Qarardad e Lahore Se Qarardad e Pakistan Tak
قرارداد لاہور سے قرارداد پاکستان تک
گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت فروری اور مارچ 1937 میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد کیے گئے۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ اور کانگرس دونوں جماعتوں نے بھرپور حصہ لیا۔ آخرکار کانگرس جیت گئے اور انہوں نے گیارہ میں سے آٹھ صوبوں میں اپنی حکومت قائم کی۔ اقتدار میں آتے ہی کانگریس نے مسلم مخالف پالیسیوں پر عملدرآمد شروع کر دیا۔ اور مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ اقتدار میں آنے سے پہلے کانگریس کا نعرہ تھا کہ ہم ایک ایسی حکومت تشکیل دے گی جو کسی تعصب کے بغیر کام کرے گا اور کسی کا دل آزاری ہونے نہیں دیں گے۔ جس پر مسلمان اپنی انتہائی سادگی اور نیک نیتی کے بنا پر کانگریس کے بنائے ہوئے جال میں بری طرح پھنس گئے۔ اور انہیں تب احساس ہوا جب ہندوؤں نے ان پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے۔
تو انہوں نے محسوس کیا کہ انہیں ایک الگ ریاست کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی ریاست جس میں مسلمانوں کی حکومت ہو اور وہ آسانی سے زندگی گزار سکے۔ 1939 میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی۔ اس جنگ کے شروع ہونے سے انگریزوں کو ہندوستان کے دو تین محاذوں پر بھی لڑنا پڑا۔ کانگرس نے شروع ہی سے جنگ میں شامل ہونے سے معذرت کی لیکن مسلم لیگ نے کچھ شرائط رکھے۔ ان حالات میں انگریزوں نے دونوں جماعتوں سے مذاکرات جاری رکھتے ہوئے قائد اعظم اور گاندھی جی دونوں کو ایک ساتھ مزاکرات کیلئے بلایا۔ کانگریس نے جنگ کے دوران برطانیہ کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور اپنے کچھ مطالبات سامنے رکھے۔ جس کو انگریزوں نے مسترد کی۔ اس پر کانگریس نے احتجاجا اپنے وزارتوں سے اکتوبر 1939 کو استعفیٰ دیا۔ قائداعظم نے مسلمانوں کو "یوم نجات" منانے کی اپیل کی۔
مسلمانوں کے حقوق کی تحفظ کے لیے مستقبل کا لائحہ عمل پیش کرنے کے لئے مسلم رہنماؤں نے فروری 1940 کو ایک جامع پلان تیار کیا۔ جس سے 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں پیش کرنا تھا۔ لیکن انگریز عرصے سے آپس میں لڑ او اور حکومت کرو کی پالیسی پر گامزن تھا۔ چنانچہ مسلم لیگ کے اس سالانہ جلسے کو ناکام بنانے کے لیے انگریزوں نے لاہور میں فساد پھیلانے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔
19 مارچ 1940 کو خاکساروں نے زبردست جلوس نکالا۔ اور انگریزوں نے ان کے جلوس پر اندھا دھند فائرنگ کی اور کئی خاکسار بھائیوں کو موت کی گھاٹ اتار دئے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ خاکسار مسلمان ہے اور اگر ان پر تشدد کرے گا تو مسلم لیگ اپنا سلانا جلسہ ملتوی کرے گا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس نکلی۔
قائد اعظم محمد علی جناح 21 مارچ کو لاکھوں کے مجمے کے ساتھ خاموشی سے دہلی سے لاہور پہنچے اور سیدھا ہسپتال چلے گئے۔ وہاں زخمی خاکساروں کی عیادت کی۔ جس سے خاکساروں کی بدگمانی دور ہو گئے۔ لیکن ہندوؤں اور انگریزوں کی عزائم خاک میں مل گئے۔
22 مارچ 1940 کو نماز جمعہ کے بعد "منٹو پارک لاہور" جو "اقبال پاک" سے مشہور ہیں۔ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخی جلسہ شروع ہوا۔ جس میں لگ بھگ ایک لاکھ کے قریب لوگ جمع ہوئے۔ سر شاہ نواز خان نے خطبہ استقبالیہ دیا۔
اس عظیم الشان جلسے کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح کر رہے تھے۔ انہوں نے اس جلسے میں اپنا سب سے طویل اور تاریخی تقریر کی۔ جس میں انہوں نے لوگوں کو دو قومی نظریے کی وضاحت اور اپنے لئے الگ ملک کا مطالبہ کرنے پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ "ہم ہندوستان کی آزادی اس طرح چاہتے ہیں کہ جس میں مسلمان آزاد ہو۔ ایسی آزادی اور دستور مسلمانوں کو ہرگز قبول نہیں جس میں مسلمانوں کی آزادی کی ضمانت نہ ہو۔ ایسی آزادی جس میں ہندو آزاد ہو اور مسلمان ان کے غلام بنے وہ قابل قبول نہیں۔
کیونکہ یہ دونوں الگ الگ قوم ہیں ان دونوں قوموں کی مذہب، عقیدت، تہزیب اور نظام زندگی الگ الگ ہے۔ یہ دونوں قومیں آپس میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن ہوا کرتا ہے۔ اس لئے ہماری خواہش ہے کہ ہم دونوں آپس میں ہمسایوں کی طرح زندگی بسر کرے۔"
23 مارچ 1940 پاکستان کی تاریخ کا سب سے سنہرا دن ہے۔ اس دن بنگال کے وزیر اعلی مولوی عبد القاسم فضل الحق نے تاریخی قرارداد "قرارداد لاہور" پیش کی اور 24 مارچ کو اس کی منظوری دی گئی۔ اس قرار داد کو ہندو اخبارات نے "قرارداد پاکستان کے نام سے شائع کیا۔ حلانکہ اس قرارداد کے متن میں کہیں بھی لفظ پاکستان استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک عام ہندوستانی مسلمان کو اس قردار کا مقصد سمجھنے میں آسانی ہوئی۔
اگر ہندو اخبارات "قرارداد پاکستان" کا نام نہ دیتی تو شاید مسلم رہنماؤں کو مسلمانوں کو اس کا مقصد اور اہمیت سمجھانے میں کافی محنت اور ٹائم لگ جاتے۔ پھر اس کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے باضابطہ طور پر "قرارداد لاہور" کو "قرارداد پاکستان" کا نام دینا شروع کیا۔ یہ وہ تاریخی قرارداد تھی جس کے ذریعے ہندوستان کے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے تلے اور قائداعظم محمد علی جناح کی رہنمائی میں پاکستان کے حصول کے لیے جدوجہد شروع کی۔
آج بھی یہ دن "23 مارچ" پورے پاکستان میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ بچے، بوڑھے اور جوان سبھی سج دج کے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم لئے صبح سویرے گھروں سے باہر نکلتے ہیں۔ سب کے لبوں پر "لے کے رہے گا پاکستان۔ بن کے رہے گا پاکستان" کا نعرہ ہوتا ہے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی خصوصی تقریبات ہوتے ہیں۔ جبکہ مسجدوں میں ملکی سلامتی اور خوشحالی کے لئے سپیشل دعائیں کرتے ہیں۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ رب العزت مملکت خداداد پاکستان کو تا قیامت تک قائم و دائم رکھیں۔ اور ہمیں ہر سال 23 مارچ کو ملی جوش و جذبے کے ساتھ منانے کی توفیق عطا فرمائے۔