Adalat Ke Apne Faisle Mein He Lachak
عدالت کے اپنے فیصلے میں ہی لچک
تھوڑی شانتی رکھی آےگا، آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہ رہے ہیں ادھر اکثر عدالتیں اپنا تھوکا ہوا چاٹتی ہیں۔ بس اوپر سے حکم آنے کی دیر ہوتی ہے۔ نواز شریف کو بھی سزا ہوئی تھی مگر پھر سرخ رو کر دیا تھا۔ یہ پاکستان ہے یہاں سب کچھ چلتا ہے اور آنے والے دنوں میں یہ فیصلہ کلدم قرار دیا جائے گا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ وقتی فوائد حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی فیصلہ کر سکتی ہے چاہے آنے والے دنوں میں ملک پر بھاری ثابت کیوں نہ ہو مگر ان کی نظر وقتی فوائد پر ہی ہوتی ہے۔
حافظ صاحب ملک کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور نوجوانوں کو بھی مورلائز کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے مگر ابھی تک ان کا کوئی بھی حربہ کامیاب نہیں رہا۔ عدالتوں کے کیے گئے فیصلے یعنی ایک ہی کیس پر مختلف عدالتوں کے مختلف فیصلے اس کی مزید عدالتی ساکھ کو متاثر کرتا ہے مگر کیونکہ عدالتوں کو چلانے والے ججز نہیں بلکہ کوئی اور ہے تو ان کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں یہ وقتی فیصلے مزید ہماری سخت کو متاثر کر سکتے ہیں۔
22 دسمبر 2023 کو کیے گئے عدالتی فیصلہ جو سپریم کورٹ نے کیا، جس میں ہمارے قائم مقام چیف جسٹس بھی تھے۔ ایک لمبی سماعت ہوئی سماعت میں اہم پوائنٹ یہ تھے۔ دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جس انداز میں ٹرائل ہو رہا ہے، پراسیکیوشن خود رولز کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ جیل میں قید شخص ایک بڑی جماعت کی نمائندگی کرتا ہے، اس وقت معاملہ بانی پی ٹی آئی کا نہیں، عوام کے حقوق کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی پر جرم ثابت نہیں ہوا، وہ معصوم ہیں، انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کے لیے اچھی بنیاد ہے۔ قبل ازیں سماعت کے آغاز پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر نوٹس نہیں ہوا، قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی نوٹس کر دیتے ہیں، آپ کو کیا جلدی ہے۔
وکیل سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے جلد بازی میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لیے ہیں، جس پر قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اسپیڈی ٹرائل ہر ملزم کا حق ہوتا ہے، آپ کیوں چاہتے ہیں ٹرائل جلدی مکمل نہ ہو؟
وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ ان کیمرا ٹرائل کے خلاف آج ہائی کورٹ میں بھی سماعت ہے جب کہ وکیل حامد خان نے بتایا کہ دوسری درخواست فرد جرم کے خلاف ہے، فیصلے کے بعد تو صرف رسی دینا باقی رہ گیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر چیف جسٹس حیران۔
سائفر کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے لکھے فیصلے پر سپریم کورٹ نے اظہار حیرانی کیا، قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے کہا کہ ہائیکورٹ نے تو مگر ماشا اللہ کیس کا ہی فیصلہ کر دیا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد تو صرف رسی دینا باقی رہ گیا۔
پس ثابت ہوتا ہے کہ ہماری عدالتیں کسی اور کے اشاروں پہ یا وقتی فوائد حاصل کرنے والے ایجنسیز کے کہنے پر تمام تر فیصلے کرتی ہیں جو کہ ناصرف عوام کا اعتماد کھو رہی ہیں بلکہ اس سے کئی ایسے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں، جو آنے والے دنوں میں پاکستان کا شیرازہ بکھیرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ باقی دیکھتے ہیں آنے والے دنوں میں ہوتا کیا ہے مگر اس بات کی میں گارنٹی دیتا ہوں کہ خان صاحب کو 10 سال کی سزا کبھی بھی پوری ہونے نہیں دیں گے اور وہ وقت آنے پر اگر استعمال کیا جا سکتا ہے تو اس کو ضرور موقع دیں گے اور عدالت اس کو سرخرو کرے گی کیونکہ عدالت کے کیے گئے ماضی میں فیصلے اسی قسم کے تھے۔
کبھی کسی کو مجرم ٹھہراتی ہے اور کبھی کسی کو بادشاہ بنا دیتی ہے مگر اس قسم کے فیصلے اسی قسم کے معاشرے میں ہوتے ہیں ایک تمدن اور تہذیب یافتہ معاشرہ وقتی فیصلے نہیں بلکہ ایک لمبی پلان دیکھ کر انصاف کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں جو کہ ان کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں مگر پاکستان کا اللہ حافظ ہے۔