Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Imran
  4. Bhari Bharkam Bills Aur Sarfeen Ki Halat e Zaar

Bhari Bharkam Bills Aur Sarfeen Ki Halat e Zaar

بھاری کم بلز اور صارفین کی حالت زار

گزشتہ 14 اور 15 ستمبر 2023 کی درمیانی شب اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی پی ڈبلیو ڈی کے علاقے میں بجلی کی آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری تھا جو کہ تقریبا ساڑھے ایک بجے دن کے قریب بجلی آئی۔ اس طرح بجلی کا آنا جانا گھریلو برقی آلات کے جلنے کا باعث بنتا ہے، جس سے صارفین کو بہت بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

میرا واپڈا حکام سے ایک سوال ہے کہ اگر اس طرح کی آنکھ مچولی کے درمیان اگر کسی صارف کا فریج، ایل ای ڈی یا کوئی بھی برقی آلات ڈیمج ہو جائیں تو اس کا کون ذمہ دار ہوگا؟ یہ ادارے کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان اسی لیے بھی ہے کہ ایک طرف تو حکومتی نیپرا جیسے ادارے کے غنڈہ گردی جاری ہے اور صارفین کے بلوں میں اضافہ سٹاک ایکسچینج کی طرح بڑھتا جا رہا ہے اس طرح پیٹرولیم کے مصنوعات بھی ہر 15 دن کے بعد عوام کو تحفہ دیا جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اتنے بھاری معاوضے وصول کرنے کے بعد بھی بجلی اور برقی تنصیبات اور ٹرانسفارمرز کی اپگریڈیشن کا نہ ہونا بھی یہ بھی بہت بڑا سوال چھوڑے جا رہے ہیں اور جس کی میں نے باضابطہ طور پر شکایت بھی درج کی ہے۔ وفاقی محتسب سے پوچھا تو جائے کہ بلوں کی مد میں حاصل ھونے والی بھاری بجلی کی ریکوری کی رقم آخر کہاں جاتی ہیں۔ اگر بجلی کا نظام ان سے درست نہیں ہو رہا ہے لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے بڑے شہروں میں چھوٹے شہروں میں کیا ہر طرف اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔

ہمارے ملک کا نظام کیسا نظام ہے کہ یہاں جس کا جو جی میں آئے وہ اپنی من مانیاں کرتا چلا آ رہا ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں صارفین کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ہم نے جو اشرافیہ جیسے یتیموں کو گود لیا ہوا ہے اور ان کو مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے چاہے وہ 1100 یونٹ کا استعمال کرے چاہے وہ 1200 کرے چاہے 2000 یونٹس کا استعمال کریں ان کو تو ماہانہ کی بنیاد پر خیرات میں عام آدمی کی طرف سے بجلی مفت بخشش کی جاتی ہے۔

میں یہ برملا کہتا ہوں کہ جو جو افراد یا ادارے مفت بجلی کا استعمال کرتے ہیں وہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور ان سے جس پانی سے یہ وضو کرتے ہیں واٹرپمپ چلاتے ہیں اگر نماز کی اللہ نے ان کو توفیق دی رکھی ہو تو وہ نماز کس کام کی جو عام رعایا تکلیف اور درد سے سسک رہی ہو اور یہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹنے کے ساتھ ساتھ مفت بجلی کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔

پاکستان تو ان کے لیے ایک پکنک پوائنٹ ہے جب اقتدار میں آتے ہیں تو پاکستان کا رخ کرتے ہیں جب ان کی نوکری ختم ہوتی ہے تو یہاں سے یہ لندن اور دبئی بھاگ جاتے ہیں کیونکہ ان کو ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ان کے ووٹر سپورٹرز ان کو گریبان سے نہ پکڑیں جو کہ وہ وقت قریب آنے والا ہے، کیونکہ عوام کا صبر کا پیمانہ مزید برداشت کرنے سے قاصر ہو چکا ہے۔ لوگ اپنے گردے بیچ کے اپنے بچوں کو فروخت کرکے بچوں اور خاندان کو مار کر خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرکے ان لاڈلوں کے ناز نخرے اٹھانے کے لیے بھاری بھرکم بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں کیونکہ ان کی قیمت ہم نے ادا کرنی ہے۔ اگر ایک بچہ یتیم خانے سے گود لے لیں تو اس کی پرورش اور اس کے تمام اخراجات اس کی ذمہ داری ہوتی ہے جس نے اس کو گود میں لیا ہوتا ہے۔

دنیا میں کسی بھی ملک کی ایسی مثال نہیں ملتی ہوگی کہ جہاں 21 کیسویں صدی کے تقاضوں کے باتیں تو ہوتی ہیں بڑے بڑے سمینار ہوتے ہیں بڑے بڑے جلسے جلوس ہوتے ہیں الیکشن کے دنوں میں ان کو عوام کا درد جاگ اٹھتا ہے، لیکن افسوس کہ عملی طور پر کارکردگی ہماری صفر ہے۔ کہنے کو تو ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن آئی ایم ایف کے آگے کشکول پھیلایا ہوا ہے، بھیک منگتے قوم بن چکے ہیں۔ ہمارا کام صرف بھیک مانگنا ہے کام کرنا کسی بھی ادارے کے ملازم کی یا ملازمین کی یا افسران کی وزیروں کی مشیروں کی جو اتنی فوج ہم نے پالی ہوئی ہیں جو بجٹ کا اچھا خاصا حصہ ان پر خرچ ہوتا ہے، ہر قسم کے ان کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں لیکن افسوس کہ ان کی وجہ سے آج ہم دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور دنیا میں جو ہمارا نقشہ کھینچا جا رہا ہے دنیا کی عظیم ترین بے غیرت قوم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں، جہاں کے حکمران یہ کہتے ہوں کہ اگر کوئی اس سے سوال کرے تو وہ کہ فیول کے چارجز بڑھ رہے ہیں بل زیادہ آ رہے ہیں عوام مجبور ہے تنگ ہے تنگدست ہوتی جا رہی ہے تو آگے سے اگر وہ یہ کہیں تو کیا ہوا؟

یہ عوام کے منہ پر بہت بڑا طماچہ ہے جو پڑتا ہے ان سیاست دانوں کی طرف سے نکل آئے زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہ بنیں خدارا اس ملک کا کچھ سوچیں کوئی اپنے حق کی بات نہیں کر سکتا۔ اگر کسی صحافی نے کوئی قلم اٹھا دیا اور عوام کے حق میں کوئی کالم لکھا یا کوئی پروگرام ٹاک شو وغیرہ میں کوئی ایسی بات کہہ دی تو اس کو فوری طور پر آف ایئر کیا جاتا ہے۔ چینل کی طرف سے اور بعد میں جو اس کے ساتھ سلوک ہوتا ہے اس کی آنے والی نسلوں کے لیے کافی ہوتا ہے کیونکہ اس کا قصور یہ ہے کہ وہ سچ بولنے اور سچائی کی اور حقائق پر پردہ اٹھانے کی ناکام کوشش کرتا ہے، کیونکہ ہمارے ملک میں سچ بولنا بہت بڑا جرم ہے اور ہماری ثقافت اور ہمارے اشرافیہ کے مزاج کے خلاف ہو تو اس آدمی کا جینا دو بھر ہو جاتا ہے۔

ہمارا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں، عیاشی کریں سب کچھ کریں لیکن خدارا کوئی عام آدمی کا بھی حصہ ڈالیں۔ آئین پاکستان 1973 کے گردان الاپ شلاب کہنے والوں کو صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آئین پاکستان 1973 کے مطابق بنیادی انسانی حقوق کے آرٹیکل نو آرٹیکل چار آرٹیکل 25 کا بھی ذکر ہے جس میں عوام کے فرد کے اور افراد کے بنیادی انسانی حقوق کا بھی ذکر موجود ہے کہ ایک خاندان کی جو کہ وہ ٹیکس بھی ادا کر رہا ہے نسل در نسل ٹیکس ادا کر رہے ہیں ایف بی ار کا منہ پیٹ بھی بھر رہے ہیں لیکن اج تک ایف بی آر نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ یہ اتنا بھاری بھرکم ٹیکسز کا ریوینیو کہاں جاتا ہے۔

آج ہم افغانستان، بنگلہ دیش اور پڑوسی بھارت سے بھی پیچھے ہیں ہم صرف باتوں کے شیر ہیں ہم صرف کاغذی شیر ہیں ہمارا کام صرف اور صرف ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنا ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا کہ یہ انسان کا بچہ ہے کوئی بات کر رہا ہے یا کسی نے کوئی ایسی ٹیکنالوجی بنا دی ہے۔ جس سے ملک اور قوم کا فائدہ ہو رہا ہو اس کو ہی ایسے عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے کہ اس کو کہا جاتا ہے کہ تم نے یہ کرنے کی جراءت کیسے کی اور کس سے پوچھ کےکی ھے اور کس سے اجازت لی اور کس کے کہنے پر کیا تمہارا سرغنہ کون ہے وغیرہ وغیرہ۔

کہنے کو تو ہم پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک فلاحی اسلامی ریاست کے طور پر معرض وجود میں آنے والا وطن ملک ہے جو 14 اگست 1947 کو حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں یہ ملک کے خداداد 27 رمضان المبارک کو معرض وجود میں آیا۔ اس نظریے سے اس نیت سے کہ یہاں کے لوگ رہنے والے باشندےآزادی کے ساتھ اپنی زندگیوں کو ایک خودار قوم کی حیثیت سے گزاریں لیکن افسوس کہ یہاں پر خودداری تو کب کی دفن ہو چکی ہے۔

جناب والا اپنی جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ اس ملک میں عام آدمی کی حیثیت ایک کیڑے مکوڑے کی جیسی ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کھلانے کے لیے بھی حرام جانور کا گوشت کھانے سے بھی گریز نہیں کر پاتا کیونکہ اس کے لیے حالات ہی ایسے پیدا کیے ہیں کہ وہ رزق حرام کی طرف لپکتا ہے کیونکہ زندگی بچانا بھی فرض ہے۔ پاکستان کی عوام کوئی کیڑے مکوڑے نہیں ہیں کوئی ردی کاغذ کے ٹکڑے نہیں ہے کہ جن کو ردی کی ٹوکری میں مسل کے پھینک دیا جائے اب بجلی کی آنکھ مچولی کی وجہ سے جب رات کے ٹائم آدھی رات کو جب سونے کا وقت ہوتا ہے اس وقت اگر یہ بجلی نہیں ہوتی تو اس وقت جس آدمی نے دفتر جانا ہے بچوں نے سکول جانا ہے تو وہ کس طریقے سے ان معاملات کو درستگی کی جانب رکھ سکتا ہے۔

ملک کا یہ حال ہے ہم دنیا کے سامنے شرمندہ ہوتے جا رہے ہیں شرمندگی ہمارا مقدر ہے دنیا ہمارا مذاق اڑاتی ہے اور کچھ رہی سہی کسر 16 ماہ میں آنے والے وہ افلاطونوں کا ٹولہ جو خود کو ائنسٹائن کی روح بھی ان سے پریشان ہو جائے کہ یار میں میں تو فلاسفر تھا ہی تھا میرے سے یہ دو ہاتھ آگے فلاسفر تھے۔ ایک تھا ڈالر کو ڈرامے دھمکانے والا کہ جی میں آگیا ہوں اب دیکھتا ہوں ڈالر کس طرح اوپر جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جس کا نام اسحاق ڈار ہے، جس نے ڈالر 300 سے اوپر لے جا کر پھر بھی ڈھٹائی سے اگلے الیکشن میں عوام کے ووٹ کے ساتھ بھاری اکثریت پر آنے کے لیے یہ پھر یہ الیکشن میں عوام سے ووٹ مانگنے جائیں گے۔

میری گزارش یہ ہے کہ واپڈا سے باز پرس کریں انکوائری کریں تحقیقات کریں کہ آج تک واپڈا نے اپنے سسٹم کو کیوں صحیح نہیں کیا؟ نیپرا کی کیا ذمہ داریاں ہیں آج تک اپنا کردار کیوں ادا نہ کیا؟ اگر ایک عام آدمی بجلی کا ماہوار بل دے سکتا ہے تو کیا واپڈا کے ملازمین اگر بجلی کا بل دیں گے تو کوئی ان پر قیامت تو نہیں ٹوٹے گی۔

یہ جتنے فلاسفر ہیں جتنے دانشور ہیں جتنے صحافی ہیں علماء کرام ہیں سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے حکمرانوں کے اوپر بھی ساری ذمہ داریاں نہیں ڈالنی چاہیے ہر ایک وہ شخص جو اس ملک کا شہری ہے وہ ہر شخص اپنے فرائض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے تم میں سے ہر ایک نہگبان ہے اور ہر ایک سے اس کی روعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، چاہے وہ کسی قسم کے عہدے پر فائز ہوں اس کو چاہیے کہ اللہ کا خوف دل میں لائیں اللہ کی مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔

Check Also

Boxing Ki Dunya Ka Boorha Sher

By Javed Ayaz Khan