Yaadon Ke Azab
یادوں کے عذاب

لاکھوں کروڑوں درود و سلام آپ سرکارﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔
زمانے گزر جاتے ہیں مگر یاد نہیں گزرتی۔ برسوں کی مسافت طے ہو جاتی ہے، انسان اپنی عمر کی منازل طے کرتا جاتا ہے، مگر یاد کی اذیت اُس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
یاد کیا ہے، یہ کیا راز ہے قدرت کا۔ کیا یاد ایک عذاب ہے۔ گناہوں کی یاد، برے دنوں کی یاد اور اچھے دنوں کی یاد بھی تو ہے۔ یاد زاد راہ ہے حساس لوگوں کا۔ بے حس انسان یاد سے بیگانہ ہو سکتا ہے یا اس پہ یاد کے محرکات کم ہوتے ہیں۔
یاد کا تعلق ماضی سے ہے۔ گزرے ہوئے دن، گزرے ہوئے برس، انسان کے وجود پر اثرات رکھتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ یاد صرف ماضی قریب سے متعلق ہو، یاد اُن زمانوں کی بھی ہو سکتی ہے جو آپ پر گزرے تو نہیں ہیں لیکن آپ کے لاشعور کا حصہ ہیں۔
آپ نے کربلا تو نہیں دیکھی اِس میں شامل تو نہیں تھے لیکن یاد آپ کو ہمہ وقت اس میں لے جاتی ہے اور آنسو بن کر آنکھوں کو تر کرتی رہتی ہے۔ یہ یاد کا ہی معجزہ ہے جو آپ کو شاملِ حال کر دیتی ہے۔ جس نے کربلا دیکھ لی ہے وہ اس غم سے باہر آ ہی نہیں سکتا، یہ کچھ دنوں کا غم نہیں ہے یہ تو ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے، اُس کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔
ہمارے ہاں بہت سے اچھے شعراء ہیں جو ابتدا تو روایتی مضامین سے کرتے ہیں اپنی شاعری کی جیسے محبوب، حجر و فراق وغیرہ، مگر جوں جوں وقت گزرتا ہے وہ اپنے آپ کو محدود کر لیتے ہیں صرف ایک صنف میں جیسے نعت گوئی یا مرثیہ گوئی وغیرہ۔ اِسی میں شعر کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ درد و غم کے سفر میں اُس غم سے آشنا ہو جاتے ہیں جو کہ آفاقی ہے اور اُس غم میں دنیاوی غم کی ملاوٹ نہیں چاہتے۔ اِس ضمن میں بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
غم صرف ماضی قریب کا غم ہی نہیں ہے یہ ماضی بعید کا بھی ہو سکتا ہے بلکہ مستقبل کا بھی ہو سکتا ہے۔ یاد کا تعلق کسی مادی چیز سے بھی ہو سکتا ہے کسی مادی چیز کو دیکھ کے یا محسوس کرکے آپ ماضی کی یادوں کے جھروکوں میں جا سکتے ہیں۔
جیسا کہ آپ اپنے سکول میں جائیں جہاں آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی ہے تو وہاں موجود دیواروں کو ہاتھ لگا کر دیکھیں یا گراؤنڈ میں موجود درخت کو چھونے سے ایک یادوں کی بارات وارد ہو جائے گی اور آپ اپنے تخیل کی طاقت سے اُس وقت میں جاسکتے ہیں جب آپ اُن کلاس رومز میں بیٹھتے تھے اور اُس وقت کے اساتذہ اُس وقت کے دوست آپ کی یاد میں آ کے خوشی اور غم کا محرک بنتے ہیں، یہ بہت ہی عجیب اور خوبصورت احساسات ہیں۔
تو یہ سب درد کی داستانیں ہیں۔ حساس لوگوں پر یہ کیفیات زیادہ گزرتی ہیں۔ جیسے آپ کے پرانے گھر کی یاد، پرانے محلے کی یاد، پرانے دوستوں کی یاد اور رکشے والا یا تانگے والا جس کے ساتھ آپ سکول آیا جایا کرتے تھے اُن کی باتیں، یہ تمام یادوں کہ معجزے ہیں یہ سب درد گھر ہیں۔
کچھ جرمن سکالرز نے ریسرچ کی ہے کہ کسی چیز کو چھونے سے آپ ماضی کی یادوں میں جا سکتے ہیں تو مادی اشیاء یاد کا محرک ہو سکتی ہیں۔ اللہ کریم نے یاد کیوں تخلیق کی ہے اِس میں کیا راز ہے اِس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
یاد بیک وقت خوشی بھی ہے اور غم بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ماضی میں کوئی ایسا واقعہ گزرا ہے جس کو یاد کرکے آپ آج پشیمان ہو جاتے ہیں تو بزرگ فرماتے ہیں کہ فوراََ دو نفل ادا کریں اور اللہ تعالی سے معافی مانگیں کیونکہ یہ یاد اسی لیے آئی ہے کہ آپ کو آپ کی غلطی یا گناہ کا احساس ہو۔ یہ مدد کرے گا اُس احساس کو کم کرنے میں جو پشیمانی میں لے کے جا رہا ہے۔
بیٹھے بیٹھے آپ کے دل کو بھاری کر دیا جاتا ہے، غمزدہ کر دیا جاتا ہے یہ بلاوا ہوتا ہے سرکار ﷺ کی یاد کا اس کیفیت میں درود شریف کا ورد کیا کریں۔
بڑھاپے میں یادیں ہی باقی حیات کا زادِ راہ ٹھہرتی ہیں۔ یہ یاد نہیں رہتا کہ کل کیا کھایا تھا لیکن گزرے وقتوں کی یادیں اپنی پوری تفصیل کے ساتھ آپ کے وجود پہ وارد ہو جاتی ہیں۔
آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ بزرگ گزرے دنوں کی باتیں زیادہ کرتے ہیں اور اپنے گزرے ہوئے وقت اپنے بچوں کے ساتھ، گزرے ہوئے پیاروں کے ساتھ یاد کرکے خوشی اور غم کی کیفیات میں چلے جاتے۔
بزرگ فرماتے ہیں کہ دنیا میں پتہ چل جاتا ہے کہ اگر آپ نے کوئی گناہ کیا ہے تو اس کی معافی مل گئی ہے کہ نہیں جب گناہ کی یاد آپ کے ذہن سے محو ہو جاتی ہے تو سمجھیں کہ گناہ معاف کر دیا گیا ہے تو گویا یاد شاید اِسی لیے بنائی گئی ہے کہ انسان کو گزرے ہوئے گناہوں کے احساس میں سزا دی جائے۔
روحانیت میں جو لوگ سفر کرتے ہیں انہیں گناہ کا خیال آنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔
ایک مرید اپنے پیر صاحب کے پاس گیا اور اُس نے کہا کہ مجھے کچھ دنوں سے گناہ کا خیال آ رہا ہے تو پیر صاحب نے فرمایا کہ اِس کی تو سزا ملے گی، آگ میں جلنا پڑے گا، ایک الاؤ دہکایا گیا پیر صاحب نے مرید کو بولا کہ تمہیں اس الاؤ میں چھلانگ لگانی ہے۔ مرید الاؤ کی طرف قدم بڑھانے لگا اور جوں ہی الاؤ کے پاس پہنچا پیر صاحب نے روک لیا اور فرمایا کہ بس تمہاری سزا پوری ہوگئی کیونکہ گناہ تمہارے خیال نے کیا تھا اِس لیے خیال کو ہی سزا دی گئی ہے۔
گزرے دنوں کی یاد عذاب بن کر آپ پر سوار رہتی ہے۔ یا اللہ اِن یادوں سے کیسے نجات پائیں کیا یہ ہماری ذات کا مستقل حصہ بن چکی ہیں۔ کیا ہمارے ساتھ ہی قبر میں جائیں گی۔
دعا کی ضرورت ہے رب کائنات سے، ہمیں آن دیکھے عذابوں سے محفوظ فرمائے جو نہ کسی سے کہے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ سکتا ہے۔ شاید یہ سگنل ہے اللہ تعالی کے ساتھ جڑنے کے لیے کہ آ جاؤ میری طرف نہیں تو تمہیں غم دے کے بلایا جائے گا۔
اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔