Shikast e Natamam
شکستِ ناتمام
دنیا میں کوئی بھی معاشرہ یا کوئی بھی کمیونٹی پرفیکٹ نہیں ہوتی۔ ہر معاشرے میں کچھ خامیاں اور چند خوبیاں لازمی پائی جاتی ہیں۔ مثلاََ کسی قوم کے بارے میں کہا جائے کہ وہ بہادر ہیں یا بزدل ہیں تو یہ سراسر غلط بیانی ہوگی کیونکہ پوری قوم نہ تو بہادر ہو سکتی ہے، نہ بزدل۔ نہ پوری قوم وفادار ہو سکتی ہے اور نہ ہی چالباز۔ ہر قوم میں مختلف ذہنیت رکھنے والے گروہ پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے مگر دنیا میں ایسی کئی کمیونٹیز موجود ہیں جو اپنے اچھے یا برے اوصاف کی بنا پر اپنا الگ پہچان رکھتے۔ تو چلیں ایک ناول (شکستِ ناتمام) کا تذکرہ کرتے ہیں جو ایک ایسی ہی کسی کمیونٹی پہ لکھی گئی ہے۔
یہ ناول "جان سٹن بک" کی تصنیف ہے جو شائد انہوں نے پہلی یا دوسری جنگِ عظیم کے پسِ منظر میں لکھی ہے۔ ناول میں دو بنیادی کردار ہیں، ایک کرنل لانسر اور دوسرا شہر کا میئر آرڈن۔ کہانی ایک چھوٹے سے شہر کے گرد گھومتی ہے جہاں پہ کوئلے کی کان کنی ہوتی ہے۔ کہانی میں جنگ سے پہلے اور بعد از جنگ فاتح اور مفتوحہ گروہ کے خیالات، ان کے احساسات اور معاشرتی رویوں پر بحث کی گئی ہے۔
ناول میں اس شہر کے لوگوں کو آئیڈیل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہانی کی شروعات اس طرح ہوتی ہے کہ بیرونی حملہ آور پیراشوٹس کے ذریعے شہر میں اترتے ہیں اور اپنی مشین گنوں سے شہر پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ شہر پر قبضہ اس لئے کرتے ہیں کہ ان کو کوئلوں کی ضرورت ہے۔ مقامی فوجی دستہ تھوڑی سی مدافعت کے بعد چھ سپاہیوں کی لاشیں دفنا کر خاموش ہو جاتا ہے۔ اس چھوٹی سی جھڑپ کے بعد کوئی خون خرابہ کئے بغیر حملہ آور شہر پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ مگر یہ سب اتفاقاََ نہیں ہوتا۔ دشمن پہلے اپنا ایک آدمی کئی عرصہ پہلے اس شہر میں بھیجتا ہے جو لوگوں میں گھل مل کر یہاں ایک کاری شخصیت کی حیثیت سے اپنا سکّہ جمانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کے عادات و اطوار سے لیکر ان کے گھریلو معاملات تک غرض ہر چیز کی خبر رکھتا ہے۔ الغرض حملہ کرنے سے پہلے دشمن کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ کس بندے کے پاس کتنی بندوقیں ہیں اور کس قسم کی ہیں۔ اس لئے وہ پہنچتے ہی لوگوں سے ان کا اسلحہ چھین لیتے ہیں۔
اس جاسوس کی کہانی پڑھتے وقت مجھے انگریزوں کی پالیسی یاد آئی جو انہوں نے بلوچستان اور افغانستان پر قبضہ کرنے کے لئے ترتیب دی تھی۔ انگریزوں نے اسی پالیسی "برٹش فارورڈ پالیسی ٹوورڈز افغانستان اینڈ بلوچستان" ترتیب دی جو ایک سو سالہ پالیسی تھی۔ اسی کے تحت سب سے پہلے انہوں نے اس خطے میں اپنے جاسوس بھیجے۔ ان جاسوں میں سے کسی نے گھوڑوں کے سوداگر کا روپ دھار لیا تو کوئی مولوی کے روپ میں نمودار ہوا۔ ان لوگوں نے اس خطے میں آباد لوگوں کی معاشرت، ان کے عادات و اطوار اور ان کے سماجی رویّوں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اپنی اپنی رپورٹیں مرتّب کیں جن کی وجہ اس خطے پہ حملہ کرنا دشمن کے لئے انتہائی آسان ہوگیا۔ کیونکہ لوگوں کے رویّوں کے مطابق وہ اپنی جنگی حکمتِ عملی ترتیب دے چکے تھے۔ اس شہر کے باسیوں کے ساتھ بالکل ویسا ہی دھوکہ ہوا۔
کہانی میں جو چیز سب سے زیادہ متاثر کن ہے وہ اس شہر کے لوگوں کا اپنی زمین اور اپنی حکومت سے وفاداری ہے۔ شکست کھانے کے بعد بھی وہ دشمن کی گود میں نہیں بیٹھتے بلکہ اپنی بساط کے مطابق ہر وقت مزاحمت کرتے رہتے ہیں۔ کوئی اپنی قوم سے غدّاری نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ قابض ہونے کے باوجود بھی دشمن فوج شکست خوردہ محسوس کرتی ہے۔ لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں اور خود کو ہمیشہ ایک آزاد قوم تصّور کرتے ہیں۔ ہائے روز کسی کو قید کیا جاتا ہے تو کسی کو گولی سے اُڑا دیا جاتا ہے مگر لوگ ڈرنے کی بجائے مزید انتقام کی آگ میں جھلس جاتے ہیں۔
دشمن کو جو چیز سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے وہ اس شہر کے لوگوں کی خاموش مزاحمت اور ان کی ہمت ہے جو دشمن فوج کو اعصابی طور پر شکست سے دوچار کر دیتی ہے۔ یہی جہدِ مسلسل، خاموش مزاحمت اور اپنی زمین سے وفادار رہنا اس شہر کے باسیوں کی دوبارہ آزادی کا سبب بنتی ہے۔ اسی قوم کا تذکرہ میئر ان الفاظ میں کرتے ہیں:
"کوئی آزاد قوم کبھی جنگ شروع نہیں کرتی لیکن ایک دفعہ شروع ہوجائے تو شکست کھا کے بھی لڑتی رہتی ہے۔ لیڈروں کے پیچھے پیچھے چلنے والے بھیڑ چال کے عادی لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔ اسی لئے عارضی طور سے وہ فتح پا لیتے ہیں مگر انجام کار انہیں شکست ہوتی ہے اور فتح آزاد قوم کی ہی ہوتی ہے"۔
کاش ہماری قوم بھی کبھی ایسی سوچ کے مالک ہو۔