Vella Graduate
ویلا گریجویٹ
نوجوانوں کی مادی آخرت ڈگری کرنے کے بعد شروع ہو جاتی ہے، یونیورسٹی کی زندگی کی رونقیں، گھر سے ملنے والی بھاری بھر کم پاکٹ منی، یار دوستوں کے ساتھ کیفے یا ریستورانوں پر برپا ہونے والی گپیں، ناران کاغان، نتھیاگلی مری کے وہ ٹوور، نئی نئی جنیز، نائیکی، پوما یا ایڈیڈاس کے جاگرز خریدنے کا چسکہ، یونیورسٹی کی کسی الہڑ مٹیارن سے نین لڑانے کی وہ ٹھرک، سب کچھ ڈگری کے بعد اڑن چھو ہو جاتا ہے۔
تعلیمی موت کے بعد کریئر بنانے کا عذاب قبر شروع ہو جاتا ہے، رشتہ دار منکر نکیر کی مانند پوچھتے ہیں، کہیں نوکری لگی کہ نہیں، ابا جی کی خشمگیں نگاہیں تاڑتے ہوئے کہتی ہیں۔
"پتر آگے دا کی اردا ہے"۔
جو اندر سے ہلا کے رکھ دیتی ہیں۔
یار دوستوں سے بیٹکھیں کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں، کیفے کے چکر لگنا کم ہو جاتے ہیں، یونیورسٹی کی وہ الہڑ مٹیارن جس سے کبھی آپ نین لڑاتے لڑاتے اس کے بارے میں "سیریس" ہو گے تھے، اس سے بھی پینگیں بڑھنا ختم ہو جاتی ہیں۔
پہلے پاکٹ منی کے نام پر گھر سے چائے دارو کا خرچہ مل جاتا تھا، اب غیرت وہ پاکٹ منی لینے سے بھی روکتی ہے۔
جاب کے لیے سی ویوں کا پورا تھان فوٹو کاپی کرا کے جگہ جگہ ایک عدد سی وی دی جاتی ہے، جہاں پہلے سے تیار شدہ جواب تڑاخ سے منہ پر دے مارا جاتا ہے۔
"ہمیں کم ازکم دو سال کا تجربہ چاہیے"۔
اب اللہ میاں نے ہمیں تجربے کی گٹھری دے کے دنیا میں بھیجا تھا نہیں کہ ریڈی میٹ تجربہ کار کے طور پر ہم دنیا میں آئے ہوں۔
اس لیے ویلا گریجویٹ تجربے کی پہاڑی شرط کو ٹھوکر سے نیم صحرائی کرکے اگلی جگہ سی وی دے دیتا ہے اور ٹک ٹاک یا انسٹا گرام پر کامیاب اور بلینئرز ہونے کے راز جیسی ویڈیوذ دیکھتا ہے۔
آج کل میں بھی تھوڑا سا ویلا ہوں، ڈگری مکمل کرنے کے بعد کی حیات بعد الڈگری بھگتا رہا ہوں، میرے لیے یہ والی حیات تھوڑی آسان اس لئے ہے کہ میں نے ساری گریجویشن پارٹ ٹائم جاب کے ساتھ کی ہے، صبح کلاسز لیتا اور شام جاب، اس لیے میں بی ایس کی شروعات میں تھوڑا بہت خودمختار ہوگیا تھا، اپنے کالج وغیرہ کے خرچے اور ناز برداریاں خود ہی اٹھانا شروع کر دی تھیں اس لیے اپنے خاندان سے نظریاتی بغاوت بھی افورڈ کر پایا۔
نہیں تو آپ اگر نوجوانی میں پٹری سے تھوڑا اتر کر کرانتی کاری بن جائیں تو گھر والوں کے پاس سب سے بڑی نکیل پاکٹ منی ہوتی ہے، جب وہ بند کر دیتے ہیں تو ساری بغاوت، روشن خیالی کی واٹ لگ جاتی ہے اور آپ توبہ تائب ہو کر "راہ راست" پر آجاتے ہیں۔
تو بات ویلے پن کہ ہو رہی تھی، آج کل تھوڑا سا ویلا ہوں تو دبا کر سیزن موویز دیکھ رہا ہوں، ان سے اکتاتا ہوں تو ٹک ٹاک کھول کے بیٹھ جاتا ہوں، لگتا ہے تک ٹاک بھی میرا محرم راز بن چکا ہے، ہر دوسری ویڈیو میں four things to become a successful والی الغم بلغم ہوتی ہے۔
ایک ریل میں لگتا ہے یہ والے انکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، کامیابی کا گر یہی ہے، یہی تو وہ راز کی بات تھی جس کو میں سمجھ نہ پایا تھا، آج سے اس بات کو دھوتی کے پلو کے ساتھ باندھ کر successful بن جاؤں گا۔
اتنے میں سکرول کرتا ہوں تو دوسرے خبطی قسم کے انکل بغیر ٹائی والا فینسی سوٹ، سارتر والا موٹی فریم کا چشمہ اور آدھے سر پر چپکی ٹنڈ پر کبھا ہاتھ پھیر کر کامیابی کا نیا گیان پیل دیتے ہیں، جی کرتا ہے پرانے والے کامیابی کے راز کو دھوتی کے پلو سے کھول کر اس والے کو مضبوط گانٹھ سے باندھ دوں۔ اس نسخہ کیمیائے سعادت سے میں پہلے محروم کیونکر تھا، یہی وہ گیڈر سنگھی ہے جو میرے کھنگال پن کو ختم کرے گی، میں ابھی سانڈ کی طرح اپنے کمفرٹ زون کو ٹکر مار کے محنت شروع کرتا ہوں۔ اسی سوچ میں غلطاں ہوتا ہوں کہ۔۔
اگلی ریل میں پھر سے five habits of successful man والی حرام زدگی منہ چڑا رہی ہوتی ہے۔
اپنا ماننا ہے کہ کامیابی فیکٹری میں تیار ہونے والی کوئی شے نہیں کہ جس کا ایک فارمولا ہو اور اس کو کاپی کرکے سب کامیاب ہو جائیں، کامیابی تھوڑا سا پیچیدہ عمل جسے آپ ہم محاورتاً "خدائی بانٹ" بھی کہہ سکتے ہیں۔
ہم موٹیوشین کے نام پر کامیاب ہونے کا لٹریچر پڑھ کر کچھ غیر حقیقت پسندانہ توقعات خود سے باندھ لیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سانڈ کی طرح اپنے کمفرٹ زون کو ٹکر مار کر کرچی کرچی کرکے ہم نئے اور کامیاب انسان بن جائیں گے، ایسا حقیقت میں نہیں ہوتا، کمفرٹ زون ہلکی سے عیاشی یا آرام پسندی اور ٹھوڑی سے محنت کی تیز آنچ۔ ان سب کا توازن ضروری ہوتا ہے۔
ہم ویلے گریجویٹ خود کو بیورو کریٹ سے کم سمجھتے نہیں ڈگری کے سٹینڈرڈز سے نیچے کا کوئی کام کرنا ہم گوارا نہیں کرتے، بغیر تیاری کے ٹیسٹ میں بیٹھ جاتے ہیں اور ناکام ہونے کی صورت میں سب سیٹیں بکی ہوئی تھیں والی کیسٹ چالو کر دیتے ہیں۔
جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کریئر ویلے گریجویٹ کو ایک آنکھ دبا کر معنی خیز اشارے سے بزبان اکبر آلہ بادی اپنے پاس یوں بلاتا ہے۔
میں بھی گریجویٹ یوں تم بھی گریجویٹ
علمی مباحثے ہوں، ذرا پاس آکے لیٹ
اکبر آلہ بادی نے یہ شعر کسی اور مقصد سے کہا تھا مگر فی الحال اسے کیرئر کے غیر پارلیمانی جذبات کی ترجمانی سمجھ لیں۔