہ کہے کہ "جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے "
رہے نام خدا کا۔
ایک طالبعلم