Khud Kalami Se Ham Kalami Tak
خود کلامی سے ہمکلامی تک

شاعری کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے کسی ہجوم میں بیٹھ کر پڑھا جائے، جہاں آوازوں کی اتنی اقسام ہوں کہ ذہن کو ماؤف کر جائیں تو نہ آپ شعر تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ شاعری کی تاثیر سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔
پھر شاعری کو ہر کوئی نہ سمجھنے کے لئے پڑھتا ہے اور نہ ہی معنی کی غرض سے پڑھتا ہے بلکہ شعر ایک ایسی چیز ہے جسے پڑھ کر بندہ لطف اُٹھاتا ہے۔ معنی کی تلاش میں تو صرف نقّاد ہی ہوتے ہیں، قاری کو ان چیزوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
جب آپ شعر پڑھتے ہیں اور شاعری کو اپنے دبے ہوئے احساسات و خواہشات کی ترجمانی کرتے دیکھتے ہیں تو شعر پڑھنے کا مزہ دوبالا ہوتا ہے۔ پروین شاکر بھی ایک ایسی شاعرہ ہیں جسے پڑھ کر میں نے پروین کے اشعار کے آئینے میں اپنے احساسات کی عکس دیکھی ہے۔ وہ جس تنہائی اور کرب سے گزرے ہیں اُس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو اس تجربے سے گزرا ہو۔ پھر شاعری کی تو خوبصورتی یہی ہے کہ وہ احساسات کو الفاظ کا ایسا خوبصورت جامہ پہناتی ہے کہ محرومی کی یہی مٹھاس بندے کو سب کچھ بھولنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب پروین کہتے ہیں:
شام ہونے کو ہے اور آنکھ میں اِک خواب نہیں
کوئی اس گھر میں نہیں روشنی کرنے والا
اسی امید پہ ہر شام بجھائے ہیں چراغ
ایک تارا ہے سرِ بام ابھرنے والا
آپ اگر کبھی اس کرب سے گزرے ہیں تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں شاعری صرف لفاظی نہیں ہے بلکہ یہ تخلیق کی وہ قسم ہے جس کا نشہ کبھی اترتا ہی نہیں ہے۔ تنہائی جب انسان کو اندر سے کھا جاتی ہے تو اس کے لئے زندگی کہ آسائشیں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ یہ دنیا سے بیزاری کی ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ اگر بیان نہ کیا جائے تو شاید انسان کی جان لے لے۔ یہ تصّور کرنا بھی کتنا مشکل ہے کہ نہ کوئی اُمید ہو، نہ کسی کے آنے کا انتظار ہو، نہ کسی اے ملنے کی تمنا ہو اور نہ ہی کوئی ایسا ہو جس سے بدلتی رُتوں کی کہانی بیان کی جا سکے، تو ایسے عالم میں جس کیفیت سے انسان گزرتا ہے وہ کس قدر خوفناک ہوتی ہے۔
اگر اس "لاحاصل" کو حاصل کر لیا جائے بھی تو اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ایسے ہی کچھ حاصل نہیں ہوتا، وصال اصل میں ایک قسم کا کمپرومائز ہے جسے آزاد ذہن کبھی قبول نہیں کرتا۔ مگر پھر بھی اسی شش و پنج میں رہتا ہے کہ اس کے بغیر گزارہ نہیں جسے حاصل کرنے کی قیمت آزادی ہو۔ اپنی انا، اپنی ضدّ، آزادی، خواہشات، رتبہ، سب کچھ داؤ پہ لگانا کوئی آسان کام تھوڑی ہے، وہ بھی ایک ایسے شخص کے لئے جسے بدلتے موسموں سے تعبیر کیا جاسکے۔
در اصل میں
اس کو تسلیم کرکے
عمر بھر کی کمائی
اس آزادئِ ذہن و جاں کی
گنوانا نہیں چاہتی
اور مجھے یہ خبر ہے
کہ میں اک دفعہ
ہاتھ اس کے اگر لگ گئی تو
وہ مکّھی بنا کے مجھے
اپنی دیوارِ خواہش سے تا عمر اس طرح چپکائے رکھے
رہے گا
کہ میں
روشنی اور ہوا اور خوشبو کا
ہر ذائقہ اس طرح بھول جاؤں گی
جیسے کبھی ان سے واقف نہ تھی
سو میں تیتری رہنے میں ہی بہت خوش ہوں
تیتری رہنے میں خوش ہونے کے لئے بھی کئی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ سب سے پہلے اپنی خواہشات کو گلا گھونٹنا پڑتا ہے، اپنی ذات کا خاطر باقی ہر چیز کو قربان کرنا پڑتا ہے، جسے ایک باغی انسان ہی کرسکتا ہے۔ انسان کے لئے سب سے مشکل کام "خود" کا بچائے رکھنا ہے۔ سماجی بندھنوں سے، روایات سے، فرسودہ رسومات سے، شوق کی فریب کاریوں سے اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ سے۔
جان!
تمہیں شاید نہ خبر ہو
بعض محبّتیں
اپنے بلڈ گروپ میں
"او منفی" ہوتی ہیں
ہر انسان کی اپنی فطرت ہوتی ہے۔ پروین کبھی تنہائی میں ایسے تڑپتی ہیں جیسے صحرا میں کوئی پیاسا جسے کبھی منزل کی اُمید نہ ہو اور کبھی ایسی خودّار بن جاتی ہیں کہ اپنی آزادی ہی اس کے لئے سب کچھ ہو۔ پھر نہ جانے کیا ہوتا ہے کہ انہیں خیال آتی ہے کہ یہ تو فطرت ہے جس کی اپنے اصول ہیں، جہاں کوئی کسی کے لئے بنایا نہیں جاتا بلکہ بن جاتا ہے۔ جہاں وفا، محبّت، عہد و پیمان، رنگ، ذات، رتبے سب بیکار جاتے ہیں۔ اصل میں جس کی ہمیں چاہ ہے وہ وجود ہی نہیں رکھتا۔
جس جا مکین بننے کے دیکھے تھے میں نے خواب
اُس گھر میں ایک شام کی مہمان بھی نہ تھی
انسان کو خود پہ ترس تب آتا ہے جب وہ خود کو بہت ہی معتبر سمجھے، جب وہ کسی کی نظر میں خاص ہوجائے اور اچانک سے اسے پتہ چلے کے یہ تو ایک سراب تھا، حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ نہ ہی کبھی وہ خاص تھا اور نہ ہی کبھی کسی کی آنکھوں کا تارا تھا بلکہ وہ اس کہکشاں میں بس ایک چھوٹے سے ذرے سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھا۔ یا یوں سمجھ لیں کہ کوئی کھلونا تھا، جو کسی بچّے کے ہاتھ میں ہو اور ٹوٹنے کہ بعد اُس کی اہمیت ختم ہو۔
جب انسان اس طرح کی محرومیوں سے گِرا ہو تو اس کا رویّہ ہمیشہ تعصبانہ رہتا ہے۔ جس نے اتنے زخم کھائے ہوں تو وہ جتنا بھی "مثبت" رہنے کی کوشش کرے تو انسانی فطرت اس کی اجازت نہیں دیتی۔
میں تو ہر چہرے میں اب تک وہی چہرہ دیکھوں
اس کو ہر روز تماشائے دگر میں رہنا
یہاں بات برابری کی آتی ہے کہ جب میں ہی ایک چہرے پہ اکتفا کرتا ہوں تو وہ کیوں نہیں کرتا۔ اصل میں ہمارے جتنی بھی ادیبائیں ہیں سب اپنی سرشت میں فیمنسٹ ہیں۔ پدرسری سماج نے اتنا گند پھیلایا ہے کہ یہاں پاؤں پھونک پھونک کہ رکھیں پھر بھی "عورت" عورت ہی رہتا ہے۔ چاہے وہ کسی بھی پوزیشن پہ ہو، ماں ہو، بیوی ہو، بیٹی ہو، ٹیچر ہو، بیوروکریٹ ہو یا ملک کا وزیرِ اعظم کیوں نہ ہو، ہے تو عورت اور عورت ہونا اس سماج میں کتنا مشکل ہے یہ ایک عورت ہی جانتی ہے۔ اس لئے فیمنزم کے داعی یہاں زیادہ ہوں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ پروین شاکر بھی اسی زمین کے باسی تھے۔ جن حالات کا سامنا ایک عام عورت کرتی ہے وہ بھی اسی کرب سے گزری ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ حسّاس تھی، خودّار تھی، خود کفیل تھی اور اپنی زخموں کو الفاظ کا مرہم لگا کر شاعری میں پناہ ڈھونڈ رہی تھی۔ آخر میں اس "فیمنسٹ" شاعرہ کی ایک نظم:
مرے بچے!
ترے حصّے میں بھی یہ تیر آئے گا
تجھے بھی اس پدر بنیاد دنیا میں بالآخر
اپنے یوں مادر نشان ہونے کی، اِک دن
بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی
اگرچہ
تیری آنکھوں کی رنگت
تیرے ماتھے کی بناوٹ
اور تیرے ہونٹوں کے سارے زاویے
اس شخص کے ہیں
جو تِری تخلیق میں ساجھی ہے میرا
فقیہِ شہر کے نزدیک جو پہچان ہے تیری
مگر جس کے لہونے تین موسم تک تجھے سینچا ہے
اس تنہا شجر کا
اِک اپنا بھی تو موسم ہے
لہو سے فصل تارے چھاننے کی
سوچ سے خوشبو بنانے کی رُتیں
اور شعر کہنے کا عمل
جس کی عملداری تِرے اجداد کے قلعوں سے باہر جا چکی تھی
تنہائی اور مایوسی کا علمبردار، آزادی کی پرچارک، محبّت کی خاطر سب کچھ قربان کرنے والی، انا پرست، خودّار اور کرب سے گزری روح پروین شاکر کی "خودکلامی" کو پڑھتے پڑھتے ایسا لگا جیسے میں ان سے "ہمکلام" ہوں۔ ہم کسی ویران شہر کے کھنڈرات پہ بھیٹے اپنی اپنی محرومیوں کا قصّہ بیان کر رہے ہیں۔

