Friday, 21 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdullah Shohaz
  4. Tegor Ki Kahaniyan (2)

Tegor Ki Kahaniyan (2)

ٹیگور کی کہانیاں (2)

کلکتے کے مضافات میں زرعی زمینیں تھیں اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔ چاول کی فصل پک رہی تھی، موسمِ گرما اپنی آخری ہچکیاں لے رہی تھی اور بادِ جنوب نمی کی وجہ سے ایک عجیب سی اُداسی لئے ناتواں بوڑھے سانپ کی طرح سرسرا رہی تھی۔ درختوں کے گرے پتّے تالاب میں بے جان مچھلیوں کی طرح بے ڈھنگی سے تیر رہے تھے۔ کافی دیر پیدل چلنے کی وجہ سے مجھے اپنے پیر بوجھل معلوم ہوئے تو میں نے ٹیگور جی سے درخواست کی کہ سستانے کے لئے یہیں کہیں بیٹھ جاتے ہیں۔ اب مجھ سے اور نہیں چلا جاتا۔ وہ مسکرا دیئے اور طنزیہ انداز میں گویا ہوئے:

آرٹیفیشل دنیا میں ہر چیز مصنوعی ہوتی ہے۔ انسانی جذبات سے لے کے انسانی جسم بھی چائنا کے کھلونوں کی طرح نازک اور ناتواں ہوتی ہے۔ آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی جس طرح مضافات میں پھیلے ان کھیتوں کو کھا رہی ہے اسی طرح مصنوعی ترقی اور خود ساختہ تہذیب انسانی جذبات کا گلا گھونٹ رہی ہے"۔

انہی باتوں کے ساتھ وہ بھانپ گئے کہ اب واقعی میں میں چلنے کے قابل نہیں ہوں تو وہ دریا کے کنارے پہنچ کر اطیچی کی درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ میں جب اُس کے بغل میں بیٹھ گیا تو انہوں نے ایک سرد آہ بھر لی۔ میں سمجھ گیا کہ ٹیگور جی شہری زندگی سے تنگ آچکے ہیں۔ جہاں لگتا ہے کہ محشرِ میدان لگا ہوا ہے اور کوئی کسی کا نہیں ہے۔ شہر معاشرے کی اقدار، رسم و رواج اور رشتوں کو واقعی کھا رہے ہیں۔ جہاں ایک ہمسائے کے گھر میں فوتگی ہو اور دوسرے کو پتہ نہ چلے، جہاں سالہا سال ایک ہی گلی میں رہنے کے بعد بھی کسی کو پتہ نہ ہو کہ میرا ہمسایہ کون ہے، جہاں صرف جنازے پہ اگر کوئی بیکار ہمسایہ اپنے کام کاج سے فارغ ہو تو شرکت کی زحمت کرے، جہاں کسی اکیلے انسان کے موت کی خبر تب ہمسایوں تک پہنچے جب اس کی نعش سے بدبو پھیلے تو ایسے سماج کو آپ ترقی یافتہ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ایک بات واضح ہوگئی کہ جو ترقی سماج کی اقدار کو نگل لے تو ٹیگور اس ترقی کو ترقی نہیں بلکہ تنزّلی سمجھتے تھے۔

مجھے گہری سوچوں میں غرق پاکر اپنی عادت سے مجبور ٹیگور نے پھر ایک کہانی شروع کی:

"اس گاؤں کا نام چنڈی پور ہے اور اس درخت کے نیچے جو ہم بیٹھے ہیں اس کے پیچھے جو کھٹیا نظر آ رہی ہے یہ دینی کنٹھ کی ہے۔ دینی کنٹھ ایک نیک دل اور عزت دار آدمی ہیں۔ اُن کی تین بیٹیاں ہیں اور سب سے چھوٹی بیٹی کا نام "سوبھاشنی" ہے۔ مختصراََ آپ سوبھا ہی کہہ لیں۔ سوبھا شکمِ مادر سے گونگی پیدا ہوئی۔ آپ کو پتہ ہے جب کوئی لڑکی غریب گھرانے میں پیدا ہو اور اس میں کوئی جسمانی نقص ہو تو پھر اُس کے لئے ایسے سماج میں رہنا کتنا مشکل ہوگا۔ معذور ہونے کی وجہ سے سوبھا اپنے باپ کی لاڈلی تھی مگر باپ کا پیار ماں کے حقارت آمیز رویّے کا مداوا نہ کرسکی۔ سوبھا جب بڑی ہوگئی تو اُسے احساس ہونے لگا کہ وہ اپنے والدین کے لئے باعثِ شرم ہوتی جارہی ہے۔ اس لئے وہ لوگوں سے میل میلاپ سے گریزاں چپ چاپ اپنی دنیا میں مگن رہتی"۔

دریا سے ایک ناؤ اپنی چھوٹی سے کشتی کو ہانکتا اسی کنارے کی طرف آرہا تھا جہاں ہم بیٹھے تھے۔ پانی میں چپّوؤں کہ آواز کے سحر نے ٹیگور کو جکڑے رکھا اور وہ ایسے خاموش ہوگئے جیسے میرے وجود سے ہی غافل ہوگئے۔

مجھے بھی اندازہ ہوگیا کہ ایک انسان کے نظر انداز کرنے سے جب اتنی تکلیف ہوتی ہے تو کسی کو اگر پورا سماج نظر انداز کرے تو اس پہ کیا گزرے گی۔ سوبھا کے ساتھ بھی لوگوں کا یہی رویّہ تھا۔ وہ گونگی تھی تو اِس میں اُس کا کیا قصور؟ کیا اس نے خود جاکے بھگون سے کہا تھا کہ مجھے گونگی پیدا کریں؟ یہ کونسے ناکردہ گناہوں کی سزا تھی جو اُسے مل رہی تھی؟ کیا انسان اِتنا خود غرض ہوگیا ہے کہ دو دن کی زندگی میں وہ اپنے ہی خون کا بوجھ اُٹھانے کو گوارا نہیں کرتا؟ ہم تو شہروں کا رونا رو رہے تھے، دیہاتوں میں کب سے یہ رسم چل پڑی ہے کہ جس انسان میں بھی کوئی جسمانی نقص ہو تو اس کا اتیاچار کرو۔

میں انہی خیالوں میں گُم تھا کہ چپّوؤں کی آواز تھم گئی۔ کشتی آتے آتے دریا کے کنارے رُک گئی۔ ایک نوجوان کشتی سے اُترا، اپنی کشتی کو رسی سے باندھ کر ساحل پہ ایک درخت کے سائے میں جاکر لیٹ گیا۔

"اس نوجوان کو دیکھ رہے ہو؟" ٹیگور نے میرے خیالات کا تسلسل توڑ کر پوچھا۔

"جی، آپ اِسے جانتے ہیں؟"

میرا جوان دینے کی بجائے وہ خود کلامی کے انداز میں گویا ہوئے:

"یہ پرتاب ہے۔ سوبھا کا واحد دوست اور ہاں میں کہنا بھول گیا، سوبھا کی دو سہیلیاں بھی تھیں۔ دونوں گائیں تھیں۔ ان کے نام بھی سوبھا نے رکھے تھے۔ ایک شیاما تھی اور دوسری کلیانی۔ آپ کو پتہ ہے بولنے سے محروم انسانوں میں خاموش فطرت کے مانند ایک عظمت اور رعب ہوتا ہے۔ اسی لئے یہ بے زبان جانوروں نے جیسے سوبھا کو اپنا ہمنوا مانا تھا۔ چونکہ وہ بات نہیں کرسکتی تھی، اس لئے انسانوں میں سے کسی کو اپنا دوست بنانے سے قاصر رہی۔ بس یہی ایک پرتاب تھے جسے وہ اپنا دوست مانتی تھی مگر پرتاب سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کرنے کے لئے اس کے پاس زبان نہیں تھی۔ کتنا مشکل ہے نہ جب آپ کسی سے کچھ کہنا چاہیں اور لاکھ کوشش کرنے کے بعد بھی کہہ نہ پائیں۔ اوہ۔۔ میں کہنا بھول گیا۔ جس درخت کے نیچے ہم بیٹھے ہیں سوبھا بھی روز گھر کے کام کاج سے فارغ ہوکر اسی درخت کے نیچے آکر بیٹھتی اور دریا میں کانٹے سے مچھلی پکڑتے پرتاب کو ٹکٹکی باندھے تکتی تھی"۔

اب میں سمجھ گیا کہ کشتی اور پھر اس لڑکے کو وہ کیوں اتنی غور سے دیکھ رہے تھے۔ تو یہی ہیں سوبھا کے محبوب، مگر ایک گونگی لڑکی نے کیسے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے جب وہ بول ہی نہیں سکتی۔ پھر یہ اظہار بھی کتنا مشکل ہے، جہاں سماجی بندھنیں اور فرسودہ روایات آڑے آئیں وہاں کسی سے محبت کا اظہار کرنا موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ زبان ہونے کے باوجود بھی میں صرف خوابوں خیالوں میں ہی اپنے محبوب سے محبت کا اظہار کرپایا ہوں تو سوبھا نے کیسے یہ پہاڑ سرکی ہوگی۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں پوچھ بیٹھا:

"تو پرتاب سے کس طرح اُس نے اپنی محبت کا اظہار کیا؟"

ٹیگور کی پیشانی کے بل غائب ہوگئے اور ہونٹوں پہ ایک بوسیدہ مسکراہٹ پھیل گئی۔

"میں نے کب کہا کہ وہ پرتاب سے محبت کرتی تھی یا محبت کا اظہار کیا ہے۔ اس کے دل میں پرتاب کے لئے جو جذبات تھے اُن کو بیان کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ جب کوئی بول ہی نہیں سکتی تو کس کو پتہ کہ وہ کیا سوچتی ہے، ہوسکتا ہے اسے پرتاب پسند ہو یا ہوسکتا ہے کہ بس وہ یہاں آکر اس لئے اسے تکتی تھی کہ پرتاب کے علاوہ کوئی ایسا تھا ہی نہیں جسے ایک گونگی لڑکی کے اس طرح دیکھنے سے مسئلہ نہ ہو۔ البتہ ایک بات ہے، جب وہ اس گاؤں سے جا رہی تھی تو پرتاب کو اشتیاق سے اُس نے آنسوؤں بھرے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اُس سے ہم بس گمان کرسکتے ہیں کہ وہ پرتاب کو پسند کرتی تھی"۔

میرا تجسس بڑھ رہا تھا کہ ایک گونگی لڑکی گاؤں چھوڑ کر کہاں جا سکتی ہے۔ اس لئے پوچھے بنا نہیں رہ پایا۔

"کیا سوبھا یہ گاؤں چھوڑ کر جاچکی ہے؟"

"وہ خود نہیں گئی ہے اسے یہاں سے لے جایا گیا ہے۔ جب اُس کی عمر بڑھ گئی اور شادی کے لئے کوئی رشتہ نہیں آیا تو ذات برادری کے لوگوں نے دینی کنٹھ کو دھمکیاں دینا شروع کیں کہ اس طرح اُسے ذات برادری سے خارج کردیا جائے گا۔ اس لئے دینی کنٹھ نے کلکتے میں جاکر ایک لڑکے کو دھوکے میں رکھ کر اپنی بیٹی کی شادی اس سے کروا لی۔ بعد میں جب لڑکے کو پتہ چلا کہ اُس کی بیوی گونگی ہے تو خوب جانچ پڑتال کے بعد دوسری شادی کرکے وہ ایک صیح سلامت بیوی کو گھر لے آیا؟"

"تو پھر سوبھا کا کیا ہوا؟"

ٹیگور نے ایک سرد آہ بھر کر دُکھ بھرے لہجے میں کہا: "کس کو پتہ کہ کیا ہوا۔ نہ اُس کے ماں باپ نے پھر کلکتے کا رُخ کیا اور نہ وہ خود آ سکی۔ ماں باپ کے کندھوں سے جیسے ایک بہت بڑا بوجھ اُتر گیا، وہ اپنی ذات برادری میں خوشی خوشی رہنے لگے۔ اب نہ گونگی لڑکی رہی اور نہ ہی ذات برادری سے نکالنے کا ڈر۔ کیا بیہودہ نظام ہے اس سماج کا، ہے ناں؟ ایک انسان کو اس لئے سب بوجھ سمجھتے ہیں کہ اُس میں قدرتی طور پر کوئی نقص ہے۔ بھئی اتنے بڑے ترّم خان بنے پھرتے ہو تو پھر جاکر اُسی بھگوان کا گریبان پکڑ لیں کہ اِن معذور لوگوں کو کیوں پیدا کیا ہے جب آپ کو پتہ ہے کہ دنیا میں ان کے رہنے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے"۔

مجھے یہ سُن کر دُکھ ہوا اور ساتھ ساتھ یہ ڈر بھی تھا کہ اِس وقت ٹیگور جی بڑے غصّے میں ہیں۔ اگر کسی نے ان کی "بھگوان کے گریبان" والی بات سُن لی تو پھر ہمارا خیر نہیں۔ اس لئے میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی، "یہ جگہ کتنا خوبصورت ہے ناں، درمیان میں دریا بہہ رہا ہے اور دونوں کناروں پہ گاؤں پھیلے ہوئے ہیں۔ پھر یہ پانی اپنی دھن میں مگن دیکھو کیسے سکون سے بہہ رہا ہے اور ان درختوں کے چھاؤں میں بیٹھ کر یہ منظر دیکھنے کا اپنا ہی مزہ ہے"۔

ٹیگور بھی سمجھ گئے کہ میں موضوع بدلنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس لئے انہوں نے کوشش کی کہ اُس گونگی لڑکی پہ مزید بات چیت نہ ہو۔ وہ اِتنا کہہ کر کھڑے ہوگئے:

"سوبھا جب دریا کے کنارے اس درخت کے نیچے بیٹھ کر مچھلی پکڑتے پرتاب کو دیکھتی تھی تو اُس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ اس دریا کے پار جاکر دیکھ لے کہ وہاں کی دنیا یہاں سے کتنا مختلف ہے۔ خیر وہ تو جا نہ سکی، چلیں ہم دیکھ کہ آتے ہیں کہ اُس پار کیا ہے جو یہاں نہیں ہے"۔

پھر ہم کشتی کی طرف روانہ ہوگئے۔

Check Also

21 Ramzan, Masjid e Kufa Se Jannat Ka Safar

By Hussnain Nisar