Hum Sharminda Hain
ہم شرمندہ ہیں
بالاخر 23 نومبر کو شروع ہونے والا بلوچ مسنگ پرسنز کے حوالے سے لانگ مارچ آج اختتام پزیر ہوا ایک مرتبہ پھر ہماری صحافت کا سر شرم سے بلند ہوگیا، اس میں شکریہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کا ہے۔ جنہوں نے ان کی بات بالکل بھی نہیں سنی اور نہ ہی انٹرنیشنل دنیا کو مظلوم اقوام کے ساتھ ہونے والا ظلم دکھایا ہاں پروپاگنڈا ضرور کیا اور سیاسی لوگوں کی آواز تو بنا مگر مظلوم لوگوں کی آواز نہ بن سکا۔
یاد رہے کہ یہ احتجاج بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر صوبہ بلوچستان کے ضلع تربت میں 23 نومبر 2023 کو صوبہ بلوچستان کے علاقہ کیچ سے تعلق رکھنے والے بالاچ بلوچ سمیت چار افراد کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی ایک کارروائی کے دوران مبینہ طور پر مارے گئے تھے۔ بالاچ کے مبینہ قتل کے بعد ان کے لواحقین نے تربت میں میتوں سمیت دھرنا دیا۔ تاہم یقین دہانی کے باوجود اس واقعہ کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تھی۔
اس لانگ مارچ سے قبل دو ہفتوں تک مظاہرین کی جانب سے تربت میں احتجاجی دھرنا دیا گیا۔ جس میں خواتین اور بچوں کی ایک کثیر تعداد شامل تھی اور اس کے بعد وہ بلوچستان کے کیپٹل کوئٹہ کی جانب انصاف کی تلاش میں آئے مگر ان کو انصاف نہ ملا اور پھر وہ پاکستان کے کیپیٹل یعنی اسلام آباد کی طرف اپنا احتجاجی دھرنا لے کر آئے یہ دھرنا ڈیرہ غازی خان سے ہوتا ہوا تونسہ ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر اسلام آباد پہنچا۔
یہ دھرنا 61 روز سے جاری تھا۔ جسے 23 جنوری کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ اس تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے 27 جنوری کو کوئٹہ میں ایک جلسے کا انعقاد کریں گے اور جدوجہد جاری رکھے گی۔ ایک ماہ پہلے اسلام آباد پہنچا تھا اور ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا گیا وہ تو ہم سب نے دیکھا اس سردی کی تھرتھراتے ہوئے راتوں میں ان پر واٹر گنز کے ذریعے پانی پھینکا گیا کو کبھی ان کے سپیکر چرائے گئے تو کبھی ان کو ہراساں کیا گیا اور احتجاج میں ایک بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل تھیں جو کہ شاید بلوچی روایات کے برعکس تھی مگر اپنے بھائیوں اپنے والدین کے لیے انصاف کی تلاش میں وہ جو گھروں میں محصور ہوتی ہیں نکل کر ائی تھیں۔
یقینا وہ ایک پورا ماہ بلوچستان میں دھرنا دے کے بیٹھے تھے مگر ایک چھوٹی سی امید لے کر شاید وہ پریس کلب کے سہارے کہ یہ لوگ یہ صحافی ہمیں انصاف دلائیں اور ان کے کچھ زیادہ مطالبات نہیں تھے۔ مسنگ پرسن کی رہائی تھی مگر ہم نے ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے بجائے اس کے کہ ہم جانچ پڑتال کریں ہم نے کچھ بھی نہیں کیا اور ہمارے پاس کوئی فیکٹس بھی نہیں تھے پر جو ہم نے الزامات لگائے مگر یہاں پر گنگا الٹی بہتی ہے کے ساتھ ساتھ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام اپنے عروج پر پنپ رہا ہے۔
یقینا یہ دھرنا ایک عوامی تحریک کا ہی تھا اور انہوں نے خوب اس کردار کو نبھایا اور عوام کی آواز بنی۔ یقینا مجھے بطور کیریئر سٹارٹنگ جرنلسٹ بڑا عجیب سا محسوس ہو رہا ہے میرا ضمیر انتہائی ملامت کر رہا ہے۔ اس بات کی کہ ہم جتنے بھی چھوٹے لیول سے اوپر جانے کی سوچتے ہیں تو صرف یہ بات سوچتے ہیں کہ ہم سچائی کا ساتھ دیں گے مگر آج ایک مظلوم احتجاجی دھرنا جو کہ انتہائی بھیانک طریقے سے ختم ہوا بغیر کوئی ان کا مطالبہ معنی ختم ہوا ہماری کیا ایک جمہوری ملک میں جمہوری سوچ میں صحافت کا سر شرم سے بلند ہوا ہے اور باقی صحافیوں کا تو علم نہیں لیکن مجھے اس پر انتہائی شرمندگی ہے۔
مجھے امید ہے کہ یہ آواز جمہوری سوچ میں یا ایک آزاد سوچ رکھنے والا بندہ ہمیشہ بلند کرتا رہے گا اور ایسے تمام تر مظلوم لوگ جو ہیں ان کا سہارا بننے کی ہر ممکن کوشش کرے گا درحقیقت یہ باتیں ایک جمہوری یا انصاف پسند یا جس نظریے پر ایک ملک بنا ہے مطلب اسلام میں بالکل بھی فعال نہیں کرتی کہ ایک مظلوم کا ساتھ نہ دیا جائے مگر یہاں تو سب کو نوکریوں کے لالے پڑے ہیں۔ مگر اب یہ ایک عوامی تحریک بن چکی ہے۔ جس کے پیچھے بلوچستان کی عوام کھڑی ہے۔ عوامی تحریکوں کو تشدد اور طاقت سے نہیں روکا جا سکتا۔۔
ماہ رنگ بلوچ جو اس دھرنے کو سپروائزکر رہی تھی انھوں نے کہا کہ ہمارے دھرنے کے سامنے بلوچستان کے بدنام زمانہ لوگوں کو لا کر بیٹھا دیا گیا ہے۔ ریاست کے رویے سے بلوچستان کے لوگوں کے دلوں میں مزید نفرت بڑھی ہے۔۔
انہوں نے ہمیں امید تھی کہ یہ لوگ اسلام آباد میں ہماری آواز کو سنیں گے۔ ہماری تحریک کے حوالے سے میڈیا کا کردار بہت مایوس کن رہا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی ماہ رنگ بلوچ نے اقوام متحدہ کی ورکنگ کمیٹی سے غیر جانبدارانہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس معاملے پر ماہ رنگ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ ہم صورت حال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔
مگر یاد رہے یہ دھرنا کیسے ختم کیا گیا جب نیشنل پریس کلب (این پی سی) کی جانب سے اسلام آباد پولیس کو ایک خط لکھنے کے بعد سامنے آیا ہے۔ جس میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کیمپ کو ہٹانے کی درخواست کی گئی تھی، این پی سی کی درخواست بعد میں صحافیوں سمیت دیگر حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد واپس لے لی گئی۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دھرنے کی قیادت کرنے والی ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ یہاں سے جو نفرت کا پیغام دیا گیا، وہ پیغام ہم بلوچستان لے کر جائیں گے، ہم یہاں سے نفرت کا پیغام لے کر جا رہے ہیں، ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کچھ یاد رکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پریس کلب اسلام آباد کا کل کا نوٹیفکیشن پوری صحافت پر داغ ہے، اسلام آباد میں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا، وہ پورے بلوچستان کو بتائیں گے۔ اور یہ ہمارے منہ پر تماچہ سمجھے یا بدعا مگر اس کے بدلے تاریخ رقم مجھے ہوتی دکھ رہی ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس کو لکھے گئے خط میں این پی سی نے درخواست کی تھی کہ مظاہرین کو کسی دوسرے مقام پر منتقل کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا جائے تاکہ پریس کلب اور تمام رہائشیوں اور تاجر برادری کے لیے مشکلات کو کم کیا جاسکے۔