Azeem Al Shan Naatiya Mehfil e Mushaira
عظیم الشان نعتیہ محفلِ مشاعرہ
کشمیر انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ (KIM) مظفرآباد، آزاد کشمیر میں ربیع الاؤل کے مبارک مہینے میں ایک عظیم الشان نعتیہ محفلِ مشاعرہ سخن سرائے کے اشتراک سے منعقد ہوا جس کے میزبان جناب حر کاشمیری، صدارت جناب ناز مظفر آبادی نے کی۔ مہمانانِ خصوصی میں شہر کے بہترین شعراء کو بلایا گیا تھا۔
آزاد کشمیر کے مایہ ناز شعراء کرام جن میں جناب ابراہیم گل، جناب عبدالبصیر تاجور، محترمہ سیدہ آمنہ بہار، جناب شیخ طاہر قیوم (سابق ڈی آئی جی آزاد کشمیر، متعدد کتب کے مصنف)، جناب جاوید الحسن جاوید، سیکرٹری سیرا(متعدد کتب کے مصنف اور مایہ ناز شاعر ہیں)، جناب پروفیسر سعید ارشد، جناب سید قاسم سیلانی جن کی نئی کتاب سفر سرائے اور سیلانن نقش گر سید قاسم سیلانی عکس گر اخلاق حیدر آبادی اردو اور ہندی ایڈیشن مکمل ہونے کو ہے)، جناب عامر شہزاد ہاشمی(جن کی نئی تصنیف مکمل ہونے کو ہے)، جناب ڈاکٹر فیاض الحسن، جناب لیاقت حسین قادری، جناب صغیر انجم، جناب مشتاق حسین قادری، جناب قمر الحق کھریگامی، جناب صائم راست خان، محترمہ رینم شیخ، جناب ذاکر زمان، جناب راجہ خضر حیات نے شرکت کرکے مشاعرہ کی رونقیں بلند کردیں۔ یہ ایک مشاعرہ نہیں، بلکہ اس نے کئی نئے معیارات قائم کئے۔ مشاعرہ کی نقابت جناب علی احسن بخاری نے کی۔ راقم الحروف تہہ دِل سے حر کاشمیری، ناز مظفر آبادی کا ممنون ہے کہ جنہوں نے اس بابرکت مشاعرہ میں شرکت کی اجازت دی۔
منعقدہ مشاعرہ کی سب سے قابلِ ذکر بات یہ بھی تھی کہ جو وقت بتایا گیا تھا، عین اس وقت ہی شروع کیا گیا۔ جس سے یہ پیغام بھی ملا کہ وقت کی پابندی ہمارے لئے سب سے اہم ہے۔ آج ہمارے مسائل کی ایک بڑی وجہ وقت کی پابندی نہ کرنا ہے۔ وقت وہ پرندہ ہے جو کبھی لوٹ کر نہیں آتا، نہ ہی یہ کسی کی خاطر آہستہ چلتا ہے۔ جو وقت کا درست استعمال کرتے ہیں وہ کامیابیاں بھی حاصل کرتے ہیں، جن اقوام، فرد کے پاس وقت کی قدر نہیں، بہت جلد وقت انہیں بے قدر کر دیتا ہے، جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ یہ وقت ہی ہے جس کے درست استعمال نے نسلوں کو سنوار دیا، جنہوں نے غلط استعمال کیا انہیں تاریخ نے گمنام کر دیا۔
شعرا کرام نے اس قدر محبت رسول ﷺ میں اشعار کہے جن سے ایمان کی تجدید ہوئی اور محبت رسول ﷺ میں مزید اضافہ ہوا، یہ وہ شعرا کرام ہیں جن کے اشعار اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ ان کے اشعار روایتی نہیں بلکہ دل کی گہرائی سے محبت رحمت العالمین ﷺ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کالم میں سب اشعار کو لکھنا مشکل ہے۔ میں یہاں حر کاشمیری صاحب کے اشعار کو قارہین کی نذر کرنا چاہوں گا۔
تُجھ پہ اَنگُشت بدنداں ہیں زمانے والے
اے گڈَریوں کو جہاں بان بنانے والے
چَشمِ اَفلاک نے حیرت سے یہ منظر دیکھا
تُجھ پہ قُربان ہُوئے تُجھ کو مِٹانے والے
تُجھ سے اَقوام نے میثاق نویسی سیکھی
تیرے ساءِل ہُوئے آئیِن بنانے والے
تیرے نَعلین کا دھووَن ہے فَراسَت ساری
اے کِسی مَکتَبِ دُنیا میں نہ جانے والے
تیرے مُحتاج ہیں ہر دور کے دانا، آقا
نَظم و اِنصاف و قِیادَت کے پڑھانے والے
مُجھ سِیَہ کار کا سِینَہ بھی مُنَوَّر کر دے
شَمعِ توحیِد کے اَنوار دِکھانے والے
بے نَواوں کو سَہارا دِیا تُو نے شاہا
میری بِگڑی بھی بَنا سَب کی بَنانے والے
حُرؔ ہُوا تیرے غُلاموں کے غُلاموں کا غُلام
اِس کو بھاتے نہیں اَلقاب زمانے والے
اس قدر شاندار مشاعرہ کروانا یقیناً قابل قدر اور بے لاجواب کاوش ہے۔ نسلِ نو کو اس وقت درست سمت میں رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے مشاعرے نہ صرف نسلِ نو کی تربیت اور درست سمت کا سنگ میل ہیں بلکہ ہی محبتِ رسول ﷺ دلوں میں اجاگر کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ایسے وقت میں جب ناعاقبت اندیش نئی نسل کو گمراہ کرنے کے درپے ہیں، انہیں معاشرہ، والدین کے لئے صدقہ جاریہ کے بجائے، عذابِ جاریہ بنانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ گراں قدر خدمات سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ مشاعرہ کو ئی معمولی بات نہیں، اور پھر ایسا مشاعرہ جس دراصل مشاعرہ اردو زبان و تہذیب کی ایک ایسی خوبصورت روایت ہے جس کی مثال دُنیا کی دوسری زبانوں کے اَدب اور ثقافت میں بمشکل ہی ملے گی۔
زمانہ قدیم سے لے کر آج تک شاعری قلب و ذہن پر گزرنے والی ہر واردات اور کیفیت کے اظہار اور ابلاغ کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ بہ قول شاعر: جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے۔ چناں چہ خواجہ الطاف حسین حالی نے "مقدمہ شعر و شاعری" میں شعرا کی عظمت اور وقعت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ "شاعری عطیہ خداوندی ہے"۔ حالی مزید فرماتے ہیں کہ "شعر دِل سے اٹھتا ہے اور دل میں تروتازہ ہوجاتا ہے۔ شعر کو سن کر دل جھومتا ہے اور روح وجد کرتی ہے"۔ روح کو تڑپانا اور قلب کو گرمانا شاعری کی جادوگری ہے۔
ادیب، شعرا، کالم نگار کسی بھی معاشرے کی وہ بنیاد ہوتے ہیں جن سے معاشرے اپنی راہیں متعین کرتے ہیں۔ مشاعرہ کا رواج ہمارے یہاں نیا نہیں ہے۔ اس کے ڈانڈے آج سے لگ بھگ تین سو برس قبل کے اس تاریخی دور کے ساتھ ملتے ہیں جب اردو کے ممتاز غزل گو شاعر میر و سودا کے معاصر خواجہ میر درد کے یہاں ہر ماہ کی آخری تاریخوں میں بزم شاعری سجا کرتی تھی جس میں بشمول امیر و غریب سب ہی صاحبان ذوق برابر شریک ہوا کرتے تھے۔
سخن سرائے کی بہترین علمی کاوشیں جاری ہیں علمی وادبی کاوشیں اس سایہ دار درخت کی طرح ہے جو سایہ کے ساتھ ساتھ پھل اور پھول بھی دیتا ہے، جس کی بدولت بے شمار چمن وجود میں آتے ہیں۔ ہمیں ایسے اہلِ علم کی ضرورت ہے جو قوم کی عزت وآزادی کو زندہ کریں، جو شاہراہِ حیات کی پگڈنڈیوں میں درست سمت رہنمائی کرکے افراد کو صراط مستقیم دکھادیں، جو ایسا شعور ونوردیں جو اندھیروں، ظلمت کدوں اور حواداثات زمانہ میں ایمان وعمل کی شمع کو روشن کردے۔ جو ڈگمگانے والوں کو فکری استقلال مہیا کریں، جو ملک وقوم کے خلاف مکروفریب کو تشت ازبام کردیں۔ اللہ تعالیٰ اہلِ علم کو مزید ترقی نصیب فرمائیں۔