Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdullah Shohaz
  4. Tegor Ki Kahaniyan (4)

Tegor Ki Kahaniyan (4)

ٹیگور کی کہانیاں (4)

ریلوے پلیٹ فارم پہ اتنی بھیڑ تھی کہ پیر دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ غریب ملکوں کا المیہ یہی ہے کہ بچّے اتنے پیدا ہوتے ہیں جن کے دسویں حصّے کو بھی سنبھالنا ریاست کے بس میں نہیں ہوتا۔ ایسے ملکوں میں ہر انسان اتنا مردم بیزار نظر آتا ہے کہ ڈھونڈنے سے بھی کوئی چمکتا دمکتا چہرہ نظر نہیں آتا۔ پبلک پلیسز پہ تو حالت یہ ہوتی ہے کہ کوئی معذور انسان بھیڑ میں گھس جائے تو پھر اس کی نعش ملنا بھی غنیمت ہے۔

پلیٹ فارم پہ بھیڑ اس وجہ سے بھی زیادہ تھی کہ گاڑی ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی نہیں پہنچ پائی تھی۔ عورتیں پلیٹ فارم پہ ہی اپنے بچّوں کو چھاتیوں سے لگا کر دودھ پلا رہے تھے۔ قلیاں نئے گاڑی کے انتظار میں ادھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ ہر گزرتے لمحے مسافروں کی اضطراب بڑھتی جا رہی تھی کہ پتہ نہیں گاڑی آئے گی یا نہیں۔ بالآخر گاڑی آگئی۔ لوگ اتنے خوش ہوئے جیسے تپتی صحرا میں کسی پیاسے کو اچانک سے میٹھے پانی کا جھیل نظر آئے۔

کچھ مسافر اُتر گئے، جو کھڑے تھے وہ سوار ہوگئے۔ اسی دھکم پیل میں ہم اکانومی کلاس میں اپنی بوگی تک پہنچے۔ اوپن ٹکٹ والے مسافر اتنے زیادہ تھے کہ اپنی سیٹوں پہ بیٹھنا بھی دشوار ہوگیا۔ گاڑی روانہ ہوگئی۔

بیٹھتے ہی میں نے کہا: "ٹیگور جی اگر کرشن چندر اس ٹرین میں سفر کر رہے ہوتے تو آسام پہنچنے تک وہ پتہ نہیں کتنی کہانیوں کا خاکہ تیار کرتے"۔

وہ میری بات پہ مسکرائے۔ (کیونکہ کرشن کا انہیں پتہ نہیں تھا اور مجھے ریل میں بیٹھتے ہی ہمیشہ اس کے ناول "غدار" اور "محبت بھی قیامت بھی" کے مناظر یاد آتے ہیں) اور ہمارے برتھ والی سیٹوں کے سامنے والی سیٹوں پہ بیٹھے ایک جوان جوڑے کی طرف اشارہ کرکے بولے جہاں ایک عورت بیٹھ کہ ہچکیاں لے رہی تھی اور اس کے سامنے ایک جوان، لمبا تڑنگا مرد بیٹھا اسے تسلّیاں دے رہا تھا: "یہ عورت جو رو رہی ہے یہ کُسم ہے اور یہ بندہ اس کا پتی ہمینت ہے۔ یہ کلکتے کے مشہور زمیندار ہری ہر مکرجی کے بیٹے اور بہو ہیں"۔

"اتنے بڑے زمیندار کی فیملی کو تو بزنس کلاس میں ہونا چاہیے تھا"۔ میں نے کہا۔

"باغی لوگ کبھی بزنس کلاس میں نہیں ہوتے"۔

اب میری تجسسّ بڑھنے لگی اور میں نے کنھکیوں سے اس خوبصورت جوڑے کو دیکھنا شروع کیا۔ "باغی کیسے؟ میں سمجھا نہیں۔ کیا یہ گھر سے بھاگے ہیں؟" میں نے پوچھا۔

"اپنے باپ کے گھر سے کون اپنی بیوی کو لے کہ بھاگتا ہے بھلا۔ یہ سماج کے باغی ہیں اور سماج سے بغاوت کرنے والوں کے لئے اس معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہمینت نے ایک ایسی عورت سے شادی کی جو ان کے مطابق ذات میں ان سے کم ہے۔ اس لئے ہری ہر مکرجی نے بہو اور بیٹھے کو گھر سے نکال دیا ہے"۔

"جب اس کے باپ کو پتہ تھا کہ لڑکی ذات میں ان کے برابر کی نہیں ہے تو اس نے شادی کیوں کروایا؟"

ٹیگور کھڑکی سے باہر کے مناظر کو دیکھ رہا تھا جو کہیں سندھ کے ریگزاروں تو کہیں پنجاب کے ملگزاروں کا منظر پیش کر رہے تھے۔ آبادی سے گزرتی ٹرین پہ بچے پتھر اور گوبر پھینک رہے تھے۔ مگر ٹیگور بُرا ماننے کی بجائے بچّوں کی ان حرکتوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں ہنس رہے تھے۔

"باپ کے ساتھ دھوکہ ہوگیا تھا۔ اُس نے کسی شنکر گھوشال کی بہن کی شادی ختم کروایا تھا صرف اسی لئے کہ لڑکے والے اونچی ذات کے تھے۔ بہن کی شادی رُک گئی مگر انتقام کی اسی آگ نے ہمینت کی زندگی کو اتھل پتھل کرکے رکھ دیا۔ وہ کُسم سے پیار کرتا تھا مگر اُسے کُسم کی ذات کا پتہ نہیں چل سکا جسے شنکرنے کسی انچے ذات کی بیٹی کے طور پر پیش کیا اور اس محبت کی شادی میں ذات پات پیروں تلے رُندھ کر مٹی میں مل گئی"۔

کُسم کی ہچکیوں کی آواز تیز تر ہو رہی تھی اور وہ دوپٹے سر منہ چھپائے ایسے رو رہی تھی کہ کوئی اندازہ نہ کرسکے کہ وہ رو رہی ہے یا ہنس رہی ہے۔

"جب شادی ہوگئی تو پھر باپ نے اُن کو کیوں در بدر کیا؟ اب تو شادی ہوچکی تھی"۔ میں نے پوچھا۔

"دیکھیں آپ کو ان چیزوں کا پتہ نہیں ہے کہ ہمارے لوگ ذات پات کے حوالے سے کتنے حسّاس ہیں۔ پھر یہاں انتقام کی آگ بھی اتنا طاقتور ہے کہ وہ تمام جذبات اور رشتوں کو ایک جھٹکے میں بھسم کرکے کے رکھ دیتی ہے۔ مسئلہ بیٹے کی خوشی سے زیادہ انا، اپنی برادری سے نکالے جانے کا ڈر اور شنکر سے انتقام لینے کا افسوس تھا جس کے سامنے اُس کا بیٹا قربانی کا بکرا بن گیا۔ جب بیٹے نے اپنی بیوی کو چھوڑنے سے انکار کیا تو اسے عاق کیا گیا"۔

میں نے غمگین لہجے میں پوچھا: "کیا یہ ممکن ہے کہ انسان ذات پات کو بھول کر انسان کی طرح رہے؟"

"فی الحال تو یہ ممکن نہیں۔۔ " یہ کہتے ہوئے وہ پھر کھڑکی سے باہر پہاڑوں کے بیچ سے گزرتی ٹرین میں تیزی سے بدلتے مناظر کو ایسے دیکھنے لگا جیسے پھر زندگی میں ان مناظر کو دیکھنے کی اُمید نہ ہو۔ میں اُن کی ڈھلتی عمر کا اندازہ کرکے فکرمندی سے اُسے دیکھنے لگا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari