Yaroshalam Aur Tel Aviv Mein Mulaqaten
یروشلم اور تل ابیب میں ملاقاتیں
یروشلم اور تل ابیب کے دورے میں ہر رات ڈنر ایک مختلف ریسٹونٹ میں کیا۔ ہر بار ہمرے میزبانوں نے کئی دانشوروں کو بھی مدعو کیا تاکہ ایک دوسرے کے بارے میں جاننے اور خیالات سے اگاہی کا موقع ملے۔
اتوار کی شب ایک برازیلی ریسٹورنٹ میں دعوت تھی جس کا نام پاپاگائیو تھا۔ یہاں شراکہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈین ففرمین سے ملاقات ہوئی۔ وہ اسرائیلی وزارت دفاع میں مشیر اور ایک دو تھنک ٹینکس میں بطور تجزیہ کار کام کرچکے ہیں۔ انھوں نے ہمیں اسرائیلی معاشرے کے بارے میں مفید معلومات فراہم کیں جو بعد میں دوسرے دانشوروں سے ملاقاتوں میں سوالات کی بنیاد بنیں۔
پیر کو ڈنر پر اسرائیلی وزارت خارجہ میں ساوتھ ایسٹ ایشیا ڈیسک کی ڈائریکٹر میخال ویلر تل سے ملاقات ہوئی۔ اتفاق سے میری نشست ان کے برابر میں تھی اس لیے کافی گفتگو ہوئی۔ وہ بے حد خوش اخلاق خاتون ہیں اور پاکستان کے بارے میں نیک خیالات رکھتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انڈونیشیا جیسے کئی مسلمان ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے لیکن ان کے وفد غیر رسمی طور پر اسرائیل آتے رہتے ہیں۔ کچھ گفتگو آف دی ریکارڈ ہوئی۔
منگل کو یروشلم پریس کلب کی جانب سے ڈنر تھا۔ وہاں وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ یعنی تین چار رپورٹرز نے انٹرویو لیا اور بعد میں انگریزی اور عبرانی میڈیا میں چھاپا۔ ممتاز صحافی اور دانشور بین درور یمنی مہمان خصوصی تھے جو اعتدال پسند نظریات رکھتے ہیں اور فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کے مخالف ہیں۔ پی ایل او کے رہنما ان کے دوست ہیں۔
بدھ کا کھانا سب سے زیادہ دلچسپ مقام پر تھا اور اتنا ہی بدمزہ۔ ریسٹورنٹ کا نام تھا۔ نمستے جو اسرائیلی شہر اشدود میں ہے۔ یہاں دال، سبزی، چکن اور بریانی منگوائی گئی۔ ان میں سوائے دل کے کسی کا ذائقہ اچھا نہیں تھا۔ بریانی کے نام پر ابلے ہوئے چاول تھے۔ اسرائیلی کھانے اس کے مقابلے میں ہزار گنا پسند آئے۔
نمستے ریسٹورنٹ کے مالک انڈین یہودی جوئل ہیں جو کلکتہ میں رہے اور چار عشرے پہلے اسرائیل آبسے۔ ان کے باورچی دہلی کے سکھ تھے جن سے مجھے کچھ دیر بات کرنے کا موقع ملا۔ جب سنا کہ ہم امریکا سے آئے ہیں تو پوچھا کہ ہمیں وہاں کا ویزا کیسے مل سکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ خوش نہیں ہیں لیکن انڈیا واپس جانے کے بجائے آگے جانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اسرائیل میں بہت زیادہ انڈینز ہیں اور ملازمت کے لیے مزید آتے جارہے ہیں۔
معاملہ یہ ہے کہ اسرائیل کو بڑی تعداد میں کام کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ حالیہ لڑائی سے پہلے غزہ کے سترہ اٹھارہ ہزار فلسطینی اسرائیل میں کام کررہے تھے۔ غزہ میں ایک عام فلسطینی یومیہ دس ڈالر کماتا ہے لیکن اسرائیل میں انھیں ایک سو دس ڈالر ملتے تھے۔ سات اکتوبر کے حملوں کے بعد سب پر پابندی لگ گئی۔ ان کی جگہ دوسرے ملکوں سے کارکنوں کو ملازمتیں دی گئی ہیں اور انڈیا کے لوگ بڑی تعداد میں فیض یاب ہوئے ہیں۔
اس ڈنر پر اسرائیلی سوشل میڈیا انفلوئنسر ارمیا ڈینزگ سے ملاقات ہوئی جو نیویارک میں پلے بڑھے لیکن ان کے والدین شاید گیانا میں رہے۔ گیانا میں بہت بڑی تعداد میں ہندو اور ہندوستانی نژاد افراد آباد ہیں۔ ارمیا عبرانی، عربی اور انگریزی بولتے ہیں لیکن ہندی اردو بھی سمجھ لیتے ہیں۔
جمعرات کو ایک لیبیائی ریسٹورنٹ میں ڈنر ہوا جہاں اسرائیلی عربوں سے ملنے کا موقع ملا۔ ان میں مسلمان اور میسحی دونوں شامل تھے۔ ٹونی نصر ایک تنظیم عتیدنا کے رہنما ہیں جو اسرائیلی عربوں اور یہودیوں کے درمیان بہتر تعلقات کی کوششیں کرتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ اسرائیلی عرب ہونے کی وجہ سے کیا یہ آپ کا فرض نہیں کہ فلسطینی بھائیوں اور اسرائیل میں امن کے لیے کوشش کریں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایسی کوششیں کرتے رہے ہیں لیکن حماس کے حملوں کی وجہ سے ان کی کوششیں متاثر ہوئی ہیں۔
اسرائیل میں عربوں کی آبادی اتنی ہی ہے جتنی غزہ میں، یعنی بیس لاکھ سے زیادہ۔ یہ لوگ پرامن طور پر اسرائیل میں رہتے ہیں اور انھیں شہریوں والے تمام حقوق حاصل ہیں۔ موجودہ اسرائیلی پارلیمان میں اسرائیلی عربوں کی تعداد 10 ہے۔ صرف مسلمان جماعتیں نہیں، اسرائیل کی لبرل اور کمیونسٹ پارٹیاں بھی عربوں کو پارلیمان بھیجتی رہی ہیں۔