X-Wife Ki Tareef Kaise Ki Jaye
ایکس وائف کی تعریف کیسے کی جائے
یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ عدالت کی سیڑھیوں میں کھڑے میں ہم نے ایک دوسرے کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا۔ کبھی نہ محسوس کی جانے والی حسرت۔ پلٹ کر دیکھنے کی خواہش کے باوجو دضبط کیے میں نیچے اُترا۔ بائیک اسٹارٹ کی اور سیدھا گھر کی راہ لی۔ اس دن عدالتوں کے چکر سے نجات مل گئی۔ آئے روز کی خواری سے رہائی مل گئی۔ ہر وقت کی بے چینی اور بے قراری سے راحت مل گئی۔ عمر بھر ساتھ نبھاہنے کی قسموں، وعدوں، یقین اور دلاسوں کی اذیت سے فرار مل گئی۔
اس دن گویا کائنات میں سب سے زیادہ خوش اور غمگین ہم دونوں تھے۔ خوشی بھی حد درجہ تھی اور غم بھی ناقابلِ برداشت تھا۔ ایک ساتھ جو ہمیشہ کے لیے چھوٹ گیا۔ ایک اذیت جو بحر حال ختم ہوگئی۔ کچھ دن تو بے کیفی اور شدید نا اُمیدی کے عالم میں گزرے۔ جیسے کچھ رہا نہیں۔ خیر وقت گزر تا چلا گیا۔ غم کی شدت کم ہوتی گئی۔
اور بھی دُکھ ہیں زمانےمیں محبت کے سِوا کے مصداق انسان دُنیا کی الجھنوں اور بکھیڑوں کےکئی عوارض پال لیتا ہے۔ کہاں یاد رہتا ہے کہ کسی سے رسم و راہِ اُلفت تھی اور ساتھ جینے مرنے کی قسموں کا پاس رہتا تھا۔ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی آگے بڑھتا ہے۔ 90 دور کی رومانوی انڈین فلموں کے زیرِ اثر تربیت پانے والے ہم دو، آوارہ پنچھی مڈل کلاس گھرانے کے باسیوں والے خواب آنکھوں میں سجانے اپنی اپنی جگہ خود کو اس وقت کامیاب تصور کر رہے تھے کہ آخر میں نے اُسے مات دے دی۔ اُس نے میری شرطوں پر ڈیل کی اور میں نے اُس کی انا کو اپنے قدموں پر جھکانے میں کامیابی حاصل کر لی۔
انسان بھی کیا عجب جانور ہے۔ ذرا سی اُنسیت ملنے پر پاؤں پھیلا لیتا ہے، چوکڑی مار کر بیٹھ جاتا ہے، اُٹھنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ کچھ کہہ لو، گالی بکو، دُشنام سُناؤ، کوسو، خواہ ڈنڈے مارو، یہ اُس جگہ کو چھوڑتا نہیں ہے جہاں سے اسے اُنس ملا ہوتا ہے۔ کتوں کی وفاداری کی مثالیں سب دیتے ہیں، تعلق کی نباہی کے معاملے میں انسان کہیں زیادہ وفادار، رہا ہے۔
ایکس وائف کے ساتھ خواہ بہت تھوڑا وقت گزرا لیکن ہر حوالے سے یادگار گزرا۔ ہم دونوں پڑھے لکھے اور باشعور تھے۔ تعلیم یافتہ اور باشعور ہونے کے ہزاروں فوائد کے باوجود پڑھاکو ہونے کے سینکڑوں نقصانات بھی ہیں۔ تعلیم یافتہ افراد اپنے ساتھی پر بھروسہ نہیں کرتے۔ کہیں نہ کہیں شک کرتے ہیں۔ اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، گاتے ہنستے حتیٰ کہ نہاتے ہوئے ایک دوسرے میں کیڑے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ مخلوق خود کو ہر طرح کے نقص سے ماورا اور پاکیزہ خیال کرتی ہے۔ بزرگوں کے اقوال اور معاشرے کے تجربات ان کے نزدیک مہمل اور لایعنی ہیں، اس لیے خود ہی فیصلے کرتے ہیں اور ان پر سختی سے عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ ہم سے بھی یہی کوتاہی سرزد ہوئی کہ ہم نے اپنے شعور کے معیار کو کمپرومائز کرنے کی کوشش نہیں کی۔ غیر محسوس طریقے سے آناً فاناً بغیر کسی ٹھوس وجوہ کےا یک دوسرے سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔
یوں ہی اتنے برسوں بعد آج خیال آیا کہ ایکس وائف کی کچھ خوشگوار یادوں کا تذکرہ کیا جائے۔ خیال تو اچھا ہے لیکن مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔ یعنی مجھے کوئی اچھی بات یاد ہی نہیں ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کتنا مشکل ہے نا! ایکس پارٹنر کے بارے میں مثبت رائے قائم کرنا۔ اُس کی خوبیوں اور صفات کا تذکرہ کرنا۔ اپنی کوتاہیوں اور کمینگیوں کا ذکر کرنا۔ جی ہاں، یہ واقعی مشکل ہے۔
اتنے سال گزرنے کے باوجود آج بھی میرے ذہن میں ایکس وائف کے بارے میں منفی تصورات ہی پائے جاتے ہیں۔ گھنٹوں بیٹھ کر سوچا ہے کہ کوئی تو خوبی ہوگی۔ کوئی خیال محبت کا، چاہت کا، اُنس کا، لگاؤ کا دل و دماغ سے بر آمد نہیں ہوسکا۔ ایک ہی خیال اُبھرتا ہے، دفعہ کرو، ہم نے اُسے سوچ کر کیا کرنا ہے۔ جو ہونا تھا، سو، ہو چکا ہے۔ گزرے پانی کو واپس لانے کی بے کار کوشش سے کیا حاصل۔ آگے بڑھو اور دُنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھو۔
مزےکی بات یہ کہ خواہ کسی دوست کے پاس بیٹھ جائیں، 95 فیصد یہی مشورہ دیتے ہیں، تم کیا ہر وقت اُسی کا رونا لے کر بیٹھ جاتے ہو، اگر اتنی اچھی تھی تو اُسے چھوڑا ہی کیوں تھا۔ بندہ کیسے بتلائے کہ اگر یہ علم ہوتا کہ وہ واقعی میرے لیے ناگزیر تھی تو رونا کس بات کا تھا۔
مڈل کلاس معاشرے میں شادی ایک معمہ حیات بن کر رہ گیا ہے۔ شادی ایک اہم فرض خیال کیا جاتا ہے اور اس کی انجام دہی کے لیے لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور ہر قسم کی فضولیات سمیت جملہ رسموں کی ادائی کو ممکن بنایا جاتا ہے لیکن کوئی اس بات کا لحاظ نہیں کرتا کہ شادی کے بعد ہونے والے لڑائی جھگڑوں کے بعد طلاق و خلع کے دنگل کو کس طرح ہینڈل کیا جائے گا۔ شادی کے موقع پر طرفین سے شادی کےموقع پر اگر متفقہ یہ تحریر بطور سند لکھوا لی جائے کہ میاں بیوی کے معاملات میں کل کو لڑائی جھگڑے کی صورت میں ہم پر طلاق و خلع کا الزام نہیں آئے گا اور ہم ان کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش نہیں کریں گے۔
ان دونوں کی اپنی مرضی ہےجب تک ساتھ چلنا چاہتے ہیں، چلتے رہیں، جب علاحدہ ہونا چاہیں، ہو جائیں۔ ہم نہ مشور دیں گے، نہ مداخلت کریں گے اور نہ کسی کی سائڈ لیں گے بلکہ نیوٹرل ہو کر خاموشی سے ان کے فیصلے کااحترام کریں گے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کرنےکی ہمت کون کرے؟ ہمارے ہاں شادی کے پروگرام تک ہنسی خوشی سبھی ذمہ داریاں نبھائی جاتی ہیں جبکہ شادی کے بعد کی صورت حال کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ ایک، دو مہینے تو سیکس کرتے اور پھرتے پھراتے گزر جاتے ہیں کہ عمر بھر کا جنسی غصہ انھیں دو مہینوں میں دن رات موقع بے موقع چاہتے نہ چاہتے خوشی و بیزاری سے نکالا جاتا ہے۔ جب لڑکے لڑکی کو ہوش آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں تو یہ نقص بھی ہے اور یہ بھی ہے اور یہ بھی ہے۔
ٹھیک تین چار ماہ بعد ذہنی اختلافات کی چنگاری پھوٹتی ہے جو سال بھر میں الاؤ بن کر ہر چیز کو راکھ کر ڈالتی ہے۔ طلاق ولاق ہونے کے بعد، ایک دوسرے کو کتا کتا کہنے کے بعد، ایک دوسرے کی شلواریں اُتارنے کے بعد، ایک دوسرے کو کورٹ عدالتوں تھانوں میں بے عزت کرنے کے بعد، ایک دوسرے پر کیچڑ اور گند اچھالنے کے بعد، ایک دوسرے کے خاندانوں کو لڑوانے کے بعد، ایک دوسرے سے مستقل روابط کے اختتام، طرفین سے یہی سننے کو ملتا ہےکہ اجی! کچھ نہ پوچھیے! ہم پرتو ظلم ہوا، ہم بے قصور ہیں، ہما را کوئی گناہ نہیں ہے، ہمیں تو ڈاکو مل گئے تھے، ٹھگوں نے ہمیں لوٹ گیا۔ ہمارے بچے/بچی کی زندگی تباہ ہوگئی۔ ہماری تو قسمت ہی پھوٹ گئی ہے۔ بس، اللہ کو یہی منظور تھا، ہم کیا کر سکتے ہیں۔
جناب! آپ اتنے بھولے نہ بنیے! آپ نے وہ سب کچھ کیا ہے جو آپ کر سکتے تھے، اس کے باوجود آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کیا، ہم مجبور اور بے بس تھے۔ مڈل کلاس معاشرے میں شادی کے بعد کی زندگی کے بارے میں لڑکے لڑکی کو کچھ بتانا اور سمجھانا ضروری نہیں خیال کیا جاتا۔ سیکس کیسے کرنا ہے اور کس طرح ایک دوسرے پر مردانگی کا رُعب قائم کرنا ہے۔ یہ ہر کوئی بتاتا ہے اور کانوں میں مشورے بھی انڈیلتا ہے اور اگلی صبح اپنے مشوروں کی عملی کارکردگی کی مثبت رپورٹ بھی طلب کرتا ہے۔
پاکستانی معاشر ے میں 95 فیصد لوگ دینی تعلیمات کو فالو نہیں کرتے جبکہ معاشرتی رسوم اور مذہبی تعلیمات کو آپس میں گڈ مڈکر دیتے ہیں جس سے سینکڑوں قباحتیں پیدا ہوتی ہیں جس کا نتیجہ طلاق و خلع کی صورت سامنے آتا ہے۔
یہ موضوع ایسا ہے کہ اس پر ہزاروں کتابیں لکھ لیں اور لاکھوں کالمز تحریر کر لیں۔ کسی منطقی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا۔ ہر شخص کا اپنا فلسفہ ہے اور ہر شخص کا اپنا تجربہ ہے۔ میں ذاتی طور پر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انسان اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے سے قاصر ہوجائے تو وہ الزام و دُشنام پر اُتر آتا ہے۔ مرد اس معاملے میں زیادہ قصور وار پائے گئے ہیں۔
خاوند عام طور پر بیوی کو قدیم معاشرت کے اُصول و ضوابط کے تحت ٹریٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ عورت خود کو ماڈرن لائف اسٹائل کے ساتھ ٹریٹ ہونے کی خواہش رکھتی ہے۔ دل و جان سے ایک دوسرے کو قبول کرنے کےباوجود ایک دوسرے پر شک اور بے یقینی کی فضا ہر وقت قائم رہتی ہے۔ طلاق و خلع کی 70 فیصد وجوہات جنسی نا آسودگی ہے اور15 فیصد مالی مسائل نیز15 فیصد والدین/بزرگوں /ماحول و اطوار کی مداخلت و غلبے کی ہے۔
بات ایکس وائف کی ہو رہی تھی اور میں سیکس کی طرف آگیا۔ بھئی! سچی بات یہ ہے کہ ہماری ایکس وائف میں بیسویوں خوبیاں اور صفات موجود تھیں اور ہنوز ہیں۔ ہم ہی ایک نمبر کے کمینے، جھوٹے، فراڈیے اور دغاباز تھے۔ ہم نے ہر وہ ظلم، زیادتی اور جور، اُس پر روا، رکھا جو ہمیں کسی صورت زیب نہیں دیتا تھا۔ وہ خاتون ہمارے ساتھ ہر موقع پر تعاو ن کرنے کی کوشش کرتی رہی اور اپنی وفاداری کا عملی مظاہرہ بھی کرتی رہی لیکن ہم نے اپنی انا کی تسکین اور بزرگروں کی شان کو کمپرومائز کرنا گوارا نہیں کیا۔ نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا۔ اب پچھتائے کیا ہُوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔
اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور یہ مان لینا کہ میں قصوروار ہوں اور مجھے اس کی سزا ملنی چاہیے یہ اعتراف تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ ہمارے ایک عزیز کہتے ہیں، مڈل کلاس معاشرے میں یہ دستور رائج ہے کہ جھوٹ اس قدر اعتماد سے بولیں کہ سننے والا سچ تسلیم کر لے اور غلطی پر ہونے کے باوجود اس قدر ڈھٹائی سے اپنی بے گناہی کا راگ الاپے کہ سامنے والا خود کو قصور وار ٹھہرانے پر آمادہ ہو جائے۔
مڈل کلاس ہمیشہ مڈل کلاس کیوں رہتی ہے، اس لیے کہ ان کے ذہنوں میں غربت و عُسرت کی احساسِ کمتری کے اندیشوں ساتھ داد و تحسین کا ناقابلِ علاج کمپلیکس ہوتا ہے۔ یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ذہنی معیار کے توازن کو بیلنس کرکےکہنہ رسوم وتصورات سے جان چھڑا لیں۔ پُرکھوں کی جہالت پر مبنی قصے کہانیوں کے غلبے سے خانگی نظام کو آزاد کروالیں۔
ہمارے بزرگ لکیر کے فقیر بنے، جمے جمائے نظام کو فالو کرتے آئے ہیں اور اپنی اُولادوں کے لیے بھی اسی فرسودہ نظام کو مثالی قرار دے کر ان کی زندگی کو جہنم بنانے کی کوشش میں بر سر پیکار ہیں۔ کوئی خوش قسمت اس پاگل خانے سے نکل گیا تو نکل گیا ورنہ یہیں سر مار، مار کر خود کو ہلکان کر لے گا۔ کوئی داد رسی کرنے والا اور رہائی دلانے والا موجو د نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بہت ہو چکا، اس کہنہ خانگی نظام کو خیر آباد کہہ دینا چاہیے۔ تعلیم یافتہ اور باشعور ہونے کے باوجود اگر ہم انھیں فرسودہ اور کہنہ رسوم و عقائد سے متصل خانگی نظام کو جاری رکھنے کی کوشش کریں گے تو دُنیا میں کہیں کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کر سکیں گے۔ گھر کا سکون تو جائے گا، خاندانی شناخت کی انفرادیت بھی ہمیشہ کے لیے مٹ جائے گی۔