Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Taqadus Dimagh Mein Hota Hai

Taqadus Dimagh Mein Hota Hai

تقدس دماغ میں ہوتا ہے

تقدس کسی شے میں نہیں ہوتا، کوئی شخص مقدس نہیں ہوتا۔ یہ ماننے والے کے دماغ میں ہوتا ہے۔ تقدس دماغ میں ہو تو آزادی سے سوچنے کی اجازت نہیں دیتا۔ جو لوگ آزادی سے نہیں سوچ سکتے، وہ بہت سے معاملات میں دوسرے افراد سے، دوسری قوموں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔

رسول اللہ ہمارے لیے مقدس ہستی ہیں، یہودیوں کے لیے نہیں۔ قرآن ہمارے لیے مقدس ہے، مسیحیوں کے لیے نہیں۔ کعبہ ہمارے لیے مقدس ہے، ہندوؤں کے لیے نہیں۔

آپ دوسروں کے مقدسات کا مذاق اڑاتے ہیں، وہ آپ کے مقدسات پر ہنستے ہیں۔ یہ جیسے کو تیسا والا معاملہ نہیں۔ سمجھنے والی بات وہی ہے کہ تقدس کسی شے یا شخص میں نہیں، آپ کے دماغ میں ہے۔

یہ تسلیم کرلینا بہتر ہے کہ جو آپ کے دماغ میں ہے، کسی دوسرے سے اس کو اسی طرح منوانا ممکن نہیں۔

آپ نہایت آسانی سے توریت اور انجیل میں تحریف کا دعوی کردیتے ہیں کیونکہ آپ کے ذہن میں ان کا وہ تقدس نہیں، جو قرآن کا ہے۔ تقدس ہوتا تو آپ نہ ایسی بات خود کرتے، نہ کسی کو کرنے دیتے۔

کسی شخص، کتاب یا واقعے کو مقدس ماننے والے افراد ان پر تنقیدی نظر ڈالنے کے اہل نہیں ہوتے۔

کوئی یہودی کہے کہ ہم نے توریت اور تالمود کی اچھی طرح تحقیق کرلی ہے اور ان میں کوئی تحریف نہیں ہوئی تو کیا یہ دعوی قبول کیا جاسکتا ہے؟

اس دعوے کو غیر ہی پرکھے گا اور وہی سوال اٹھائے گا۔ آپ کو غصہ آئے گا تو اس کا مطلب ہے کہ سوال درست اٹھایا گیا ہے۔ آپ غصہ کیے بغیر جواب تلاش کریں گے تو بات آگے بڑھے گی۔

مسلمان علما کہتے ہیں کہ اعتراضات کے جواب ماضی میں دیے جاچکے ہیں اور معاملہ طے ہوچکا ہے۔ جناب، کچھ طے نہیں ہوا۔ اگر طے ہوچکا ہوتا تو قرآن کی ہر کچھ عرصے بعد نئی تفسیر نہ آرہی ہوتی۔

جب ایک متن کی بار بار تشریح کی جاسکتی ہے تو بار بار سوال بھی اٹھائے جاسکتے ہیں۔ ماضی کے جواب ماضی کے علم اور قدیم ذہانت کے مطابق تھے۔ پرانے متن پر پرانے سوال دوبارہ اٹھائے جائیں گے تو جدید علم اور جدید ذہانت کے مطابق جواب ڈھونڈنا پڑیں گے۔

Check Also

Kitabon Ka Safar

By Farnood Alam