9 Lakh Ki Azmat Aur Awam Ka Qarz
نو لاکھ کی عظمت اور عوام کا قرض
پاکستان میں سیاست دانوں کی کارکردگی کی مثال ایسے ہے جیسے ایک کہانی کا وہ کردار جو دن میں چاندی چمکاتا ہے اور رات میں سونے کی خواب دیکھتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب اسمبلی کے اراکین نے اپنی تنخواہوں میں ایسا اضافہ کیا کہ عوام کے کان تو جل ہی گئے، دماغ بھی بھاپ بن کر اڑنے لگا۔ ارکان اسمبلی کی تنخواہیں 76 ہزار روپے سے بڑھا کر چار لاکھ روپے کر دی گئیں اور وزرا نے اپنے حصے کا "عدل" کرکے اپنی تنخواہیں ایک لاکھ سے بڑھا کر نو لاکھ ساٹھ ہزار کروا لیں۔ عوام کی حالت؟ وہ وہیں کی وہیں ہے، بلکہ اس سے بھی بدتر۔
یہ کوئی عام اضافہ نہیں، بلکہ ایک ایسا جشن ہے جو شاید کسی شاہی محل میں بھی نہ ہو۔ جن اراکین اسمبلی کو ایک دوسرے کی شکل دیکھنا پسند نہ تھا، وہ اب ایک دوسرے کو گلے لگا رہے ہیں۔ وہ اراکین جو چند دن پہلے ایک دوسرے کے خلاف آگ اگل رہے تھے، اب مبارکبادوں کے تبادلے کر رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ عوام کی فلاح کے لیے نہیں، اپنی جیبوں کے وزن کے لیے اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔
یہ اضافہ صرف تنخواہوں تک محدود نہیں۔ مراعات کا طومار بھی ساتھ ہے۔ مفت علاج، ہوائی سفر، گاڑیاں، پٹرول اور سرکاری رہائش گاہیں، یہ سب ان کے لیے ہے جو پہلے ہی کروڑوں کے مالک ہیں۔ عام آدمی کے لیے؟ کچھ نہیں۔ وہ اب بھی دو وقت کی روٹی کے لیے جدو جہد کر رہا ہے۔ اسے سبزی اور آٹے کی قیمت سے غرض ہے، لیکن حکمرانوں کو صرف اپنے نئے تنخواہوں کے ہندسے سے۔
اب اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ تنخواہوں کا اضافہ صرف پنجاب تک محدود ہے، تو آپ شاید بہت معصوم ہیں۔ باقی صوبے کب پیچھے رہتے؟ بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا، سب اپنی اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔ یہ اضافہ ایک "مثالی" اتحاد کی مثال بن گیا ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف، جو کبھی کسی بات پر متفق نہیں ہوتے، اس معاملے پر ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوام کہاں ہیں؟ ان کے حقوق کا دفاع کون کرے گا؟ شاید کوئی نہیں۔ جب منتخب نمائندے اپنی تنخواہوں میں نو سو فیصد اضافہ کر لیں، تو وہ عوام کے مسائل کے بارے میں کیا جانیں؟ ان کا احتساب کیسے کریں گے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سارے سیاست دان ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہی طبقہ جو عوام کا خون نچوڑ کر اپنی جیبیں بھرتا ہے۔
یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کے دروازے پر بھیک مانگ رہا ہے۔ وزیر خزانہ واشنگٹن جا کر مالی مدد کی درخواست کرتے ہیں اور چند ہفتے بعد، وہی حکمران اپنی تنخواہوں میں بے مثال اضافہ کر لیتے ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کا مذاق بن رہا ہے، لیکن انہیں اس کی کوئی پروا نہیں۔ ان کے لیے عوام کا پیسہ ایک کھلونا ہے، جسے وہ جب چاہیں توڑ سکتے ہیں۔
پاکستان کے عوام کے لیے یہ صورتحال ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ وہ لوگ جو اپنے بچوں کے سکول کی فیس تک ادا نہیں کر سکتے، انہیں یہ دیکھ کر کیسا محسوس ہوتا ہوگا کہ ان کے حکمران نو لاکھ کی تنخواہ لے رہے ہیں؟ یہ حکمران وہ ہیں جو مہنگائی کی بات کرتے ہیں، لیکن خود کسی بھی بحران سے متاثر نہیں ہوتے۔ ان کے لیے ہر چیز دستیاب ہے اور عوام کے لیے صرف مسائل۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ عوام کب تک یہ سب برداشت کریں گے؟ کب تک وہ ان حکمرانوں کو برداشت کریں گے جو صرف اپنے مفادات کی فکر کرتے ہیں؟ شاید اس وقت تک، جب تک عوام کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ ان سب کے غلام ہیں۔
ایک وقت تھا جب عوام نے ان سیاست دانوں پر اعتماد کیا تھا، لیکن اب یہ اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ عوام کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے مسائل کا حل ان سیاست دانوں کے پاس نہیں ہے۔ یہ لوگ صرف اپنی جیبوں کے لیے کام کرتے ہیں، نہ کہ عوام کی فلاح کے لیے۔
لیکن اس کا حل کیا ہے؟ عوام کو بیدار ہونا ہوگا۔ انہیں اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے، تو یہ حکمران ان کی حالت کو مزید خراب کرتے رہیں گے۔ عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے مسائل کا حل ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ اگر وہ اپنی آواز بلند کریں گے، تو شاید کوئی تبدیلی آئے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عوام اپنی حالت کو بدلنے کے لیے کچھ کریں۔ اگر وہ اپنی خاموشی کو توڑیں گے، تو شاید یہ حکمران ان کے مسائل پر توجہ دیں۔ اگر وہ اپنی جیبوں کی فکر چھوڑ کر عوام کی فکر کریں گے، تو شاید کچھ بہتری آئے۔ لیکن اس کے لیے عوام کو خود کھڑا ہونا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے، تو یہ حکمران اپنی تنخواہوں میں اضافے کرتے رہیں گے اور عوام مزید غریب ہوتے رہیں گے۔
یہ سب کچھ ختم نہیں ہوگا جب تک عوام اپنی طاقت کو پہچان نہیں لیتے۔ یہ وقت ہے کہ عوام ان حکمرانوں کو بتائیں کہ ان کا کام عوام کی خدمت کرنا ہے، نہ کہ اپنے مفادات کی حفاظت۔ اگر عوام کھڑے ہوں گے، تو یہ حکمران اپنے رویے کو بدلنے پر مجبور ہوں گے۔ لیکن اگر عوام خاموش رہیں گے، تو یہ کھیل ہمیشہ جاری رہے گا۔
تو عوام، جاگ جاؤ۔ یہ وقت ہے کہ تم اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لو۔ یہ وقت ہے کہ تم ان حکمرانوں کو بتاؤ کہ تم ان کے غلام نہیں ہو۔ یہ وقت ہے کہ تم اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہو۔ کیونکہ اگر تم یہ سب کچھ نہیں کرو گے، تو یہ حکمران تمہیں ہمیشہ کے لیے اپنی جیبوں کا کھلونا بنا دیں گے۔