Monday, 31 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdullah Shohaz
  4. Tegor Ki Kahaniyan (3)

Tegor Ki Kahaniyan (3)

ٹیگور کی کہانیاں (3)

دریا کے کنارے عورتوں کا ایک بڑا گروہ بیٹھ کے کپڑے دھو رہی تھی۔ کپڑے دھوتے وقت ان کے سروں پہ دوپٹّے نہیں تھے اور جب وہ ہلتے تھے تو ان کے سینے کی اُبھار اور بھرے کولہوں کی تھر تھراہٹ میں ایک عجیب سی کشش تھی۔ ہم جیسے ہی کشتی سے اُترے تو اس خوبصورت منظر نے ہمارا استقبال کیا۔ ٹیگور جی آگے آگے جا رہے تھے اور میں ان کے پیچھے ننگے پاؤں چلتے چلتے کنارے پہ بیٹھی عورتوں کو گھور رہا تھا۔ انسان بھی عجیب چیز ہے، وہ جہاں کہیں بھی ہو اپنی خوشی کا سامان پیدا کرتا ہے۔ میں ٹھہرا وہی حسن پرست۔ جہاں بھی نظریں گھماتا تو کسی خوبصورت اور معصوم چہرہ دیکھنے کی حسرت ہوتی۔ جب ٹیگور جی نے مجھے اتنی انہماک سے عورتوں کو گھورتے دیکھا تو وہ سمجھ گئے۔ کیونکہ انہیں میری کمزوریوں کا پہلے سے پتہ تھا۔

"ان نازک کلیوں نے کتنے کانٹوں سے زخم کھائے ہیں تمہیں پتہ ہے؟" ٹیگور بولے۔ جب وہ بولتے تو میں خاموشی سے سنتا رہتا۔ کیونکہ وہ بیکار کی باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتا اور بول رہا ہوتا تو مجھے لگتا کہ کوئی عظیم فلسفی بول رہا ہے جس کی زندگی کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ انسان خوشحالی سے اپنی زندگی گزارے۔ ذات پات، علاقائیت، تعصب، صنف، مذہب، فرقہ اور ان تمام چیزوں سے بالاتر ہوکر جیئے جو انسانیت کا خوبصورت چہرہ مسخ کر رہے ہیں۔ وہ انسان کو صرف انسان ہی سمجھتا ہے۔ کسی مذہبی، سیاسی یا صنفی تفریق کا قائل نہیں ہے۔

وہ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولے، "اُس عورت کو ذرا غور سے دیکھو جو اپنا کام ختم کرکے فارغ بیٹھی ہے اور دوسری عورتوں سے گپیں لڑا رہی ہے۔ اُس کے چہرے پہ تمہیں کیا نظر آتا ہے؟"

میں نے ایک لمحہ اُس عورت کی طرف دیکھا مگر میری نظریں ایسی عورتوں پہ کہاں ٹِکتی ہیں جن کی آنکھوں سے زندگی کی چمک غائب ہو، جن کے بالوں کی رنگت چاندی جیسی ہو، جن کی رُخساروں پہ ایسے کالے داغ پڑے ہوں جیسے لوہے کی کلہاڑی پہ لوہار کی ہتھوڑے کے نشان ہوں، جن کا حسن مدھم پڑ چکا ہو اور کسی پرانی خستہ عمارت کا منظر پیش کر رہا ہو۔ کیا ایک جنسی کھلونے کے علاوہ بھی عورت کا کوئی وجود ہے؟ ضرور ہوگا، کیونکہ دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پہ مشتمل ہے اور یہی وہ ہستیاں ہیں جو عظیم بیٹوں کو جنم دیتی ہیں۔ یا کچھ اور بھی ہیں؟ فی الحال یہ سوچنے کے لئے میرے پاس وقت نہیں تھا۔ کیونکہ ایک خوبصورت سی نازک پری ننگے سر درختوں کی شاخوں پہ گیلے کپڑے سُکھا رہی تھی۔ جب اس نازم اندام حسینہ پہ میری نظر پڑی تو میں اُس عورت سمیت ٹیگور کو بھی بھول گیا اور تخیل میں اسکی بکھری زلفوں کو سنوارنے لگا۔

"کیا لگتا ہے تمہیں یہ عورت اتنا خستہ حال کیوں ہے؟ ٹیگور کے ان الفاظ سے میرے تخیل کی عمارت زمین بوس ہوگئی اور میں ذہنی طور پر ایک نئی کہانی سننےکو تیار ہوگیا۔

"یہ عورت پاربتی ہے جو بابو سندرلال کی بیوی ہے۔ اس نے زندگی کے تمام سرد و گرم دیکھے ہیں۔ اس کے لئے زندگی کا مقصد فقط دو وقت کی روٹی حاصل مرنا اور اپنے شوہر کی خدمت کرنا تھا۔ جب وہ بیمار پڑی تو موت کے منہ تک جا پہنچی مگر شوہر کی سرد مہری اور بے ڈھنگے تیمار دادی کے باوجود بھی وہ جان بر ہوگئی اور پھر سے تندرست ہوگئی۔ اب اگر اس کی زندگی میں کسی چیز کی کمی تھی تو وہ تھی اولاد۔ شوہر کی محبت کا تو خیر اسے کبھی تجربہ ہی نہیں ہوا تھا۔ مشرقی عورتوں میں شاید ہی کوئی خوش نصیب ہو جسے حقیقی محبت کرنے والا کوئی مرد مل جائے"۔

ٹیگور اپنی دھن میں بولتا جا رہا تھا اور ہم دریا کے کنارے گاؤں کی گلیوں سے گزر رہے تھے۔ یہاں جتنی بھی عورتوں کو میں نے دیکھا تقریباََ سب کے سب بجھے ہوئے لگ رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے جینے کی خواہش گویا ختم ہو چکی تھی۔ جب میں نے سکول سے آتے چند بچّیوں کو دیکھا تو ان کے چہروں کی تازگی نے مجھے سوچنے پہ مجبور کیا کہ آخر وجہ کیا ہے کہ یہ نازک کلیاں جب مردوں کے گھر جاتی ہیں تو اتنی جلدی مرجھا جاتی ہیں۔ یا تو شادی کے ادارے میں کوئی خرابی ہے یا ہماری مشرقی روایات میں کوئی کمی ہے جو ان نازک پھولوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے سے قاصر ہے۔

ہم چلتے چلتے ایک چائے خانے کے سامنے پہنچ گئے۔ میں نے سوالیہ نظروں سے ٹیگور کو دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ راستے میں کوئی چائے خانہ ہو اور ہم وہاں بیٹھ کہ چائے نہ پیئیں تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لئے وہ میرے دل کی خواہش بھانپ گئے۔ وہ ایک بوسیدہ چارپائی پہ بیٹھ گئے اور چائے کے لئے بیرے کو آواز دی۔ چائے کی چسکیاں لیتے جب میں نے سگریٹ سلگائی تو پاس میں بیٹھے ایک شخص نے مجھ سے ایک سگریٹ مانگ لی۔ دنیا میں اگر کوئی متحد گروہ وجود رکھتا ہے تو وہ نشہیوں کا ہے۔ اس لئے نہ ایسی چیزیں مانگنے والا شرماتا ہے اور نہ ہی دیکھنے والے کو کوئی دقت ہوتی ہے۔ سگریٹ مانگنے والا ایک ادھیڑ عمر کا خوش باش دیہاتی آفیسر لگ رہا تھا۔ داڑھی شیو کیا ہوا تھا اور سر کے بال بس اتنے رہ گئے تھے کہ کوئی اسے گنج پن کا طعنہ نہیں دے سکتا تھا۔ سگریٹ سلگا کے وہ چائے کے پیسے دے کر چلا گیا۔

اس دوران ٹیگور جی اسے بڑی توجہ سے گھورتے رہے اور جب وہ چلا گیا تو میں نے پوچھا آپ اس بندے کو جانتے ہیں اور یہ بندہ اس عمر میں اتنا خوش باش کیسے ہوسکتا ہے؟

"ہاں اس کی بیوی مرگئی ہے، اس لئے اتنا خوش ہے؟"

میں حیران رہ گیا اور پوچھ بیٹھا، "بیوی کے مرنے سے کوئی خوش ہوتا ہے بھلا؟"

ٹیگور ہنس پڑے۔ "جب بیوی گلے میں طوق ہو تو اس کے مرنے پہ خوشی تو ہوگی نا۔ وہی خاتون جو وہاں دریا کے کنارے بیٹھی تھی"۔

میں نے ان کی بات کاٹ لی، "پاربتی؟"

"ہاں وہی۔ یہ پاربتی کے شوہر ہیں"۔

اب میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی کہ ایک زندہ عورت کو جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کہ آ رہے ہیں اور وہ کہہ رہا ہے کہ یہ عورت مرچکی ہے۔

"سندر لال کی جس بیوی کو آپ نے دیکھا میں اس کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ پاربتی جب بیمار تھی تو اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنے شوہر کے لئے کوئی عظیم قربانی دے۔ شوہر کو خوش رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ وہ اسے کوئی بچہ دے سکتی، مگر پاربتی کے لئے یہ ناممکن تھا۔ اس لئے اس نے منّت سماجت کرکے ایک نوعمر لڑکی جانکی سے سندر کی شادی کروا لی۔ جانکی نے پاربتی کے شوہر کو تمام حقوق اور زیوارت سمیت چھین لیا۔ سندر دوسری بیوی کے ناز و نخرے اٹھاتے قرضوں کے بوجھ تلے ایسے ڈوب گئے کہ اپنی نوکری اور پشتینی گھربار سب کچھ گنوا بیٹھے۔ آخر میں اس کے پاس بس دو بیویاں رہ گئیں جن کو پالنے کے لئے نہ گھر رہا نہ پیسے۔ جانکی اس گٹھن زدہ ماحول میں خود کو ایڈجسٹ نہ کرپائی اور سندر کا بچّہ پیٹ میں لئے اس دنیا سے چل بسی۔ کتنی عجیب ہے نہ یہ دنیا"۔

یہاں تک تو مجھے بات سمجھ آئی کہ سندر کی چھوٹی بیوی مرچکی تھی مگر چھوٹی بیویاں تو سب کو پیاری ہوتی ہیں پھر یہ بندہ اس کی موت کو لئے اتنا خوش کیوں ہے؟ میں نے بیرے کو دوسری چائے کی آرڈر دے دی اور ٹیگور راہگیروں کو تکنے میں مصروف تھے۔ جہاں ایک گدھا، گدھا گاڑی پہ لدھی بوریوں سمیت بیچ سڑک پہ لیٹا تھا۔ مالک گدھے پہ ڈنڈے برساتا رہا مگر گدھا ہی تھا کہ اپنی جگہ سے ہل نہیں رہا تھا۔۔

"ہم مرد بالکل اس گدھے کے مالک کی طرح ہیں۔ ہم کبھی بھی اپنے مسائل اور وسائل کے درمیان تناسب برقرار نہیں رکھ پاتے۔ پھر ہمارا وہی حال ہوگا جو سندر کا ہوا۔ دنیا کے تمام مردوں کی حالت اسی گدھے کے مالک جیسی ہے۔ کیونکہ وہ اپنی بساط سے بڑھ کر بوجھ اُٹھاتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ایسے ہی سڑک پہ آکر دوسروں کے لئے تماشے بن جاتے ہیں"۔

اب میں سمجھ گیا کہ سندر اپنی دوسری بیوی کی موت سے اتنا پرسکون، مطمئن اور خوش کیوں ہے۔۔

ہم چائے خانے سے اُٹھ کر ریلوے سٹیشن کی طرف روانہ ہوگئے اور وہی عورتوں کا گروہ سر پہ بڑی تالیوں میں کپڑے لئے ہمارے پیچھے آرہی تھی، مگر پاربتی ان کے ساتھ نہیں تھی۔۔

Check Also

Zafar, Olga, Gabriel Aur Sezar

By Irfan Javed