Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Abdullah Khattak/
  4. Taraqi Ki Taraf Pehla Qadam

Taraqi Ki Taraf Pehla Qadam

ترقی کی طرف پہلا قدم

آج پاکستان بار، سپریم کورٹ بار اور پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے تعاون سے اعلیٰ عدلیہ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی ٹریننگ سے متعلق ورکشاپ کا انعقاد ہوا جس میں چیف جسٹس سمت اور ججز نے بھی شرکت کی جس میں سنئیر رپوٹرز نے خطاب کیا مگر مجھے سب سے اچھا خطاب جسٹس اطہر من اللہ کا لگا انھوں نے کہا آزاد میڈیا تنقید برائے اصلاح کرتا ہے اس سے ہم اپنی اصلاح کرتے ہیں۔

بحیثیت جج ہم اپنی کوئی ججمنٹ یا کوئی چیز پوشیدہ نہیں رکھ سکتے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ پر دو طرح کی تنقید ہوتی ہے۔ دانستہ طور پر اگر کوئی فیصلہ دے اُس پر بھی تنقید ہوتی ہے۔ دوسرا میں کسی کو پسند نہیں کرتا اسے قانونی ریلیف دے دیا جائے اس پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔ جج کو کسی بھی طرح کی تنقید سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ جج کو بے خوف ہو کر آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا چاہیے۔ جج جس نے حلف لیا ہوتا ہے وہ تنقید سے ڈر کر فیصلے کرتا ہے تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہا ہوتا ہے۔ اس با ت میں کوئی شک نہیں جج کو تنقید کع برداشت کرنا چاہے کیوں کہ وہ اس وقت اک نڑے منصب پر ہوتاہے اور فیصلہ لازمی طور پر ایک کے خلاف تو لازمی آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بحیثیت جج ہم پبلک پراپرٹی ہیں۔ کسی جج کو یہ سوچنا بھی نہیں چاہیے کہ وہ کسی کورٹ رپورٹر کو بتا سکے کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ سچائی سچائی ہی رہتی ہے۔ جھوٹ جتنا بھی بولا جائے آخر میں جیت سچ کی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1971ء میں میڈیا آزاد ہوتا تو پاکستان کبھی نہیں ٹوٹتا۔ اگر سچ بولا جاتا تو نہ پاکستان دو لخت ہوتا نہ لیڈر سولی چڑھتا۔ اظہارِ رائے ہوگا تبھی ہم عظیم قوم بن سکتے ہیں۔ اور میں اس وقت سمجھتاہوں ہوں کہ سب سے زیادہ جو فضا گٹھی ہوئی ہے وہ ازادی رائے کی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی نے بھی خطاب کیا اور میں سمجھتا ہوں اس نے سپریم کورٹ سمیت خود کو سرنڈر کر دیا بے شک باتوں کی حد تک کیوں نہ ہوں انھوں نے کہا کہ عوام کے پیسے سے چلنے والا ہر ادارہ عوام کا ہے۔

جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ معلومات تک رسائی آپ کا آئینی حق بن چکا یہ اب محض ہماری مرضی کی بات نہیں، صحافیوں کے ذریعے ہی عدالتی معلومات عوام تک پہنچتی ہیں، سچائی میں ہی ہماری نجات ہے، ہر شہری کا ہدف سچائی ہونا چاہیے۔ یعنی سچائی نجات دلاتی ہے اور جھوٹ ہلاک کرتاہے والی مثال صحیح نکلی۔ انہوں نے کہا کہ ایک شہری سپریم کورٹ ملازمین کی معلومات کیلئے سپریم کورٹ آئے تھے، رجسٹرار نے اس شہری کی معلومات فراہمی کو چیلنج کر رکھا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تابع ہے، اس لئے ہم نے آئین کے تحت وہ معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا ہے ہمارے تمام فیصلے ویب سائٹ پر لگا دیئے جاتے ہیں جبکہ پہلے آپ سے پوچھا جاتا تھا آپ کو معلومات کیوں چاہییں؟ لیکن اب ادارے کو بتانا ہوگا وہ معلومات کیوں نہیں دینا چاہتا۔ اس موقع پر انہوں نے معلومات تک فراہمی کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنا یا۔ انہوں نے کہا کہ اہم کیسز لائیو دکھا رہے ہیں تاکہ لوگ سمجھیں اور سوال اٹھائیں۔ لوگوں کا حق ہے کہ وہ اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ادھر سوال وہ پچھلے روز بننے والی جے ائی ٹی کا ضرور پیدا ہوتا ہے۔ کس نے کیوں بنوائی؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے پانچ ہزار تین سو مقدمات نمٹائے ہیں، عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسی رپورٹ جاری کی جا رہی ہے، ہم ہر ہفتے بھی رپورٹ جاری کرتے ہیں کتنے مقدمات نمٹائے گئے اور کتنے نئے کیسز فائل کئے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 17 ستمبر 2023 سے 16 دسمبر 2023 تک کی سہ ماہی رپورٹ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دی گئی ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کتنے مقدمات کا فیصلہ ہوا اور کتنے نئے دائر ہوئے، تین ماہ میں پانچ ہزار سے زائد مقدمات نمٹائے گئے ہیں۔ رپورٹ میں اہم فیصلوں کے لنک بھی موجود ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ رواں ہفتے 504 مقدمات نمٹائے گئے جبکہ 326 نئے کیسز دائر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مانگے بغیر معلومات فراہم کرنے سے شفافیت آتی ہے مجھے کسی نے کہا تھا صحافیوں کو حال دل نہ سنایئے گا، کہا گیا تھا حال دل سنایا تو جس کا جو دل چاہے گا وہ اس زاویے سے لکھے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سچائی میں ہی ہماری نجات ہے، ہر شہری کا ہدف سچائی ہونا چاہیے، ہم کو اس سے اتفاق ہو یا نہ ہوروائیوں کی معلومات عوام تک پہنچتی ہے، معلومات ایک مؤثر ہتھیار ہے، عوام تک معلومات کو پہنچانا اچھا اقدام ہے۔

Check Also

Waliullah Maroof, Hamara Muqami Hero

By Asif Mehmood