Hukumat Lene Ko Tayyar Kyun Nahi?
حکومت لینے کو کیوں تیار نہیں؟
اس وقت حالات کو اس نہج پر پہچایا گیا کہ کوئی بھی جماعت الیکشن میں برتری حاصل نہ کر سکی اور کسی جماعت کا مینڈٹ نہیں بن پارہا کہ وہ حکومت کر سکے جس جماعت کو وہ حاصل ہے اس کو اسٹیبلشمنٹ آنے ہی نہیں دیتی یہ الیکشن سلیکشن سے ہی بدتر ہے اور اس کی مثال آج کی کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے عام انتخابات میں بے ضابطگیوں کا اعتراف کرتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔
راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کا کہنا تھا میں نے انتخابات کے دوران راولپنڈی ڈویژن میں نا انصافی کی، ہم نے ہارے ہوئے امیدواروں کو 5-50 ہزار کی لیڈ میں تبدیل کر دیا، راولپنڈی ڈویژن کے 13 ایم این ایز ہارے ہوئے تھے، انہیں 70-70ہزار کی لیڈ دلوائی اور ملک کے ساتھ کھلواڑکیا۔ اب معاملہ دس بارہ ووٹ کا نہیں ہے۔ انتخابی دھاندلی کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرتا ہوں، مجھے راولپنڈی کے کچہری چوک میں سزائے موت دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان، چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس پاکستان بھی ملوث ہیں، میرے ساتھ ان لوگوں کو بھی اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا چاہیے۔ کمشنر راولپنڈی ڈویژن لیاقت علی چٹھہ نے کہا کہ ہم نے اس ملک کے ساتھ غلط کام کیا، جو کام میں نے کیا وہ کسی طرح مجھے زیب نہیں دیتا، میں اپنے عہدے اور سروس سے استعفیٰ دیتا ہوں۔
اس معاملے میں سب سے اہم بات کہ فائز عیسی اپنی صفائی دینے کے لیے سوشل میڈیا پر ائے اپنے عہدے کا خیال کئے بغیر یہ صرف میں نے معلومات کے لیے بتارہا ہوں باقی اپنے مدے پر آتے ہیں کہ حالات کو اس قدر گمبھیر بنایا گیا کہ اس ملک خدا داد کو اتنے مسائل درپیش ہیں کہ اس کو نکالنے لیےتمام لوگوں کون مخلص ہونا پرے گا انسانی ترقی کے شعبے میں، ہم غریب ممالک میں بھی سب سے زیادہ نوزائیدہ بچوں کی اموات اور خواتین کی زرخیزی کی شرح میں سے ایک ہیں، پانچ سال سے کم عمر کے 58 فیصد بچے کمزور یا ضائع ہو چکے ہیں، 26 ملین (40 فیصد) بچے اسکول سے باہر ہیں، ہر سال 8 ملین سے زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ سال جن کے لیے ہمارے پاس نہ تو اسکول ہیں اور نہ ہی اساتذہ، اور سب سے بری بات یہ ہے کہ ہمارے 39 فیصد ساتھی شہری انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔
گورننس کے لحاظ سے، ہمارے پاس ایک مکمل طور پر غیر موثر مقامی حکومت کا نظام ہے۔ وہ حکومتی درجہ جو لوگوں کے ساتھ زیادہ تر رابطہ کرتا ہے اور اسے خدمات فراہم کرنے کے لیے سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے شہریوں کو صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی خدمات سے محروم کر دیا گیا ہے۔
درحقیقت ہماری حکمرانی کے تمام شعبوں میں موثر فراہمی کا فقدان ہے۔ مثال کے طور پر، ہمارے سرکاری اداروں (SOEs) کو گزشتہ سال تقریباً 700 ارب روپے کا نقصان ہوا، ہمارے پاس ایک پھولی ہوئی بیوروکریسی ہے جہاں میرٹ کا کوئی خیال نہیں، عدالتوں میں کئی دہائیوں سے مقدمات حل نہیں ہوتے، اور ہماری پولیس کو خدمت نہیں سمجھا جاتا لیکن شہریوں پر بوجھ ہے۔
ہماری حکمرانی کے تمام شعبوں میں موثر ترسیل کا فقدان ہے۔
اگلا، ہمیں حکومت کی مالی اعانت سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد، تمام وفاقی ٹیکسز کا تقریباً 63 فیصد صوبوں کو جاتا ہے (بشمول آزاد جموں و کشمیر، جی بی اور سابق فاٹا)، صوبوں کے پاس کافی نقدی رہ جاتی ہے لیکن وفاق کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ اپنی سود کی ادائیگیوں کو بھی پورا کر سکے۔
یہ ابھی چند مسائل ہیں جو میں نے بتائے مگر سب سے اہم مسئلہ جو ایک اور بھی سامنے آرہا ہے وہ یہ کہ کوئی بھی لولی لنگڑی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے چال چلنے والی یعنی ان کے اشاروں پر چلنے والی حکومت نہیں لینا چاہتا کیونکہ بعد میں الزام ہی انہی پر اتا ہے جیسا کہ 16 ماہ کی پچھلی حکومت تھی جس کا ان لوگوں کے سیاسی کیریئر پر بھی بڑا اثر ہوتا ہے تو اس وقت تمام پارٹیاں ایسی حکومت لینے سے گریزاں ہیں اور وہ چاہتے ہیں اگر ان کو موقع ملے تو وہ مکمل ملے یعنی وہ کسی کے اشاروں پر حکومت نہ کریں اور اس طرح عوام میں پیپلز رائی ان کو نہیں ملتی اور نہ ہی مستقبل میں سیاست میں ان کو اپنی کوئی جگہ نظر اتی ہے۔
اس وقت نگران حکومت اتنے قرضے لے چکی ہے کہ اس نے تمام پچھلی حکومتوں کا ریکارڈ توڑ دیا اور مہنگائی اپنی بلند ترین سطح پر ہے تو اس کا نقصان بھی آنے والی حکومت کو ہی ہونا ہے کیونکہ نگران حکومت نے نہ ہی اس ذمہ واری قبول کرنی ہے نہ ہی کچھ اقدام اس کے لیے کرنا ہے کیونکہ وہ تو جا رہی ہے مگر اس کے مسائل آنے والی حکومت کو ہی حل کرنے ہوں گے تو ایک چند مسائل تھے مگر اس کو یا ان مسائل کا حل کیا ہے وہ یہ کہ نظام کو مکمل طور پر چینج کرنا ہوگا۔
ہمارا چھوٹے لیول پر حکومت صوبے ہی لیول اور وفاقی لیول تمام ترس کی حکومتوں کے جو نظام ہے وہ چینج کرنا ہوگا اور ایک جمہوری حکومت ہی اس ملک کو اگے لے جا سکتی ہے جو عوام کی مرضی سے اتی ہو۔