Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Hussain Rather
  4. Insani Fitrat Aur Zabt e Nafs

Insani Fitrat Aur Zabt e Nafs

انسانی فِطرت اور ضبطِ نفس

ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ انسانی زندگی عارضی ہے۔ مگر اس بات کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انسانی زندگی کچھ بھی کرنے کیلئے نا اہل ہے۔ بلکہ زندگی کی یہ عارضی صورتحال اس کو غیر معمولی طور پر حیرت انگیز بناتی ہے۔ یہ زندگی کو 'نامکمل طور پر مکمل' ہونے کا عجیب معنٰی دیتی ہے۔ زندگی کی مادی تعریف کی جائے تو یہ ایک عملی عجوبہ ہے جو عمل اور ردعمل کے عناصر پر مبنی ہے۔

ہمارے ارد گرد کی مادی ایجادات اور سائنسی دریافتوں سے ہمیں زندگی کی عُمدگی اور عظمت کا اِطلاق ہوتا ہیں۔ زندگی کے مختصر عرصے میں انسانوں کو بلند مقاصد حاصل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہیں اور وہ اپنے متعین کردہ کامیابی کے آخری مرحلے تک پہنچ سکتے ہیں۔ مختصراً، زندگی جوش، جذبہ، توانائی، قوت اور جدوجہد سے بھری ہوئی ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا سبھی لوگ ایک ہی قسم کی زندگی گزارتے ہیں اور جواب یقیناً نفی میں ہے۔

زندگی گزارنے کا عملیاتی طریقہ کار مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہوتا ہے۔ اِس عملیاتی طریقہ کار کی وضاحت کرنے کیلئے ہم زندگی کی مشابہت بہتے اور جامد پانی سے کرسکتے ہیں۔ کسی تالاب کا جامد یا ٹھہرا ہوا پانی ایک ندی میں بہنے والے پانی سے خصوصیاتی طور پر مختلف ہوتا ہے۔ ندی کا پانی پہاڑوں کی چٹانوں سے ٹکراتے ہوئے وادیوں کی سِمت اپنے بہاو کے ساتھ ساتھ اپنی صفائی اور اصلیت کو برقرا رکھتا ہے جبکہ تالاب کا ٹھہرا ہوا پانی وقت کے ساتھ ساتھ آخر میں اپنی خصوصیات کھو دیتا ہے اور بدبودار ہو جاتا ہے۔

جامد اور بہتے ہوئے پانی کی مثال ہمیں اس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ جمُود اصل میں انسان کے اندر رکاوٹوں سے لڑنے کی ہمت کی کمی کے مترادف ہے یعنی جمود کامیابی کی موت ہے۔ اس سے یہ استدلال نکلتا ہے کہ زندگی میں کچھ اہم حصولیات تب تک ناممکن ہیں جب تک کچھ مخصوص شرائط پورے نہ ہو۔ یہ شرائط مشکل، پیچیدہ اور کٹھن ہو سکتے ہیں۔ ان تمام شرائط میں سب سے اہم شرط ہے 'توازن کا مثلث' برقرار رکھنا، جو انسانی رویہ، وقت اور انسانی صلاحیتوں کے درمیان تعلقاتی مثلث ہے، جس کو ہم کامیابی کی تِکونی مساوات بھی کہتے ہیں۔ 'توازن کے مثلث' میں یہ مد نظر رکھا جاتا ہے کہ تکون کے تین سِرے (یعنی رویہ، وقت اور صلاحیت) آپس میں ارطباطی ہو اور ہر ایک سِرے کی اہمیت اس کی اشتراکیت اور تعاون کے اعتبار سے برابر ہوتی ہے۔

جب 'توازن کے مثلث' کی شرط پوری ہوجاتی ہیں تو ایک شخص میں وقت کے متناسب دباؤ کے ساتھ اپنے رویے کو موزوں بنانے، اس کی اصلاح اور ترمیم کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ اپنی قابلیتوں کو حقیقتوں میں تبدیل کرسکتا ہے۔ تواریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جن لوگوں نے ماضی میں 'توازن کا مثلث' حاصل کرنے میں کامیاب پائی، وہ آج بھی اپنے کارناموں کی وجہ سے زندہ ہے اور اُن کو مستقبل میں بھی یاد رکھا جائے گا۔ ایسے لوگ اگرچہ پیدائشی ذہین نہیں ہوتے ہیں مگر یہی لوگ تاریخ بدلنے والے، اپنی مثال قائم کرنے والے اور 'اِنفلوئنسرز' بن جاتے ہیں۔ مختصراً، ایسے لوگ دوسروں کے لئے سنگ میل کی حثیت رکھتے ہیں۔

انسانی فِطرت اور توازن کا مثلث

توازن کے مثلث میں ہمارے پاس تین سِرے ہیں جن میں رویہ، وقت، اور صلاحیت شامل ہیں۔ رویہ عمل کا بیرون ہوتا ہے یعنی رویہ عمل کو خارجی طور پر ظاہر کرتا ہے۔ نفسیاتی اصطلاح کے مطابق، کوئی بھی فعل انجام دینے سے پہلے اس کا تصور ذہن کے پردے پر کیا جاتا ہے جو اس فعل کی اندرونیت کو ظاہر کرتا ہے۔ جب کوئی فعل ذہنی سوچ کے درجے سے عملی انجام دہی کے درجے تک پہنچتا ہے تو وہ رویہ کا حصہ بن جاتا ہے۔ وقت کا عنصر اس فعل کے مقداری اور خصوصیاتی پہلؤں کو شامل کرتا ہے۔

مثال کے طور پر، کشمیر کے خطے میں سردیوں میں زمین کی زرخیزی کے باوجود کوئی زراعتی کام نہیں ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص کام کرنے کے جوش سے بھرا ہو اور اپنے کھیتوں میں برف صاف کرکے بیج بونے کے لئے چار سے پانچ گھنٹے وقت صرف کرتا ہے، تو کیا اسے پیداوار ملے گی؟ بلکل نہیں، کیونکہ سردیوں میں بیج کا اُگنا ممکن نہیں ہوگا۔ لہذا، وقت کے خصوصیاتی پہلو کو مدنظر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیج کے اُگنے کیلئے یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ وقت کے دونوں پہلو ایک ساتھ مل کر کسی بھی عمل کو کارآمد بناتے ہیں۔

صلاحیتیں انسان کے اندر غیر استعمال شدہ توانائی کا مجموعہ یا خزانہ ہے جو ایک ڈیم میں ٹھہرے ہوئے پانی کی مُخفی توانائی کے مانند ہے جن کی طاقت کا اندازہ ان کے استعمال کرنے پر ہی ظاہر ہوتا ہے۔ فلسفیاتی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح مناسب وقت پر بیج بونے سے پھل کی پیداوار ہوتی ہے اسی طرح مناسب وقت پر صلاحیتوں کو بروئےکار لانے سے کار آمد نتائج سامنے آتے ہیں۔

'توازن کے مثلث' کے ان تین جزوی عناصر کی باہمی مثبت مساوات ایک منظم اور نتیجہ خیز عمل کو جنم دیتی ہے۔ ایک ایسی عمل جو تغیر پزیر ہوتی ہے، یعنی یہ عمل ایک کم درجہ کی سطح کو ایک بلند سطح میں تبدیل کر دیتی ہے۔ حالانکہ، ہر ایک شخص اپنی زندگی میں عمر بھر 'توازن کا مثلث' برقرار نہیں رکھ سکتا ہے۔ کیونکہ اس کے لئے انتہائی درجے کی اِستقامت، دلیری، صبر اور مصمم ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ انسان فطرتاً کمزور ہے، لہذا انسان ہمیشہ اور مکمل طور پر کامل اور خود کفیل نہیں ہوسکتا ہے۔

انسانی فطرت کی ان پوشیدہ خامیوں کو پہچانتے ہوئے اسلام ایک انضباطی طریقۂ کار پیش کرتا ہے اور وہ طریقۂ کار ہے 'ضبطِ نفس' یعنی 'ہیمنتہ النفس' (نفس کا غلبہ) سے 'تربیت النفس' تک کی تغیر پزیر عمل۔ چونکہ موجودہ دور کے مادی نظریہ نے ہمارے ذہنوں میں یہ رجحان پیدا کیا ہے کہ خود فوقیت ہی کامیابی حاصل کرنے کا ایک واحد اور موثر راستہ ہے۔ لیکن اس راستے کو اپناتے ہوئے اکثر یا تو ہم ناکام ہوجاتے ہیں یا پھر ہماری کامیابی ہمارے توقعات کے مطابق نہیں ہوتی ہیں۔ جب ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہیں، تو ہم عموماً خود فوقیت کی نفسیات کو تحلیل کرکے ضبطِ نفس کے دائرے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اسلامی موقف کے مطابق جزا و سزا کا نظریہ ضبطِ نفس کا بہترین طریقہ ہے۔

اسلام میں جزا و سزا کا موقف

انسان ہمیشہ اپنی زندگی گزارنے کے طریقے کے زیر اثر رہتا ہے۔ اس کا طریقۂ زندگی ہی اس کے اندرون اور بیرون رویوں کا تعین کرتا ہے۔ اس کے طریقۂ زندگی کے زیر اثر اس کی سوچ اور اس کا رویہ اس کی شخصیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ لہذا اگر انسان کا طریقۂ زندگی اس کے رویہ، وقت اور صلاحیت کے 'توازن کے مثلث' کو برقرار رکھنے کیلئے حوصلہ افزا ہو تو انسانی زندگی کارآمد اور معنٰی خیز ہوگی اور اگر حالات اس کے برعکس ہونگے تو انسانی زندگی بے معنٰی ہوگی۔ اس لئے یہ کہنا صیح ہوگا کہ اگر طریقۂ زندگی کسی مخصوص معیار تک تبدیل یا ترمیم کیا جائے گا تو رویے میں بھی برابر تبدیلی رونما ہوگی۔

اب اگر ہم اسی تناظر میں اسلام میں جزا و سزا کے موقف کا تجزیہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ موقف اصل میں ایک ایسا طریقہ کار ہے جو ہماری زندگی گزارنے کے طریقہ کو تبدیل کرکے ہمارے رویے میں تبدیلی لاتا ہے۔ جزا کا تصور انسان کو اخلاقی طور پر صحیح اعمال کی جانب راغب کرتا ہے جبکہ سزا کا تصور انسان کو اخلاقی طور پر غلط اعمال کی جانب بڑھنے سے روکتا ہے اور مجموعی طور پر اس کے رویے میں بہتری آتی ہے۔

جزا و سزا کی کیفیت

قرآنی اصطلاحات میں دائمی انعام (جزا) جنت ہے جو ہمیشہ کیلئے سکون، رحمت اور برکات کا ٹھکانہ ہے، جبکہ دائمی سزا جہنم ہے جو ہمیشہ کیلئے تکلیف، درد اور عذاب کا مقام ہے۔ جنت ایمان اور نیک اعمال یا حسنات کا انعام ہے۔ اس کے برعکس جہنم کفر اور برے اعمال یا سئیات کی سزا ہے۔ اس دائمی جزا اور سزا کے تناظر میں مسلمانوں کو اچھے اعمال (حسنات) کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے جبکہ انہیں برے اعمال (سئیات)سے دور رہنے کی ترغیب دی گئی ہے جس سے ان کے رویے میں مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔

جب ایک انسان کے ذہن میں دائمی جزا و سزا کا تصور پیدا ہوتا ہے تو وہ زندگی میں اچھے اعمال کو سرانجام دیتا ہے اور برے اعمال سے دور رہ کر اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرتا ہے جس کیلئے وہ اپنے نفس کو ضبط میں رکھتا ہے۔ طویل المعیاد میں یہی ضبطِ نفس انسانی زندگی میں 'توازن کے مثلث' کو برقرار رکھنے کی بنیاد بن جاتا ہے اور انسان اپنی زندگی میں تمام مشکلات اور رکاوٹوں کا بہادری سے سامنا کرکے ترقی کے منازل طے کرتا ہے۔

Check Also

Ikhlaqi Aloodgi

By Khalid Mahmood Faisal