Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Salahuddin
  4. 2025 Kya Lekar Aaye Ga?

2025 Kya Lekar Aaye Ga?

2025 کیا لے کر آئے گا؟

2024 کا سورج غروب ہو چکا ہے اور ہم ایک ایسے سال کو رخصت کر رہے ہیں جو معیشت میں استحکام تو لے آیا، لیکن ایک ایسی قیمت پر جو شاید ہمیشہ کے لیے یاد رکھی جائے۔ حقوق قربان کیے گئے، سیاست معطل ہوئی اور فیصلہ سازی چند ہاتھوں تک محدود رہی۔ مہنگائی، جو دہکتی آگ کی طرح سب کچھ جلا رہی تھی، اسے بے مثال بلند شرح سود کے ذریعے قابو کیا گیا۔ لیکن یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لیے ہم نے خود کو کہاں کھڑا کر دیا ہے؟

2024 نے ہمیں یہ سکھایا کہ "دوستانہ بیل آؤٹ" کا دور ختم ہو چکا ہے۔ یہ حقیقت سمجھنے میں ہمیں ایک دہائی لگ گئی۔ 2014 میں ہمیں پہلی بار ایک دوست ملک سے بیل آؤٹ ملا تھا اور ہم نے تب سے یہ فرض کر لیا کہ یہ سہولت ہمیشہ دستیاب رہے گی۔ لیکن 2024 کے واقعات نے ہمیں جھنجھوڑ دیا۔ اب ہمارے پاس یہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے شہریوں کی خوشحالی کا ضامن خود بننا ہوگا۔ کوئی اور ہماری معیشت کو نہیں سنبھالے گا۔

2024 کے بعد 2025 کا سوال یہ ہے: "اب کیا کریں گے؟" استحکام کے اس مختصر وقفے میں معیشت کے کئی بڑے سوالات ہمارے سامنے ہیں۔ ہمیں محصولات کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا، برآمدات کو بڑھانا ہوگا اور سرمایہ کاروں کو اعتماد دلانا ہوگا کہ پاکستان میں ان کی سرمایہ کاری محفوظ ہے۔ لیکن یہ سب کہنے میں جتنا آسان لگتا ہے، کرنے میں اتنا ہی مشکل ہے۔

سرمایہ کاروں کے ذہن میں ابھی حالیہ مشکلات تازہ ہیں درآمدی پابندیاں، منافع کی ادائیگیاں روکنا، زبردستی معاہدوں کی دوبارہ گفت و شنید اور آئی ایم ایف پروگرامز کی معطلی۔ یہ سب اعتماد کو مجروح کرتا ہے اور اعتماد کے بغیر معیشت کی تعمیر ممکن نہیں۔

2024 کے دوران حکمرانوں سے پوچھا گیا "کیا آپ یہ سنبھال سکتے ہیں؟" 2025 ان سے سوال کرے گا "اب کیا کریں گے؟" اور اگر موجودہ حکمت عملیوں کو دیکھا جائے، تو جواب مایوس کن لگتا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کو بار بار مالی مسائل کی جڑ ٹھہرایا جا رہا ہے۔ نان فائلرز پر شکنجہ کسنے کی باتیں ہو رہی ہیں، لیکن یہ سب چھوٹے اقدامات ہیں، جو بڑے مسائل کو حل کرنے کے بجائے وقتی تسکین دیتے ہیں۔

این ایف سی ایوارڈ کا ذکر اب ایک رسمی سی بات بن چکا ہے۔ ہر حکومت اسے اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے اور صوبے اسے اپنی کامیابیوں کا جواز پیش کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ این ایف سی کے تحت صوبوں کو منتقل کیے گئے وسائل سے کیا حاصل ہوا؟ کیا ان سے گورننس بہتر ہوئی؟ کیا ان وسائل نے سماجی خدمات، تعلیم، صحت، یا انفراسٹرکچر میں کوئی نمایاں فرق پیدا کیا؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ایک مکمل مطالعہ ہونا چاہیے۔ 2009 کے بعد سے صوبوں کو دیے گئے اضافی وسائل کا حساب لگایا جائے۔ کھربوں روپے کہاں خرچ ہوئے؟ کیا ان سے عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری آئی؟ کتنی رقم سماجی شعبوں پر خرچ ہوئی اور کتنی محض سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے یا دیگر غیر ترقیاتی اخراجات پر ضائع ہوگئی؟

یہ سب سوالات اہم ہیں، لیکن شاید ان کے جواب دینے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم ان سوالات کے حل تلاش کرنے کی سنجیدگی دکھائیں۔ کیا ہم واقعی ان وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یا ہم صرف پرانی باتیں دہرا کر آگے بڑھنے کا تاثر دینا چاہتے ہیں؟

2025 کے آغاز میں ہمیں کچھ بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ کیا ہم بلند شرح سود کے ذریعے مہنگائی کو مزید دبانے کی کوشش کریں گے؟ یا ہم ایسی پالیسیاں اپنائیں گے جو معیشت کو نمو کی طرف لے جائیں؟ کیا ہم بجلی کے شعبے میں اصلاحات کر سکیں گے، یا یہ شعبہ ہمیشہ کی طرح بوجھ ہی بنا رہے گا؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا ہم اپنے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کا عزم کر سکیں گے؟

یہ سوالات معمولی نہیں ہیں۔ یہ معیشت کی سمت طے کریں گے، لیکن ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ ہم ان سوالات کو حل کرنے کے بجائے ان سے نظریں چرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ شاید یہ وقت ہے کہ ہم ان مشکل سوالات کا سامنا کریں۔

2025 ہمیں ایک موقع دے رہا ہے، لیکن یہ موقع ہمیشہ کے لیے نہیں ہوگا۔ استحکام کا یہ لمحہ محض ایک وقفہ ہے۔ یہ وقت سانس لینے کا ہے، لیکن اگر ہم نے اس وقت کو ضائع کر دیا، تو بحران دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔

یہ نیا سال ہماری ترجیحات کو پرکھے گا۔ کیا ہم ماضی کی فرسودہ حکمت عملیوں پر انحصار کریں گے؟ یا ہم کچھ نیا سوچنے اور کرنے کی جرات کریں گے؟ یہ سوال نہ صرف حکمرانوں کے لیے ہے، بلکہ ہم سب کے لیے ہے۔

نیا سال مبارک ہو۔ شاید یہ وہ سال ہو جب ہم اپنے سوالات کے جواب تلاش کریں۔ یا شاید یہ بھی ایک اور موقع ہوگا، جسے ہم اپنی غفلت اور نااہلی کی بھینٹ چڑھا دیں گے۔ لیکن سوال یہی رہے گا کیا ہم ترقی کے لیے تیار ہیں؟ یا ہم محض استحکام کے دھوکے میں رہنا چاہتے ہیں؟

Check Also

2025 Kya Lekar Aaye Ga?

By Muhammad Salahuddin