پولیس افسروں کے نام، ایک سینئر کا پیغام
کچھ عرصہ پہلے وزیرِاعظم عمران خان نے ایک سینئر پولیس افسر کے بارے میں اعلان کیا تھا کہ وہ کرپشن میں ملوث ہے لہٰذا اس کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے(ویسے تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی) جس پر ریٹائرڈ آئی جی طارق کھوسہ صاحب نے ایک انگریزی روزنامے میں کالم لکھا اور پولیس افسروں کو کچھ نصیحتیں کیں۔
اس پس منظر میں کچھ پولیس افسروں نے مجھ سے بھی تقاضاکیا کہ اس موضوع پر کچھ لکھوں۔ لہٰذا ان کالموں کے ذریعے ایک سینئر کولیگ کی حیثیت سے سرونگ پولیس افسروں کو کچھ اہم باتیں بتانے جارہا ہوں۔
کھوسہ صاحب نے دس نکاتی نصائح کوTen Commandments کا عنوان دیا تھا، مگرمیں اپنی معروضات کو " ٹین کمانڈمنٹس" کا نام دیے بغیر کچھ اہم ترین امور کا ذکر کرونگا جن پر عمل کرنے سے پولیس افسران عوام کی نظروں میں اپنا اور اپنے ادارے کا اعتماد قائم کرسکتے ہیں۔ اس بات پر میں صدقِ دل سے یقین رکھتا ہوں کہ کسی بھی سینئر افسر کو ایسی نصیحت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے جس پر وہ خود عمل پیرا نہیں رہا۔
سب سے پہلی بات تو بلاشبہintegrity اور ایمانداری ہے جو سول سروسز کے لیے بنیاد اور کسی بھی لیڈر کے لیے پہلی خوبی اور بنیادی requirementکی حیثیت رکھتی ہے۔ چاہے اپنا معیارِ زندگی سادہ رکھنا پڑے مگر آپ کو ہر حال میں رزقِ حلال کھانا ہوگا۔
یہی وہ خوبی ہے جس سے آپ اپنے ماتحتوں اور عوام کا اعتماد اور احترام حاصل کرسکتے ہیں۔ آپ سات پردوں میں بھی کیش یا Kindکی صورت میں کسی ماتحت، مشتبہ یا مجرم سے رشوت لیتے ہیں تو وہ بات چند دنوں میں پورے ضلع اور ڈویژن میں پھیل جاتی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے ماتحت (چاہے وہ خود بھی کرپٹ ہوں) آپ کی عزت کرنا چھوڑ دیتے ہیں، وہ اپنی نجی محفلوں میں آپ کو بُرا بھلا کہتے ہیں اور آپ اپنی فورس اور عوام دونوں کی نظروں سے گِر جاتے ہیں۔
آپ کا دامن داغدار ہو تو کمانڈ لڑ کھڑانے اور پھر آپ کے پاس کندھوں پر لگے تانبے کے چاند ستاروں کے سوا کچھ بھی نہیں بچتا۔ رزقِ حلال کھانے والے افسر کی یونیفارم امن تحفظ اور عزت کی علامت ہوتی ہے جب کہ کرپٹ افسر کی وردی اس کے ایمان اور ضمیر کا کفن بن جاتا ہے۔
راشی افسر احساسِ جرم کی وجہ سے ماتحتوں کی جوابدہی نہیں کرسکتے، اس لیے ان کے ماتحت کھلم کھلا کرپشن میں ملوث ہوجاتے ہیں اور اس طرح پورا ضلع اور ڈویژن کرپشن کا گڑھ بن جاتا ہے، ایسی صورت میں جرائم میں بے تحاشا اضافہ ہوجاتا ہے اورعوام عدمِ تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں، جیسا کہ میرے آبائی ضلع گوجرانوالہ میں ہوا ہے۔ راشی افسر چونکہ ڈاکوؤں، اغوا برائے تاوان کے مجرموں یا دہشت گردوں سے بھی رشوت لینے سے گریز نہیں کرتے لہٰذا ایسے افسروں کی حیثیت محافظ کے بجائے مجرم کی سی ہوجاتی ہے۔
ایسے پولیس افسرمعاشرے کے لیے عذاب اور اپنے ادارے کے لیے ایک ناسور کی طرح ہوتے ہیں۔ اس قماش کے بہت سے افسراپنے کرتوتوں کے باعث گرفتار بھی ہوجاتے ہیں اور پھر ان کی حرام کی کمائی مقدموں کی نذر ہوجاتی ہے اور ان کے بچے معاشرے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ ایسے حرام خور اگریہاں بچ بھی جائیں تو ہمارا ایمان ہے کہ نبی کریم ؐ کے بقول وہ دائمی زندگی میں یقیناً جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ لہٰذا پولیس افسروں کو ایسے راستے پر کبھی نہیں چلنا چاہیے جو جرم اور گناہ کا راستہ ہے اور جس میں مقدمے، گرفتاری، ذلت و خواری، قید، جیل، سزائیں اور خاندان کی بربادی ہے اور آخرت میں ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں جلنا ہے۔
ضلع اور ڈویژن کے پولیس کمانڈر کے لیے صرف خود ایماندار ہونا کافی نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ضلع یا ڈویژن میں ایمانداری کا کلچر پروان چڑھائے۔ وہ اس طرح کہ اچھے کیریکٹر کے افسروں کو SHO اور سب ڈویژنل پولیس افسر تعینات کرے۔ کرپٹ اور بدنام افسروں کو اہم عہدوں سے ہٹا دے اور ناقابلِ اصلاح عناصر سے محکمے کو پاک کردے۔
سیاسی سفارش پر کسی بدنام افسر کی تعیناتی کے احکامات جاری ہو بھی جائیں تو اس کی مزاحمت کرے۔ انگریزی محاورہ ہے کہ کسی بھی شخص کی سوچ اور پسند و ناپسند کا اندازہ اس کے رفقاء اور ملنے والوں سے لگایا جاسکتا ہے، اچھے پولیس افسروں کی دوستیاں اور تعلقات بھی باکردار اور نیک نام لوگوں سے ہونی چاہئیں، اگر آپ کے دفتر میں بدنام اور مشکوک کردار کے لوگوں کا آنا جانا رہے گا تو آپ کی شہرت بھی داغدار ہوجائے گی۔ لہٰذا اپنے visitors کے بارے میں بے حد محتاط رہیں۔
پورے ضلع میں جہاں یہ پیغام جانا چاہیے کہ ضلعی کمانڈر کرپٹ افسروں کو سخت ناپسند کرتا ہے، وہاں یہ پیغام بھی جانا چاہیے کہ ضلعی سربراہ ایماندار اور باکردار افسروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، دیانتدار اور نیک نام افسروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں اور انھیں اہم جگہوں پر تعینات کریں۔ ایک پولیس افسر کے لیے غیر جانبدار رہنا اُتنا ہی اہم ہے جتنا مالِ حرام سے بچنا۔ اگر کوئی پولیس افسر حکومتی پارٹی کے سیاستدانوں کی سفارش پر SHO تعینات کرتا ہے، اُن کے کہنے پر ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمے درج کراتا ہے یا الیکشن کے موقع پر حکومتی پارٹی کے امیدوار کی مدد کرتا ہے تو وہ چاہے رشوت نہ بھی لیتا ہو، تو بھی وہ بددیانت سمجھا جائے گا۔
آپ کا یہ قانونی فرض ہے کہ آپ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ممبروں اور ورکروں کو عزت بھی دیں اور انصاف بھی۔ پولیس اور انتظامیہ کے صرف وہی افسر حکومتی پارٹی کے ذاتی ملازم کا کردار ادا کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں جن کے مالی مفادات اُس پوسٹنگ کے ساتھ وابستہ ہوں، اس لیے فیلڈ پوسٹنگ سے چمٹے رہنے کے لیے وہ شرمناک حد تک گِرجاتے ہیں اور اپنے ادارے کے لیے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ پولیس سمیت تمام سول سرونٹس کو بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کی چٹاگانگ اور پشاور میں سرکاری افسروں کو دی گئی ہدایات غور سے پڑھنی چاہئیں اور ان کی روح کے مطابق ہر حال میں غیر جانبداری برقرار رکھنی چاہیے۔
اگر آپ سمجھیں کہ حکومت یا سینئر افسروں کے لیے آپ کی غیرجانبداری ناقابلِ برداشت ہوچکی ہے تو ضمیر کا گلہ گھونٹ دینے یا قانون اور انصاف پر سمجھوتے کرنے سے بہتر ہے کہ آپ فیلڈ سے ہٹ جائیں اور آئی جی کو کہہ کر کہیں اور پوسٹنگ کرالیں۔ فیلڈ کی نوکری سے چمٹے رہنے کے لیے حکومتی پارٹی کا ورکریا ملازم بن جانا انتہائی شرمناک طرزِعمل ہے جوکسی بھی باوقار اور باعزت پولیس افسر کو زیب نہیں دیتا۔ اگر آپ بہت اچھا افسر بننا چاہتے ہیں اور آپ کی یہ بھی خواہش ہے کہ آپ کو بہت اچھے لفظوں سے یاد کیا جائے تو آپ کو حکمرانوں کے غیرقانونی احکامات سنکر "NO" کہنے کی جرأت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
پولیس افسران پبلک سرونٹس ہیں، ان کی ذمے داری حکومت کی ہر جائز اور ناجائز خواہش پوری کرنا نہیں بلکہ قانون کا نفاذ ہے، کسی بھی حکومتی اہلکار یا سیاستدان کی ہدایات اگر آئین کے مطابق نہ ہوں اور قانون سے متصادم ہوں تو آپ ان پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ پولیس کا بہت اچھا لیڈر بننے کے لیے بہادری اور جرأتمندی اتنی ہی ضروری ہے جتنی دیانتداری اور غیرجانبداری۔ پولیس کمانڈر کی ذاتی دلیری اور جرأتمندانہ طرزِعمل پوری فورس کو inspire کرتا ہے۔
بدقسمتی سے مختلف عوامل کے باعث ہمارا معاشرہ سنگین جرائم کا گڑھ بن چکا ہے، جہاں خطرناک مجرموں کی سرکوبی کے لیے نرم پولیسنگ یا فائربریگیڈ پولیسنگ (جس میں وقوعہ ہونے کے بعدہی پولیس حرکت میں آتی ہے) کارگر ثابت نہیں ہوسکتی، ہمارے ہاں عوام کو تحفظ دینے کے لیے بڑی جارحانہ (aggressive) پولیسنگ کی ضرورت ہے، جس کے لیے پولیس افسروں کا جرأتمندہونا بے حد ضروری ہے۔ آپکو شہریوں کے دلوں سے خطرناک مجرموں کا خوف نکال دیں اور مجرموں کے دلوں میں پولیس کا ڈر اور خوف ڈالنا ہوگا۔
اگر مجرموں کو یقین ہو کہ فلاں افسر کے علاقے میں واردات کی تو ہمیں نشانِ عبرت بنا دیا جائیگا، تو وہ اُسکے علاقے میں واردات کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔ اگر پولیس افسروں کا ڈر، خوف اور دبدبہ ہوتا تو دن دہاڑے گریٹر اقبال پارک میں درندگی کے واقعات کبھی نہ ہوتے اور بھرے بازار میں کوئی شیطان رکشے میں بیٹھی لڑکی کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ کرتا۔ جن پولیس افسروں میں جارحانہ پولیسنگ کی ہمت یا صلاحیت نہیں، انھیں فیلڈ میں تعینات نہیں کیا جانا چاہیے۔
آپ پر فرض ہے کہ آپ اپنے تمام ماتحتوں کو عام آدمی کو اہمیت اور عزت دینے کے بارے میں خصوصی طور پر Sensitiseکریں۔ اگر عام آدمی یا سائل آپ سے براہِ راست آکر ملنا چاہتے ہیں تویہ کہہ کر ملنے سے انکار مت کریں کہ پہلے ڈی ایس پی یا ایس پی سے ملو۔ ہر سائل سے ملیں اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔
اپنے آرام دہ اور ایئر کنڈیشنڈ دفتروں میں نہ بیٹھے رہیں، عوام تک خود رسائی حاصل (reach out) کریں۔ اس سلسلے میں مختلف علاقوں اور بڑے قصبوں میں کھلی کچہریاں منعقّد کریں، ان کچہریوں کو SHOsکی صوابدید پر نہ چھوڑیں (میری پہلی کتاب دوٹوک باتیں کا آرٹیکل معززینِ علاقہ ضرور پڑھ لیں) کچہریوں کی خود نگرانی کریں اور ان کی کاروائی کو خود کنڈکٹ کریں۔ ہم نے گوجرانوالہ ڈویژن میں جمعہ کچہری کا بھی سلسلہ شروع کیا تھا، جوبڑا کامیاب رہا۔ ہر جمعہ کو، SHOs SDPO اور SPsمختلف مساجد میں نمازِ جمعہ کے بعد مسجد میں ہی بیٹھ کر عوام کے مسائل سنتے تھے اور وہیں فوری طور پر ان کا ازالہ ہوجاتا تھا۔ (جاری ہے)