Maeeshat Ko Khatraat
معیشت کو خطرات
الیکشن جن کو تمام مسائل کا حل بتایا جارہا ہے مگر اس قدر خراب معاشی حالات کو ٹھیک کرنے میں بھی وقت لگے گا مگر جمہوری معاشرے میں اگر اس کو وقت بھی لگے تو قابل برداشت ہے مگر ان مسائل کو اگر کوئی جلدی غیر جمہوری طاقت حل کرے تو یہ بلکل اس جمہوری طاقت کے ہاتھ باندھنے کے مترادف ہے۔ الیکشن اس قدر ضروری ہیں کہ آج معاشی ماہرین نے خبردار کر دیا۔
معاشی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ 2 ماہ سے زائد عرصے تک مستحکم رہنے کے باوجود مارچ کے دوران شرح تبادلہ کو دھچکوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انٹربینک مارکیٹ میں ایک کرنسی ڈیلر نے کہا کہ مارچ کے آخر تک شرح مبادلہ کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے بہت سے عوامل جمع ہوجائیں گے۔ مارکیٹ کے ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ تیسری سہ ماہی کی اقتصادی کارکردگی پچھلی سہ ماہی اور مکمل مالی سال کے منظرنامے کا تعین کرے گی، کرنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کی آمد مارکیٹ کی توقعات سے کم ہے۔
ترسیلات زر اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) دونوں متوقع سطح سے کافی کم ہیں، مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران ترسیلات زر 6 فیصد کم رہی جو کہ ایک سنگین تشویش کا باعث ہے۔ گزشتہ مالی سال 2023 میں ترسیلات اِس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 25 فیصد کم تھیں، جس کے نتیجے میں 4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، رواں مالی سال کی ترسیلات گزشتہ سال سے بھی کم ہیں۔
عالمی بینک نے گزشتہ دسمبر کے آخر میں جاری کردہ اپنی رپورٹ میں مالی سال 2024 کے لیے کُل ترسیلات زر 22 ارب ڈالر ہونے کی پیش گوئی کی تھی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد نے حال ہی میں ذکر کیا کہ ترسیلات زر میں ماہانہ بنیادوں پر اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ عام انتخابات کی وجہ سے موجودہ مدت میں رقوم کی آمد میں کمی آئے گی، جس سے رواں مالی سال کے بقیہ حصے میں مجموعی آمدن متاثر ہوگی۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی آخری قسط کا اجرا ہے، جس کا فیصلہ مارچ میں کیا جائے گا۔ نگراں حکومت اِس قسط کے حصول کے لیے پرامید ہے حالانکہ بااختیار حلقوں کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ دوبارہ مذاکرات نئی حکومت کرے گی، واضح رہے کہ ملک میں عام انتخابات 8 فروری کو ہوں گے جس کے بعد نئی حکومت بنے گی۔
نئی حکومت کو موجودہ اقتصادی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لیے آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی ضرورت ہوگی، تمام سیاسی جماعتیں عوام کے لیے مختلف معاشی فوائد کا اعلان کر رہی ہیں، عام لوگوں کے لیے 300 یونٹ مفت بجلی فراہم کرنے کا اعلان بھی اس میں شامل ہے۔ تاہم عام لوگوں کو درپیش بنیادی مسائل، مثلاً بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ترسیل کے مسائل کے پیش نظر یہ ناقابل فہم معلوم ہوتا ہے، نگران حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔
آئی ایم ایف ایسی تجاویز کو کیسے قبول کرے گا؟ یہ تجاویز آئی ایم ایف کے ساتھ مستقبل کے تعلقات میں محض رکاوٹیں ہی پیدا کریں گے۔ تو الیکشن میں تاخیر نے اس قدر مسائل کو جنم دیا ہے۔ اگر یہ الیکشن کو ہم وقت پر کر لیتے تو ایک تو جمہوریت کےساتھ ساتھ معاشی مسائل سے بھی ہم بچ سکتے ہیں۔ ہم نے اگر اپنی آنا اور پسند کی حکومت کی خاطر جمہوریت اور معیشت کا قتل عام کیا۔