Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdullah Rauf
  4. Khatarnak Hathiyar (1)

Khatarnak Hathiyar (1)

خطرِناک ہتھیار (1)

پرانے زمانوں میں تلوار، تیر، برچھی یا نیزہ خطرناک ہتھیار کے طور پر مخالفین پر استعمال کرکے انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے چودھویں صدی کے آغاز ہی میں یورپ میں گن اور بارود خطرناک ہتھیار کے طور پر مخالفین پر استعمال ہونا شروع ہو گئے ہمارے خطے میں پہلے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے 21 اپریل 1526ء کو پانی پت کے میدان میں اپنے سے کئی گنا بڑے مخالف ابراہیم لودھی کے لشکر جس میں بدمست ہاتھی بھی شامل تھے اس کو تاریخ میں پہلی دفعہ توپوں میں بارود استعمال کرکے آپ سیٹ شکست سے دوچار کیا اکتوبر 1911ء کوایک اطالوی پائلٹ نے ہوائی جہاز کو ترکیہ کے خلاف جنگ میں جاسوسی کے لیے استعمال کیا اپریل 1915ء کو ایک فرنچ پائلٹ نے ہوائی جہاز میں ائیر گن لگا کر اپنے دشمن کے خلاف استعمال کی۔

پہلی جنگِ عظیم میں رائفلیں، پستول، گرنیڈ، مارٹرز، توپیں، ٹینک، مائنز، خاردار تاریں، آگ کے شعلے اور آبدوزیں خطرناک ہتھیار تھے اسکے بعد دنیا نے خوفناک انتقامی انگڑائی لی دنیا کے بہترین دماغوں پر مہلک ترین ہتھیاروں میں سبقت لے جانے کا خبط سوار ہوگیا اس خبط اور جنون کے بطن سے ایٹم بم نے جنم لیا جرمنی میں نازی پارٹی کو ایک ڈکٹیٹر اور جنونی لیڈر"ہٹلر" کی شکل میں مل گیا اور ہٹلر کو عوام کی ذہن سازی کے لئے پروپیگنڈا چیف "پال جوزف گوئبلز"مل گیا جس نے عام عوام کے جزبات کو نسلی عصبیت کا ٹچ دے کر ہٹلر کو" اوتار" بنا دیا اور ہٹلر نے دنیا کو دوسری جنگ عظیم میں دھکیل دیا تو 6 اگست 1945ء کو امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر لٹل بوائے نامی ایٹم بم پھینک کر چند لمحوں میں قیامتِ صغریَ برپا کردی اور پلک جھپکتے ہی ہزاروں بے گناہ انسان لقمہ اجل بن گئے۔

اللہ رب العزت نے دنیا کی بڑی طاقتوں کی اجتماعی دانش سے اس شرَ (دوسری جنگ عظیم) کی کوکھ سے اکتوبر 1945ء میں خیرَ(اقوام متحدہ) کو پیدا فرمایا جس کے ابتدائی چارٹر کی توثیق چین، فرانس، سویت یونین (روس)، برطانیہ اور امریکہ نے اکثریتی پچاس ممالک کے نمائندوں کے دستخطوں کے ساتھ کی لیکن اب یہ دنیا میں اقوام عالم کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور اپنے قیام سے لے کر اب تک یہ اپنے سب سے بڑے مقصد میں تو کامیاب رہا یعنی اب تک کوئی تیسری بڑی عالمی ایٹمی جنگ نہیں لگنے دی لیکن دنیا میں جدید ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ آج بھی شدت اور جدت کے ساتھ جاری ہے اگلا دور اے آئی (مصنوعی ذہانت) کے ساتھ ساتھ ڈرون میزائل ٹیکنالوجی اور خلا پر قبضے میں مہارت حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا دور ہے۔

وطنِ عزیز الحمداللہ ایٹمی طاقت بھی ہے اور دنیا کی ٹاپ رینک مضبوط پروفیشنل ڈسپلن آرمی بھی رکھتا ہے اس لئے اب کسی دشمن کی براہ راست پاکستان پر حملہ کرنے کی جرات نہیں ہے۔

قارئین کرام! میں نے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے اپنے محدود علم کے مطابق آپ کو مختصر "زمانہ قدیم" سے لے کر"عصر حاضر" تک دنیا میں استعمال ہونے والے مختلف مہلک ترین ہتھیاروں سے متعلق جانکاری اور اس کے تدارک کے لئے پیش بندی کے بارے میں آگاہ کیا اب تک دنیا کے لئے سب سے بڑا خطرہ کسی بھی دو جوہری طاقتوں کے درمیان براہ راست تصادم ہے جوکسی بھی وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر تیسری بڑی اور فیصلہ کن عالمی ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایٹم بم تو تب چلے گا جب کسی نیو کلیئر پاور ملک پر براہ راست حملہ ہوگا اور اس کی ریڈلائن کراس ہوگی تو پھر وہ کون سا خطرِناک ہتھیار ہے؟ جو ہمارے معاشرے میں مسلسل دن رات آہستہ آہستہ زہر گھول رہا ہے(slow poisoning) قارئین کرام! میرے مشاہدے کے مطابق فی زَمانہ سب سے خطرِناک ہتھیار"سوشل میڈیا" ہے اگر موزوں ترین لفظوں میں کہوں تو سوشل میڈیا کا غلط استعمال!

میں ایک ترقی پسند سوچ والا انسان ہوں اور بخوبی سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا اس وقت معلومات، پیغامات، انٹرٹینمنٹ، دادرسی اور آزادی اظہار رائے کا سب سے موثر اور تیز ترین ذریعہ ہے پوری دنیا میں نوجوان بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص اس پلیٹ فارم کو شہرت حاصل کرنے اور اس سے ڈالر کما کر اپنا لائف سٹائل بدلنے کا آسان ترین ذریعہ سمجھتے ہیں آپ جہاں کہیں بھی بستے ہیں آپ کو اپنے اردگرد لوگ بری طرح سے سوشل میڈیا کی لت میں جھکڑے دکھائی دیں گے اس لئے اب لوگوں کا سب سے زیادہ قیمتی وقت سوشل میڈیا کی نظر ہو رہا ہے اور اب اس بات میں فرق تلاش کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ سوشل میڈیا آسائش ہے یا ضرورت؟ مگر میں اس کی تمام افادیت کو دل سے تسلیم کرنے کے باوجود اسے دورِجدید کا سب سے خطرِناک ہتھیار کیوں سمجھتا ہوں؟

کسی بھی بیماری یا مسئلے کی درست تشخیص اس کا آدھا علاج یا حل ہے اس سوال کی جڑ تک پہنچنے کیلئے کچھ چیزوں کو گہرائی میں جا کر دیکھنا ہوگا ہم سب کا مزاج، کردار، فکر، مذہب، مسلک، سیاست اور رائے قائم کرنا یہ سب کچھ جو ہم دیکھتے ہیں یا سنتے ہیں اس پر منحصر ہے بچپن سے لے کر بالغ ہونے تک جو ہماری آنکھوں نے دیکھا یا ہمارے کانوں نے سنا یہ سب ہمارے اندر جا کر دماغ میں فیڈہو کر ایک تاثربناکر ہماری ذہن سازی کرتا ہے اور ہمارا دماغ پھر پوری عمر اس تاثر کے زیر اثررہے گا۔

اگر میں آسان الفاظ میں اپنا مدعا بیان کروں تووہ یہ ہے کہ ہم تک آنکھوں یا کانوں کے ذریعے جو بھی معلومات پہنچتی ہے جوبعد میں تاثربن جاتی ہے یہ کس ذرائع سے ہم تک پہنچ رہی ہے اوراس کی کسوٹی کیا ہے معلومات تک رسائی کا ہمارا معیار کیا ہے؟

اگر تو معلومات خوب چھان پھٹک کر ہر لحاظ سے فلٹر ہو کر مکمل تحقیق کے بعد خالص ہم تک پہنچیں ہیں تو اس معلومات کی بنا پر ہمارا درست تاثر قائم ہوگا پھر تجزیہ اور فیصلہ کرنا بھی آسان ہو جائے گا اور اس فیصلے کا اثر پورے معاشرے پر پڑے گا اور معاشرہ درست سمت میں گامزن ہو جائے گا ماضی میں معلومات، اطلاعات، پیغامات، اظہارِرائے کی آزادی اور انٹرٹینمنٹ کے ذرائع ابلاغ کتابیں، اخبارات، رسالے، ڈائجسٹ، ریڈیو اورٹی وی تھا یعنی علم اور معلومات کشیدنے کے تمام ذرائع ابلاغ محدود پیمانے پر مکمل کنٹرول میں تھے عام عوام سے لے کر خواص تک نے کیا پڑھنا ہے، کیا سنناہے، کیا دیکھنا ہے یہ سب کچھ اس وقت کے ان تمام ذرائع ابلاغ کی پشت پر سوار لکھاریوں کے ہاتھ میں تھا۔

اس وقت کے لکھاری بھی زیادہ تر دانشور ٹائپ لوگ تھے جو زمانے کے گرم سرد حالات اور تلخ تجربات کی بھٹی سے کندن بن کر اس مقام پر پہنچتے تھے وہ لکھنے کے معاملے میں حد درجہ حساس تھے کیونکہ انہیں ادراک تھا کہ وہ جو لکھ رہیں ہیں یا دکھا رہیں ہیں یہ لوگوں کے دماغوں میں فیڈ ہو کر ذہن سازی کرے گا اور اس تاثرسے لوگوں کے مزاج، رویے اور کردار پر گہرا اثر پڑے گا یہی وجہ تھی کہ ان کا لکھنے کے بارے میں جو معیار تھا وہ یہ نہیں تھا کہ زیادہ لکھنا ہے بلکہ جو لکھنا ہے وہ مکمل تحقیق، حکمت، انسانی و اخلاقی اور معاشرتی لحاظ سے فلٹر کرکے بہترین لکھنا ہے لکھاری اپنی قلم سے جس کردار کوجیسے چاہے ویسے ہی پینٹ کر سکتا ہے اور پھر دیکھنے والے بھی اسی زاویے سے دیکھتے ہیں۔

قارئین کرام! یہ سب بتانے کا مقصد فقط یہ ہے کہ کہ عام عوام خصوصی طور پر نوجوان جو دیکھتے ہیں سنتے ہیں وہیں سے تاثر بن کر ذہن سازی شروع ہوتی ہے ماضی میں نوجوانوں کو جس ذرائع ابلاغ سے بھی معلومات مل رہی تھی وہ ذیادہ تر حقیقت پر مبنی ہوتی تھی اور اس میں خاص طور پر حیا، ادب، تمیز اورلحاظ کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تھا دروغ گوئی، نفرت، بدتمیزی، الزام تراشی اور گالم گلوچ کو فروغ نہیں دیا جاتا تھا تنقید سے پہلے تحقیق، الزام سے پہلے ثبوت اور اختلاف سے پہلے دلیل ماضی میں طرہ امتیاز سمجھا جاتا تھا اسی لئے ماضی میں نوجوانوں کاذوق اور حسن انتخاب اقبال، فیض احمد فیض، احمد فراز، واصف علی واصف اور اشفاق احمداور موسیقی میں مہدی حسن، نورجہاں، نصرت فتح علی خاں اورعطااللہ جیسے نایاب اور انمول ہیرے تھے۔

جاری ہے۔۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan