Thursday, 04 July 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aisha Fawad
  4. Be Fikar Bachpan

Be Fikar Bachpan

بےفکر بچپن

بےفکر بچپن کب فکروں والی زندگی میں بدل جاتا ہے پتا ہی نہیں لگتا۔ ساتھیو ں کے ساتھ گلیوں اور کوچوں میں کھیلتے کھیلتے ہم کب ان گلیوں میں جا نے سے کترانے لگتے ہیں، گھبرا نے لگتے ہیں، سمجھ ہی نہیں آتی۔ پرانے تعلق جو کبھی سکھ دکھ کے ساتھی تھے، جن کو دیکھتے نہیں تھے تو گویا دن نہیں شروع ہوتا تھا اب انکی آواز سننے کوبھی ہما رے پاس وقت نہیں ہے۔ اپنی پہچان کھونا اور اپنی شناخت اپنے ہاتھو ں سے مٹانا، یہ کتنی افسوسناک بات اور لمحہ فکریہ ہے، کاش! ہم یہ جان سکیں۔

کیا کبھی ہم نے اپنی مصنوعی رنگوں، زبردستی بنائے گئےتعلقات اور جعلی مسکراہٹوں سے مزین زندگی کو پرکھا ہے کہ یہ بے سکوں کیوں ہے؟ دل میں ہر وقت کس چیز کی چبھن ہے؟ مسکراہٹیں کھوکھلی کیوں ہیں؟ مانوس دستکوں سے ہمارے دروازے محروم کیوں ہیں؟ چھٹی اب ویسی کیوں نہیں لگتی جو بچپن میں لگتی تھی جس کا انتظار ہفتے کے پہلے دن سے ہی ہوتا تھا اور لگتا تھاگویا چھٹی کی نہیں، جشن کی آمد ہے۔ اب گرمیاں زیادہ دشوار کیوں لگتی ہیں؟ پھلوں کے ذا ئقے بدل کیوں گئے ہیں؟ لمبی دوپہریں اب جدائی کی تپتی رتیں کیوں بن گئی ہیں۔ خود سے باتیں کرتے ہیں، یا الہی یہ کیا ماجرا ہے؟

کبھی دل میں کسک سی اٹھتی ہے، کبھی کسی اپنے کی مانوس آواز، مسحور کن خوشبو اردگرد چکرانے لگتی ہے۔ کبھی خود بول ا ٹھتے ہیں۔

یادِ ماضی عذاب ہےیارب
چھین لے مجھ سےحافظہ میرا

کبھی جو دو پل کو رکوں تو یادوں کےدَر یچوں سے بہت سے پیارے چہرے آنکھ مچولی کھیلنے لگتے ہیں۔ انکی ہنسی کی قِل قِل چار سو پھرتی ہے اور سوال کرتی ہے کب تک ہم سے بھاگو گے؟ کبھی تو تمہاری خوش فہمی کا غبارہ پھٹ ہی جائے گا تو اس وقت تو ہم دھندلی یاد یا قصّہ پارینہ بن چکے ہوں گے اور تم چاہ کے بھی اس دور کو نہ پا سکو گے۔ آہ! کیا دور تھا جس کو ہم بچپن کہتے ہیں۔ نہ فکر فردا تھی نہ فکر معاش تھا۔ نہ اچھا بننے کی فکر تھی نہ مقابلے کی دوڑ تھی۔

تیز بھاگتے بھاگتے گرتے تھے تو اٹھانے والے بہت تھے۔ واری جانے والی ماں تھی تو قربان جانے والا باپ تھا۔ موسم تو تب بھی رنگ بدلتے تھے مگر اب کے لوگوں سے کم۔ اتنے رنگ شاید قوس قزح کے نہ ہوں جتنے رنگ میری ماں کے روشن چہرے پر آتے تھے مجھے دیکھ کر۔ گرمی کی یہ تپتی دوپہریں تب کیوں اتنی چبھتی نہیں لگتی تھی، سورج تب بھی نکلتا تھا مگر ہماری زندگی کو روشن کرنے کے لیے، اسکی چمک آنکھوں کوخیرہ تو کرتی تھی مگر اب کی طرح آنکھ کو دھندلا نہیں کرتی تھی۔

گرمیوں کی چھٹیاں آتیں تو گویا ہم سب ماں باپ کے اور لاڈلے ہو جاتے تھے۔ وہ خنک اور تاریک کمرے ہمارے لیے بہت سی یادیں سمیٹے تھے۔ ان میں بسنے والے مکین بھی اب یا تو کہیں دور جا بسے اور یا انہوں نے شہر خموشاں کو اپنا مسکن بنا لیا اور شہر خموشاں تو بے جان اور بے رحم مسکن ہے جدھر نہ تو کوئی چھٹی جاتی ہے اور نہ وہاں سے کوئی سندیس آتاہے۔ جو وہاں چلے گئے بس اب وہ ایک خواب ہی ہیں یا قصّہ پارینہ۔

خیر تو بات تھی ان پرانی گرمیوں کی جب ہر پھل ذا ئقہ دار تھا، اس کی خوشبو بھینی بھینی اور اسکا رس میٹھا تھا۔ ان خنک کمروں میں ہماری ماؤں کے دوپٹےکی خوشبوتھی، ہمارے ماں باپ کی محنتوں کی لازوال مثالیں تھیں۔ تبھی تو وقت میں برکتیں تھیں۔ زندگی آسان تھی، رشتو ں میں مٹھاس تھی اور خالص پن تھا۔ گلیوں اور کوچوں میں بزرگوں کی رونقیں تھیں، دوپہر میں کسی کے گھر نہیں جانے کی بجائے بلا جھجھک جانے کے رواج کو بدتہذیبی نہیں اپنا پن کہا جاتا تھا۔

شام ہوتے ہی بچوں نے گلی میں ضرور کھیلنا ہوتا تھا۔ کسی کی جرات نہ تھی کہ کوئی انکو روک ٹوک کرتا۔ کسی کی اچھی چیز کو دیکھ کر تعر یف کی جاتی تھی نہ کہ دیکھ کران دیکھی کر دی جاتی۔ شام کے دھندلکے پھیلتے ہی گھروں سے کھانوں کی ہوشربا اور مسحور کن مہک اور روٹی بننے کی سوندھی خوشبو آنا شروع ہو جاتی تھی تب تو ماں کو گرمی بھی بھول جاتی تھی اور اسکی کوشش ہوتی تھی کہ اس کی سب سے گول، سب سے پہلی اور سب سے پھولی ہوئی روٹی اس کے سب سے زیادہ غصّے والے بچے کو مل جائے۔ گھر آ نے والے مہمانوں کو کھانا کھلانے کا رواج عام تھا۔

برسات کے موسم میں بارش کے پانی میں دوستوں کے ساتھ چھپ چھپ کرنا اور پھر گھر آ کے ماں کے ہاتھ کے کٹے ہوئے میٹھے، رسیلے آم کھانا اور لسی پی کے غڑپ سے سو جانا کتنا آسان تھا۔ اب ایک دم جھماکے سے یاد آتا ہے کہ تب ہمارے والدین ہر چیز تو نہ کھاتے تھے۔ پھر بھی انکا پیٹ زیادہ تر بھرا ہی ہوتا تھا، تب تو فوڈ ڈیلیوری بھی نہیں ہوتی تھی پھر خود دل کو تسّلی دیتے ہیں کہ ہماری محبت ان کا پیٹ بھر دیتی تھی۔ واہ رے! اے دلِ خوش فہم کبھی خالی محبتوں سے بھی پیٹ بھرتے ہیں؟ وہ انکی قناعت تھی اور انکا تشکر تھا اور کچھ نہیں۔ اور ہاں تب تو کما ئی بھی با برکت تھی، نہ کوئی قرض تھا تو نہ کوئی ادھار تھا۔۔

بس راوی میں چین ہی چین تھا اور بس پھر یوں لگتا ہے کہ جیسے میرا دل کوئی چٹکییوں میں مسل رہا ہے، گھٹن سی ہو رہی ہے، دل بھر سا رہا ہے، گمان ہے کہ آنکھ میں کچھ پڑ گیا ہے اسی لیے پانی سا آ رہا ہے مگر نمکین کیوں ہے؟ دور کہیں گیلی مٹی کی خوشبو سی محسوس ہو رہی ہے۔ مدّت سے کسی نے ویسے نہیں پکارا جیسے ماں باپ بلاتے تھے، پیار سے مان سے۔ اور کوئی بلا ہی نہیں سکتا کیونکہ اتنے پیار سے تو وہی بلا سکتے ہیں جنہوں نے اتنے پیار اور چاہ سے ہما رے نام رکھے تھے۔

میری بھولی بسری یادوں کے گھنگرو دھیرے دھیرے بجنے لگتے ہیں گویا کسی نے پرانی یاد کے چند تار چھیڑ دیئے ہوں اور وہ میری سا نسوں کے تال میل سے الجھنے لگتے ہیں۔ ایسے میں بے اختیار دل مچلتا ہے کہ اس بھاگتی دوڑتی زندگی سے کچھ پل ادھار لے کے دوبارہ ان پیاروں میں جاؤں، ان کا خالص پن ابھی بھی باقی ہوگا، ان آنکھوں میں پہچان کی کوئی تو رمق باقی ہوگی، انکی باتوں میں پہچان کا کوئی تو ستارہ جھلملا تا ہوگا۔ شاید کے احساس کی لو ابھی کچھ اور ٹمٹماتی ہوگی۔ میں اٹھ کر اے سی تیز کرتی ہوں، مصنوئی مٹھاس بھرے جوس کا گھونٹ بھرتی ہوں مگر وہ لسی سا کیوں لگنے لگتا ہے۔ شاید میں خود فریبی میں ہوں یا بےفکر بچپن میں۔

کاش! میرا بچپن مجھے لادے کوئی
میرے پیاروں سے مجھے مِلادے کوئی

Check Also

Pepsi Phobia

By Zubair Hafeez