1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Imran
  4. Makafat e Amal

Makafat e Amal

مکافاتِ عمل

اس کائنات میں والدین سب سے انمول تحفہ ھے کہ جس کے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ھو سکتا۔ والدین کی قدر اور اھمیت ان سے پوچھئے جو اس دنیا میں نہیں ھوتے، بعد میں پچھتاوے سے کچھ حاصل نہ ھوگا۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر آیا ھے، والدین کے نافرمانوں کی نا یہ دینا اور نہ آخرت۔

یہ مکافاتِ عمل ہے اور قدرت کا جو نظام ہے وہ ہو کے رہتا ہے۔ جو آج بوگے وہ کل کاٹو گے یہ قدرت کا نظام ہے، ریاست پاکستان ان بدبختوں کے ساتھ کیا کرتی ہے یہ اللہ کے بھی مجرم ہے یہ اللہ کے رسول ﷺ کے بھی مجرم ہیں۔ یہ ہر لحاظ سے اخلاقی طور پر، معاشرتی طور پر، قانونی طور پر، شرعی طور پر یہ مجرم ہے۔ جیسا کہ سعودی عرب میں کہا جاتا ہے نا کہ "ھذا مجرم خلاص"۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ جتنا یہ مرضی طاقتور ہو کوئی ان کو چھڑانے والا نہ ہو اور ان کو عبرتناک اور مثالی سزا ملے، اور ایسی سزا ہو کہ ہر ایک انسان اس سے سبق حاصل کرے، یہ خود اولاد والا ہے یقینا ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ اللہ تعالی نہ کسی کے ساتھ ظلم زیادتی فرماتا ھے، اور ناپسند فرماتا ہے کفر کا معاشرہ چل جائے گا ظلم کا معاشرہ نہیں چلتا۔

اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آخر انسان نے جانا ادھر ہی ہے جہاں اس کی منزل ہے، یعنی مٹی کی ڈھیری (قبر) تو وہاں کی تیاری کرنی چاھئے، خوف خدا ہونا چاہیے آخرت کی تیاری ہونی چاہیے اور یہ خودسری چھوڑ دیں۔ اگر اللہ تعالی نے اور اللہ کے رسول ﷺ نے ساتھ چھوڑ دیا نا تو خدا کی قسم پوری کائنات کے لیے عبرت کا نشان بنو گے۔ کتنا عرصہ جی لو گے 40 سال، 50 سال، 60 سال، حد ماری تو78 سال، جو ایوریج چل رہی ہے انسان کی زندگی کی 40 سال کے بعد ویسے بونس شروع ہوتا ہے۔

زندگی کی قدر کریں والدین کی قدر کریں یہ ایسے انمول تحفے ہیں جو کہ بار بار نہیں ملتے نہ زندگی بار بار ملتی ہے۔ اور نہ والدین ملتے ہیں تو کچھ شرم آنی چاہیے، اس معاشرے کو بس میں اس سے زیادہ کیا کہوں تو دعا ھی کر سکتا ہوں کہ اللہ ہدایت دے۔

یہ اولادیں یہ کیوں بھول جاتی ھیں کہ کل انہوں نے بھی بوڑھا ھونا ھے۔ یہ جو معاشرے میں جو کچھ بھی ھو رھا ھے، یہ سب اسلامی تعلیمات سے دوری ھے۔ اگر قرآن مجید اور آپ ﷺ کی تعلیمات کو اپنا لیں، تو یہ معاشرہ جنت کا نمونہ بن سکتا ھے۔ یہ سب تب ھی ممکن ھے کہ ہم والدین اپنے بچوں کی صحیح معنوں میں تربیت کریں۔ جو والدین بچوں کو نظر انداز کرتے ھیں وہ یقیناً بہت بڑا نقصان کرتے ھیں جس کا ازالہ ممکن نہ ھو ایک کو ذمہ دار ٹھہرانا بھی ٹھیک نہیں یہ ماں باپ اور سکولوں کی مشترکہ ذمہ داریاں ھوتیں ھیں، جس کو پورا کرنے کی اشد ضرورت ھے۔

بد قسمتی سے ھمارے ملک میں یہ رجحان بہت تیزی سے سرائیت کر رھا ھے، کہ والدین کی نافرمانیاں بہت تیزی سے بڑھ رھی ھیں۔ جیسا کہ اولڈ ھوم، چیھپا، ایدھی فاؤنڈیشن کے اولڈ ھوم میں جائزہ لینا چاھئے۔ کہ کس تیزی کے ساتھ بزرگ شھری جس میں مرد اور عورتیں شامل ھیں۔ ھمیں اپنے اندر جھانکنا ھوگا اور اپنا خود احتساب کرنا ھو گا اللہ سے دعا ھے کہ ھمیں سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

تاکہ ھم لوگ سکھ کا سانس لے سکے میری حکومت کے اداروں سے گذراش ھے کہ نصاب میں والدین کی قدر اور منزلت اور اھمیت پر مشتمل مضامین کو نصاب کا حصہ بنائیں تاکہ بچوں کے ذھنوں میں والدین کی اھمیت کو اجاگر کر سکے۔ میری ایک تجویز ھے کہ ملکی سطح پر ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا جاۓ جس میں طلباء و طالبات کے ساتھ ساتھاساتذہ کرام کو بھی تربیت کی جاسکے۔

Check Also

Akhir Ye Majra Kya Hai?

By Tayeba Zia